بھمبر میں بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ سے دو پاکستانی
شہریوں کی شہادت کے بعد پاکستان کے ڈی جی ایم اونے بھارتی ہم منصب سے ہاٹ
لائن رابطے میں خبردار کیا ہے کہ بھارتی فورسز کی کارروائیاں ایل او سی پر
صورتحال مزید کشیدہ کرنے کا باعث ہیں۔ اس طرح کے غیر پیشہ ورانہ اور غیر
اخلاقی اقدامات امن کے لیے نقصان دہ ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ دیرپا امن کے
لیے بھارت فائربندی کے معاہدے پر عمل کرے اور الزام تراشی کے بجائے اپنا
قبلہ درست کرے۔دفتر خارجہ نے بھی بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کرکے
سویلین آبادی کو نشانہ بنانے پر شدید احتجاج کیا ہے۔بھارت کی جانب سے گزشتہ
کچھ عرصے سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بلااشتعال فائرنگ میں شدت
آتی جارہی ہے۔ جس میں بہت سے شہری شہید ہوچکے ہیں۔ بھارت کی جانب سے اس
غیرذمہ دارانہ رویے سے جنوبی ایشیاء میں امن کو شدید خطرات لاحق ہیں جو
فوری طور پر عالمی توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ بین
الاقوامی تعلقات میں تیزی اور وسعت پیدا ہورہی ہے۔ کہیں دشمنی دوستی میں
تبدیل ہورہی ہے تو کہیں حلیف بدلے جارہے ہیں۔ بہت سے معاملات حل ہورہیں تو
بہت سے بگڑ بھی رہے ہیں۔ کہیں امید و آس دم توڑ رہی ہے تو کہیں خوشحالی
دستک دینے لگی ہے۔ تاہم بدقسمتی سے کچھ ایسے دیرینہ مسائل بھی ہیں جو کئی
دہائیوں کے باوجود جوں کے توں ہیں۔ وہ دنیا میں خوفناک تباہی کا موجب بن
سکتے ہیں۔ تاہم اقوام عالم ان کے حل کے سلسلے میں ابھی تک کوئی موثر کردار
کرنے میں ناکام رہی ہیں۔انہی میں سے ایک مسئلہ کشمیر ہے جس کی وجہ سے
دوہمسایہ ایٹمی طاقتوں میں شدید کشیدگی چلی آرہی ہے۔ اس مسئلے کی بنیادی
وجہ تقسیم ہند کے فارمولے پر منصفانہ عملدرآمد نہ ہونا تھا۔ مسلم اکثریتی
علاقہ ہونے کی بناء پر اس کا الحاق پاکستان سے ہونا تھا مگر انگریزوں کی
مخاصمت، ہندوؤں کی مکاری کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ کشمیر کے عوام اس
ناانصافی کے خلاف آج تک سراپا احتجاج ہیں۔ پاکستان بھی اپنے اس حق سے کبھی
دستبردار نہیں ہوا۔ جنگ کشمیر کے بعد جب یہ معاملہ اقوام متحدہ لے جایا گیا
تو وہاں کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا گیا تاہم اس قرارداد پرآج تک
عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
یہ بات طے ہے کہ اس معاملے کوحل کئے بغیر پاک بھارت تعلقات کبھی نارمل
ہوسکتے ہیں نہ ہوں گے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارتی استحصال اور قبضے سے
نجات چاہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں آزادی کی تمنا اسی طرح موجود ہے جس طرح آج
سے ستر برس قبل ان میں موجزن تھی۔ سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج ہر ہتھکنڈہ
آزمانے کے باوجود ان کے جذبہ حریت کو دبا نہیں سکی ہے۔ ہر روز نیا سورج نئے
مجاہدوں کو جنم دے کر طلوع ہوتا ہے۔ بھارتی فوج اور حکومت مقبوضہ کشمیر میں
آزادی کی نئی نئی شورشوں کے سامنے بے بس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف
طریقوں اور ہتھکنڈوں سے اپنی اس خفت کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا سب
سے بڑا ہدف لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر سویلین آبادی ہے۔ جسے وہ
ہرروز نشانہ بناتے ہیں۔ یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے جن میں بہت سے شہری
شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ لاکھوں اربوں کی املاک تباہ ہوچکی ہیں۔ صرف رواں
برس میں اب تک 219بے گناہ شہری جن میں 112 خواتین اور 20 بچے شامل ہیں،
شہید ہوچکے ہیں۔ اب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ماضی میں بھارتی اشتعال
انگیزیوں سے کس قدر جانی و مالی نقصان ہوا ہوگا۔بھارت کی جانب سے لائن آف
کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کی خلاف ورزیوں کے حالیہ واقعات کے پس منظر میں
مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر میں شدت آنے کا پہلو نمایاں ہے۔بھارتی
میڈیا اور نام نہاد دانشور بھی کشمیریوں کی اس بڑھتی دیدہ دلیریوں پر
پریشان ہیں۔ مقبوضہ کشمیر سرکار جو پہلے ہی کٹھ پتلی کہلاتی ہے اس میں بھی
"پاکستان زندہ باد" کے نعرے گونج رہے ہیں۔مودی سرکار موجودہ عالمی تناظر
میں مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کی
سرتوڑ کرشش کررہی ہے۔ پاکستان پر "دہشت گردی اور دراندازی" کا الزام لگایا
جارہا ہے۔ خاص طور پر ٹرمپ کی جانب سے دی جانی والی تھپکیوں سے بھی بھارتی
جنون اور خبث میں اضافہ ہوا ہے۔ گوکہ پاکستان نے تحمل اور برداشت کی پالیسی
اپنا رکھی ہے اور خطے میں امن کا خواہاں ہے تاہم پاکستان کی اعلی قیادت
متعدد مرتبہ خبردار کر چکی ہے کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا
جائے۔ یقینا اس میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان ایک
ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی افواج پیشہ ورانہ مہارت اور جدید ترین اسلحہ سے لیس
ہیں۔ روایتی و غیرروایتی میدان جنگ میں وہ کسی بھی فوج کو پچھاڑنے کی مکمل
صلاحیت رکھتی ہیں۔ بھارت کی جانب سے کوئی بھی غلط فہمی خطے کو خطرناک
صورتحال سے دوچار کرسکتی ہے۔ ذرا سی مہم جوئی لاکھوں کروڑوں انسانوں کو
لقمہ اجل بنا سکتی ہے۔یہ صورتحال اس خطے کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے
لیے انتہائی تشویش کا باعث ہونی چاہئے ہے۔ ان حالات میں اقوام متحدہ سمیت
تمام عالمی قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام مفادات اور امتیازات سے
بالاتر ہوکر ایٹمی تناؤ کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ترجیحی بنیادوں
پر اپنا عملی کردار ادا کریں ورنہ جنوبی ایشیاء پر خطرناک ایٹمی بادل کسی
وقت بھی برس کر تباہی و بربادی کا سبب بن سکتے ہیں۔
|