وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ بجٹ
کے بغیر حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی، اسکے بغیر حکومت نظم و نسق نہیں
چلاسکتی، بجٹ عوام کی امنگوں کا عکاس ہے، حکومت کو تباہ شدہ معیشت ورثے میں
ملی تھی، ملک میں سرمایہ کاری اور ترقی کم تھی، شرح نمو 5.79 فیصد رہی جو
گزشتہ 13 سالوں میں سب سے زیادہ ہے، پاکستان تیزی سے ترقی کرنیوالے ممالک
کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے اور آج ملک دنیاکی 24 ویں بڑی معیشت ہے۔ وفاقی
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے وفاقی حکومت کی جانب مالی سال 2018-19ء کیلئے
5 ہزار932 ارب 50 کروڑ روپے حجم کا بجٹ پیش کیا جو موجودہ حکومت کا مسلسل
چھٹا بجٹ ہے اور ملک میں کسی بھی جماعت کو پہلی مرتبہ اعزاز حاصل ہوا۔ وزیر
خزانہ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ شرح نمو میں 5.79 فیصد رہی جو گزشتہ
13 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ موجودہ مالی سال میں مارچ تک افراط زر کی شرح
3.8 فیصد رہی، 5 برسوں کے دوران ٹیکس وصولیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ تاریخ کی کم ترین شرح سود کے باعث ملک میں ترقی کے
مواقع پیدا ہوئے، زرعی قرضوں پر شرح سود میں بھی کافی کمی آئی ہے، قیمتوں
میں استحکام پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ بجٹ دستاویز کے مطابق جاری
اخراجات کیلئے 478 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، وفاقی حکومت کا ترقیاتی
پروگرام کا حجم ایک ہزار 152 ارب اور ایک کروڑ روپے ہوگا، جنرل پبلک سروسز
پر اخراجات 3 ہزار 340 ارب روپے ہوں گے، دستیاب وسائل میں محصولات کا حصہ 2
ہزار 590 ارب روپے رکھا گیا ہے، دستیاب وسائل کا تخمینہ 4 ہزار 713 ارب 70
کروڑ روپے رکھا گیا جبکہ بیرونی دستیاب وسائل ایک ہزار118 ارب روپے رکھا
گیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی اور فیڈرل
ایکسائز میں اہم رد و بدل کیے گئے ہیں۔ بعض آئٹمز پر ٹیکس یا ڈیوٹی میں
اضافہ کیا گیا ہے اور بعض اشیاء پر ٹیکس اور ڈیوٹی میں کمی لائی گئی ہے۔
مجموعی طور پر 184.9 ارب روپے کے ریونیو اقدامات کئے گئے ہیں جبکہ 93.32
ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے۔ ایف بی آر کا دعویٰ ہے کہ اس کے اقدامات سے
ریونیو کا نیٹ اثر 91.17ارب روپے ہوگا۔ سیمنٹ،سگریٹ، ایلومنیم، آٹو پارٹس ،
سویا بین آئل پر ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے۔ کاپر کے سکریپ کی برآمد پر 30 فیصد
ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔ 5 ہزار سے زیادہ ڈیوٹی کی ٹیرف لائنز
میں شامل لاکھوں آئٹمز کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کے ریٹ میں مزید ایک فیصد کا
اضافہ کر دیا گیا ہے۔ موبائیل فون کی سی کے ڈی اور ایس کے ڈی کٹ کی صورت
میں درآمد پر 175 روپے فی سیٹ ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔ سگریٹ پر
فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کر دیاگیا ہے۔ اس وقت سگریٹ پر تین سطحوں پر
فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ اس کی پہلی 3740 کی موجودہ سطح کو بڑھا کر
3964 روپے، دوسری سطح جو اس وقت 1670 روپے ہے اسے بڑھا کر 1770 اور تیسری
سطح جو 800 روپے ہے اسے بڑھا کر 848 روپے ہے۔ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی
1 روپے 25 پیسے فی کلو گرام سے بڑھا کر 1 روپے 50 پیسے فی کلو گرام کر دی
گئی ہے۔ انکم ٹیکس کے قانون میں ایک اہم تبدیلی کی گئی ہے جس کے تحت نان
فائلرز 40 لاکھ روپے سے زیادہ کی پراپرٹی خرید نہیں سکیں گے۔ نان فائلرز پر
نئی گاڑیاں خواہ وہ ملک کی بنی ہوئی ہوں یا درآمد شدہ ہوں، خریدنے پر
پابندی لگا دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں پیش کردہ فنانس بل کی دیگر تفصیلات
کے مطابق سپر ٹیکس کا نفاذ بدستور جاری رہے گا۔ اس وقت بینکنگ کمپنیوں پر
تین فیصد اور نان بینکنگ کمپنیوں پر تیس فیصد کے حساب سے سپر ٹیکس نافذ ہے
تا ہم یہ ان کمپنیوں پر ہے جن کی آمدنی 50 کروڑ روپے سالانہ سے زائد ہے۔ یہ
تجویز کیا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال سے ہر سال تین پرسنٹ کے ٹیکس ریٹ میں
ایک فیصد کی کمی کی جائے گی۔ افراد اور ایسوسی ایشن آف پرسنز پر کارپوریٹ
ٹیکس کی شرح میں کمی لائی گئی ہے۔ آئندہ مالی سال سے اس کی شرح ہر سال ایک
فیصد کم ہوگی۔ 2018-19 میں یہ ریٹ 29 اور 2023 تک زیادہ سے زیادہ ریٹ 25
فیصد کر دیا جائے گا۔ نان فائلرز کیلئے اس وقت بینکوں سے کیش نکلوانے پر
0.6 فیصد کے حساب سے ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ ہے۔ اس کی شرح کو 0.4 فیصد کر دیا
گیا ہے۔ کوئلے کی درآمد کیلئے کمپنیوں پر 5.5 فیصد اور افراد پر 6 فیصد کی
شرح سے ٹیکس لاگو ہے۔ ان دونوں شرح کو 4 فیصد کر دیا گیا ہے۔ نان فائلرز پر
ودہولڈنگ ٹیکس کا ریٹ 7 فیصد سے بڑھا کر 8 فیصد کر دیا گیا ہے۔نئے مالی سال
کے بجٹ میں دفا عی شعبہ کیلئے گیارہ کھرب ، تین ارب چونتیس کروڑ روپے مختص
کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال 2017-18کے نظرثانی شدہ دفاعی بجٹ سے ایک
کھرب روپے سے کچھ زائد ہے۔ واضح رہے کہ سال 18-2017 کے بجٹ میں دفاع کیلئے
9 کھرب 20 ارب روپے رکھے گئے تھے، جبکہ نظر ثانی شدہ دفاعی بجٹ نو کھرب نوے
ارب تک جا پہپنچا تھا۔ پاکستان کے روایتی حریف بھارت کے باسٹھ ارب ڈالر کے
نئے دفاعی بجٹ ، افرط زر کی شرح اور مہنگائی کو مدنظر ر کھتے ہوئے ایک کھرب
کا اضافہ علامتی نوعیت کا ہے۔ امریکہ کی طرف سے کولیشن سپورٹ فند کی مکمل
بندش اور دفاع و سلامتی کیلئے امداد ختم کرنے کے بعد اب انسداد دہشت گردی
کے آپریشنوں اور ان کیلئے درکار اسلحہ، آلات کے تمام تر اخراجات کا بوجھ
بھی دفاعی بجٹ پر آن پڑا ہے۔ نئے مالی سال کے دفاعی بجٹ میں گیارہ کھرب
دفاعی خدمات ، جبکہ باقی ڈیفنس ڈویڑن، سروے آف پاکستان اور چھاونیوں میں
قائم تعلیمی اداروں کے لئے ہے۔ خیال رہے کہ رواں مالی سال کے دفاعی بجٹ
میں18/ 2017 کی بہ نسبت دس فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔ اس بظاہر اضافہ کے
باوجود اگر بھارت اور پاکستان کے دفاعی میزانیہ کا موازنہ کیا جائے تو ہوش
ربا اعدادو شمار سامنے آتے ہیں۔ جن کے مطابق بھارت اور پاکستان کے دفاعی
بجٹ میں فرق اکیاون ارب ڈالر سے بھی بڑھ چکا ہے۔ دو فروری کو بھارتی وزیر
خزانہ ارون جیٹلی نے19/ 2018 کیلئے بھارت کے جس دفاعی بجٹ کا اعلان کیا وہ
امریکی ڈالرز میں ساڑھے باسٹھ ارب ڈالر کا بنتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے
نئے مالی سال کے دفاعی بجٹ کا کل حجم گیارہ ارب ڈالر سے کچھ ہی زیادہ ہے۔
یہ طے ہے کہ پاکستان کی معیشت نہ تو بھارت کے فوجی بجٹ کا مقابلہ کر سکتی
ہے اور نہ ہی پاکستان کی سول اور فوجی قیادت اس غیر حقیقت پسندانہ مسابقت
میں پڑنا چاہ رہی ہے۔سابق صدر آصف زرداری نے بجٹ پر ردعمل میں کہا ہے کہ
بجٹ پر تبصرہ بے معنی ہے، اس بجٹ کی قانونی اور سیاسی حیثیت نہیں۔ اس بجٹ
کا محرک صرف لالچ اور سیاسی عزائم ہیں۔ سندھ حکومت 3 مہینے کا بجٹ پیش کرے
گی۔ آخر وفاقی حکومت سارے سال کا بجٹ کیوں پیش کر رہی ہے۔ پبلک سیکٹر
ڈویلپمنٹ پروگرام کے منصوبوں میں کمشن کا چکر ہے۔ پی ایس ڈی پی منصوبوں میں
صوبوں کو نظرانداز کرنا وفاق سے دور کر دے گا۔ کسی حکومت نے صوبوں کے خدشات
پر اتنی بے حسی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری
نے کہا ہے کہ حکومت کا پورے سال کا بجٹ پیش کرنا قبل از وقت دھاندلی ہے۔
حکومت نے آنے والی حکومت کا حق مارا۔ حکومت نے بجٹ پر وزراء اعلیٰ کے
تحفظات کو نظرانداز کر دیا۔ آنے والی حکومت کا حق چھینا گیا، وہ 4 بجٹ پیش
کر سکے گی۔ملی مسلم لیگ کے صدر سیف اﷲ خالد نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں
غریب عوام کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔بجٹ کا30فیصد سودی قرضوں کی
ادائیگی کے لئے رکھا گیا جو حکمرانو ں کی نااہلی ہے۔صحت کے لئے گزشتہ برس
کی نسبت23ارب کی کٹوتی کر دی گئی۔لوڈشیڈنگ کے خاتمہ، صاف پانی، انصاف اور
مفت تعلیم کی فراہمی کا کوئی ایک وعدہ پورا نہیں کیاگیا۔مسلم لیگ (ن) کی
حکومت صرف ایک ماہ کی مہمان ہے مگر اس نے بجٹ پیش کردیا۔ الیکشن قریب ہیں ‘
اس لئے حکومت نے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے من مرضی کا بجٹ پیش کیا ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ قوم پر قرضوں کا مزید بوجھ ڈال
دیا گیا۔ حکومتی قرض کا بوجھ اگلی نسلیں اٹھائیں گی۔ بجٹ میں عام آدمی
کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ حکومت کا چھٹا بجٹ ہے لیکن لوڈشیڈنگ کیخلاف آج بھی
ہڑتال ہے۔ چھوٹے صوبوں کیلئے کوئی بڑا منصوبہ نہیں رکھا گیا۔ یہ قومی نہیں
پارٹی بجٹ لگتا ہے۔ دو ماہ کی مہمان حکومت کو پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کا
کوئی اختیار نہیں تھا حکومت نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا اور آنے والی
حکومت کا آئینی حق چھینا۔ حکومت نے بجٹ پیش کرنے کے لیے ایسے شخص کو وفاقی
وزیر کا عہدہ دیا جو پارلیمنٹ کا رکن تھا نہ عوامی نمائندہ۔ اس بجٹ کو غیر
آئینی اور غیر منتخب حکومت کا بجٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ بجٹ میں عام آدمی
کو ریلیف دینے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ صوبوں کو ان کا جائز حق دینے کی
کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی ہے۔ خسارے کے اس بجٹ سے معاشی ترقی اور
خوشحالی کے حکومتی دعووں کا پول کھل گیا ہے۔ قبائلی عوام کے لیے بھی کچھ
نہیں رکھا گیا۔ کراچی کے لیے بڑے پیکیج کا اعلان نہیں کیا گیا۔
|