سیاستدان ،جنت اور عوام!

 سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان آصف علی زرداری نے اپنے پرانے حریف میاں نواز شریف کے بارے میں ایک جذباتی بیان جاری کرکے حیرتوں کے دروازے کھول دیئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ’’․․ ہم میاں صاحب کے ساتھ جنّت میں بھی نہیں جائیں گے‘‘۔ زرداری کے اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کا جنت میں جانے کا منصوبہ تیار ہے۔ سیاستدانوں کی کامیابیوں پر خوشیاں منانے والے عوام کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اس خبر کو پڑھ کر خوشی کس طرح مناتے ہیں، وہ چاہیں تو خوشی سے لوٹ پوٹ ہو جائیں، موڈ ہو تو بھنگڑا ڈال سکتے ہیں، ہلّا گلّا بھی کیا جاسکتا ہے، ہا ہُو کے ذریعے آسمان سر پر اٹھانے کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے، ہے جمالو کیا جا سکتا ہے، ڈھول پیٹا جاسکتا ہے، آتش بازی (یا ہوائی فائرنگ ) بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خوشی منانے کے یہ تمام طریقے یار لوگ اپنی اپنی روایات کے مطابق اپنائیں، جیسے بھی ہو ملک بھر میں اس خبر پر جشن کا سماں ہو گا۔چلیں غنیمت ہے کہ مایوسی، ہنگامہ آرائی اور کشیدگی کے اس ماحول میں ایک خبر سے پوری قوم میں خوشی کی لہر دوڑ جائے۔ ظاہر ہے اگر زرداری صاحب کا جنت میں جانے کا پروگرام ہے تو میاں نواز شریف پیچھے کیوں رہیں گے، اگر میاں صاحب جاتے ہیں تو دیگر جماعتوں کے قائدین بھی یقینا اسی تیاری میں ہوں گے۔

مذہبی جماعتوں کے قائدین ہمیشہ اس طنز کا نشانہ بنتے ہیں کہ وہ جنت کے ٹھیکیدار ہیں، ایک فطری سی بات ہے کہ جنت کی بات کوئی مذہب پسند آدمی ہی کرے گا، مگر یہاں جنت میں جانے کی خبر جناب زرداری نے دی ہے، مسلمان ہونے کے ناطے ہر کوئی جنت کا طلب گار ہے۔ تاہم زرداری پر کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ ہوتی رہی ہے، ان کے الٹے سیدھے نام رکھے جاتے رہے ہیں، اور تو اور انہوں نے حیاتِ عزیز کے بہت سے سال انہی الزامات کی بنا پر جیل میں بھی گزار دیئے۔ اگرچہ عدالتوں نے ان پر ہونے والے مقدمات سے انہیں ایک ایک کرکے بری کردیا، یہ مقدمات میاں صاحب کے دور میں قائم کئے گئے تھے۔ مگر قوم کے ذہن سے اُن کی کرپشن کی باز گشت ابھی تک گونج رہی ہے، گویا عوام مجموعی طور پر زرداری کو باعزت برّی کرنے کے لئے تیار نہیں، تاہم عوام کے اپنے فیصلے ہیں اور عدالتوں کے اپنے، دونوں کے سامنے الگ دلائل اور مختلف ثبوت ہوتے ہیں، کسوٹی بھی مختلف ہے جس پر کسی سیاستدان کو پرکھا اور اقتدار کے ایوانوں تک بھیجا جاتا ہے یا تخت سے اتار کر گھر روانہ کر دیا جاتا ہے۔ آصف زرداری کی کرپشن کی حقیقت کیا ہے، یہ تو اندر کے لوگ ہی درست جانتے ہوں گے، یا جن کا واسطہ پڑا، یا جو خود چشم دید گواہ ہوں، مگر ایک چیز گناہوں کو جھاڑنے والی بھی ہے۔ عوام نے زرداری کے دورِ صدارت میں جس قدر منفی رویہ ان کے بارے میں اپنایا اورا ن کو جتنی مغلظات وغیرہ سے نوازا، یقینا ان کے گناہوں میں کچھ تو کمی واقع ہوئی ہوگی۔

لگتا تو نہیں کہ ایک سیاستدان جنت میں جانے لگے اور دوسرے اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیں گے، یقینا کوئی کسی کی ٹانگ کھینچے گا، کوئی دوسرے کو نااہل قرار دلوانے کی کوشش کرے گا، کوئی کسی پر الزامات لگوا کر عدالت کا دروازہ کھٹکھائے گا، یوں جنت میں داخلے میں تاخیر ہوتی جائے گی۔ مگر خوش قسمتی یہ ہے کہ وہاں کسی کی دوسرے کے بارے میں خواہش پر فیصلہ نہیں ہوگا، اس عدالت میں وکیل کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، وہاں تو ہر چیز کھول کر سامنے رکھ دی جائے گی، جس سے کسی کو انکار کی مجال نہ ہو سکے گی۔ اگر جنت میں جانا بھی خود سیاستدانوں کے بس میں ہوتا تو بڑے تماشے ہوتے، عوام کو دکھانے کے لئے یہ ایک دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو للکارتے اور دوسروں کی پگڑی اچھالتے ہیں، ان کی ایسی برائیاں بھی بیان کردیتے ہیں جن کا وجود نہیں ہوتا، اورا پنی ایسی خوبیاں سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں جو موجود نہیں ہوتیں۔ لیکن جب مفاد عزیز ہوتا ہے تو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اندر ہی اندر سے ایک ہو جاتے ہیں، اپنا فائدہ حاصل کرلیتے ہیں اور عوام نئی صورتِ حال کے مطابق ایک دوسرے سے الجھتے ہوئے اپنے قائدین کی صفائیاں پیش کرتے رہتے ہیں۔

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ سیاستدانوں نے کس طرح خود کو جنت کے قابل جان لیا، شاید اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ کے بارے میں اچھا گمان ہی رکھنا چاہیے کہ وہ گناہگاروں کو جنت میں بھیج ہی دے گا، آخر اس قدر وسیع وعریض جنت میں اور کس کو بسایا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ سیاستدان اپنے کام کو عبادت کا درجہ بھی دیتے ہیں، یعنی عوام کو وہ یہی بتاتے ہیں کہ ہم سیاست کو عبادت سمجھ کر کر رہے ہیں، یعنی عوامی خدمات اور اپنی مصروفیات کا جو سلسلہ انہوں نے شروع کر رکھا ہے، وہ سراسر نیکی ہے، ان کا ایک ایک لمحہ نیکی کی راہ میں ہی بسر ہو رہا ہے۔ اس قدر خدمات سرانجام دینے والے اور نیکیاں سمیٹنے والے سیاستدان جنت میں نہیں جائیں گے تو اور کہاں جائیں گے؟ یوں ان کی خوش قسمتی ہے کہ دہری شہریت کی طرح وہ یہاں بھی مزے میں اور وہاں بھی کامران۔ یہاں اقتدار، مراعات، استحقاق،پروٹوکول، سکیورٹی، ٹی اے ،ڈی اے اور بھی نہ جانے کیا کچھ؟ دنیا کی ہر سہولت انہیں یہاں دستیاب ہوتی ہے۔ جو سیاستدان اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل نہیں بھی کر سکے وہ بھی اپنی پارٹی کی حد تک احترام، پروٹوکول اور آگیا چھا گیا وغیرہ جیسے نعروں سے لطف اندوز ہونے اور اندر باہر کے دورے کرنے جیسی سہولتوں سے فائدہ ضرور اٹھاتے ہیں۔

ایساوقت ضرور آسکتا ہے کہ سیاستدانوں میں کوئی ایسا اختلاف سامنے آجائے کہ وہ اندر خانے بھی ایک نہ ہو سکیں تو جنت میں داخلہ مشکوک ہو سکتا ہے، جیسا کہ جناب زرداری نے کہا ہے کہ اگر میاں نواز شریف وہاں گئے تو ہم انکار کردیں گے۔ ایسا مناسب نہیں، اس طرح تو میاں نواز شریف بھی کہہ دیں گے کہ ہم عمران خان کے ساتھ جنت میں نہیں جائیں گے، یا جہاں موجودہ عدلیہ ہو گی ہم وہاں جانے سے باز آئے۔ (ہاں البتہ سابقہ ادوار کے ججز کے ساتھ جایا جا سکتا ہے)اسی طرح ایم کیوایم یا مذہبی سیاسی جماعتوں کا معاملہ بھی ہے، مولانا فضل الرحمن بھی بہت سے لوگوں کو وہاں برداشت نہیں کریں گے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ سب کو الگ الگ صوبے بنا دیئے جائیں، تاکہ وہا ں سیاسی ہنگامہ آرائی سے جنت کے ماحول کو محفوظ رکھا جاسکے، اور یہ اپنی اپنی حکومت کریں اور سکون سے رہیں۔ یہاں یہ خیال رہ رہ کر آرہا ہے کہ اگر سیاستدان جنت میں جانے کو تیار بیٹھے ہیں، بلکہ اپنی شرائط پر جنت جارہے ہیں، تو یہ عوام وغیرہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ان کے ووٹرز کا کیا بنے گا؟ یا ان کے بارے میں انہوں نے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ جنت جانے کا پروگرام ان کا اپنا ہی ہے، اس میں عوام شامل نہیں۔ ہمارے ذہن میں یہ بدگمانی اس لئے آئی ہے کہ جب یہ لوگ عوام کے ووٹ اور حمایت سے اقتدار میں چلے جاتے ہیں تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے، مکمل عیاشیاں کرنے کے بعد اگلے الیکشن کے موقع پر ہی نمودار ہوتے ہیں، جو لوگ حکومت میں جاتے ہوئے عوام کو نہیں پوچھتے وہ جنت میں جاتے ہوئے عوام کا خیال کب رکھیں گے؟ شاید عوام کو بھی کبھی اس بات کا خیال آجائے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427851 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.