مسئلہ ہراساں کئے جانے کا!

 اگرچہ علی ظفر نے معمولی اور مختصر سی تردید کو ہی کافی جانا ہے، یا ایک بیان ابتدا میں ان کی والدہ کی جانب سے آیا تھا، یا شاید وہ کسی موثر اور مدلل جواب کا بندوبست کر رہے ہوں، مگر ایک خاتون کی طرف سے پھینکی جانے والی یہ چنگاری کیا بُجھتی کہ مزید کئی چنگاریاں الاؤ بھڑکانے کے عمل میں معاون بن چکی ہیں۔ ٹی وی چینلز پر ’’انٹرٹینمنٹ‘‘ کا یہ سلسلہ بڑے زور وشور سے جاری ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ المیہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ہراساں کو ’حراساں‘ بھی لکھا جارہا ہے، جس ٹی وی نے قوم کی علمی رہنمائی کا ذمہ اٹھانا تھا وہ مستقبل خراب کرنے پر مامور ہو چکا ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر کسی بات کو بظاہر شرمناک قرار دیا جانا چاہیے، اسے تفصیلات اور جزویات کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے، بعض خواتین نے مزید اعترافات کاسلسلہ شروع کر رکھا ہے تو بعض نے دوسروں پر الزامات دھرنے کا اہتمام کر رکھا ہے، یوں یہ گھمسان کی لفظی جنگ ہمارے میڈیا کے مہیا کردہ پلیٹ فارم پر لڑی جارہی ہے۔ بظاہر یہ ایشو بھی دیگر معاملات کی طرح جلد ہی وقت کی اڑائی ہوئی گرد میں دب کر اپنا وجود ختم کر دے گا، یا لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا، تاہم یہ ایسے واقعات کے اسباب جاننے اور ان کا سدّ ِ باب کرنے کے بارے میں بھی کچھ غور وفکر کیا جانا چاہیے۔

شوبِز کے بارے میں عام لوگوں کی رائے بھی کوئی اچھی نہیں ہوتی، دوسری طرف اسی بُری رائے کو شو بز کے لوگ یا ان کے بہت سے چاہنے والے بھی اچھا نہیں جانتے۔ اِن ’’سٹارز‘‘ کے بہت سے پرستار ہوتے ہیں، وہ بھی اپنے پسندیدہ لوگوں کو کسی سکینڈل یا کسی ناپسندیدہ الجھن میں پھنسا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔ مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ فلم، ڈرامہ یا ماڈلنگ وغیرہ کی اس دنیا میں دو الگ کہانیاں ہوتی ہیں، کیمرہ کے سامنے کچھ اور ہوتا ہے اور کیمرہ کے پیچھے کچھ اور۔ کیمرے کے سامنے کوئی منظر اگر دنیا کو دکھایا جاتا ہے، تو کوئی بعید نہیں کہ کیمرے کے پیچھے ویسا ہی منظر ’ہراسگی‘ کہلائے۔ کسی جوڑی کے تعلقات تو سکینڈل کی صورت میں سامنے آتے رہے ہیں، لوگوں پر الزامات بھی لگتے رہے ہیں، مگر ایک مدت بعد کسی کو ہراساں کرنے کے بارے میں انکشاف کا سلسلہ شاید اب شروع ہوا ہے۔ جب ایسا کیا گیا تب راز کیوں نہ کھولا گیا؟ بتایا جاتا ہے کہ مجبوری تھی، یعنی مفاد تھا، ’ترقی‘ کے راستے میں پہلا قدم رکھنے کے لئے خراج دینا پڑا، بدنامی کا ڈر تھا اور بھی نہ جانے کتنے جواب ہیں، جو دیئے جاتے ہیں۔ خواتین کو ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب بات کھلنے لگی ہے تو شو بز وغیرہ کی بہت سی خواتین نے راز اگلنا شروع کردیئے ہیں، کب ہراساں کیا گیا؟ کتنی مرتبہ ایسا ہوا؟ یہ بھی بتایا گیا کہ ہراساں کرنے میں اکثر مرد ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، اور اکثر خواتین کو اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔

شوبز کی دنیا میں مرد اور خاتون کی جسمانی بے تکلفی عام ہوتی ہے، اس میں بعض مناظر سر عام دکھائے جاتے ہیں اور بعد علامتی طور پر سامنے لائے جاتے ہیں کہ دیکھنے والا کچھ تشنگی محسوس کرے اور نتیجہ بھی خود ہی برآمد کیا کرے۔ بہت سے قصے کہانیاں میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں، بہت طویل مدتی دوستیاں چلتی ہیں، یعنی دوستی کا دورانیہ کئی برس تک محیط ہوتا ہے، اسی حال میں وہ شوٹنگ یا کسی اور بہانے غیر ممالک کے دورے بھی اکٹھے ہی کر آتے ہیں، ایسے میں نہ ان پر کوئی الزام لگتا ہے اور نہ کوئی انگلی اٹھتی ہے، ایسے میں اگر انگلی اٹھے گی تو اس انگلی کو مروڑ دیا جائے گا، کیونکہ وہ دوسروں کے کام میں مداخلت قرار پائے گی اور ایسا کرنا غیر اخلاقی حرکت ہے، گویا دوسروں کی آزادی پر شب خون مارا جارہا ہے، ہر کسی کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔ جب کسی کو جنسی یا کسی اور طریقے سے ہراساں کیا جارہا ہوتا ہے، اس وقت آزادی کے گیت گائے جارہے ہوتے ہیں اور جب عرصہ بعد ہراساں کرنے کی خبر آتی ہے تو بھی آزادی ہی سامنے آتی ہے، کہ ہماری آزادی میں مداخلت کی گئی، یا ہماری مرضی کے خلاف کوئی اقدام کیا گیا۔

ہراساں کئے جانے کے مواقع (زیادہ زور جنسی ہراساں پر ہے) ہمیشہ وہاں نمودار ہوتے ہیں، جہاں مخلوط ماحول ہوگا۔ اس ضمن میں چونکہ شو بز کی کہانی سب سے نمایاں ہے، اور انہیں ایک دوسرے سے جسمانی بے تکلفی کا اہتمام کرنا ہی پڑتا ہے،ا س لئے وہاں ایسی کہانیاں زیادہ وجود میں آتی ہیں، ورنہ یہ سلسلہ ہر اس مقام پر موجود ہے جہاں مخلوط اجتماع ہے۔ وہ یونیورسٹیاں ہی کیوں نہ ہوں، کونسی یونیورسٹی ہے جہاں ہر سال بے شمار طلبا حصولِ علم کے ساتھ ساتھ جیون ساتھی کا انتخاب بھی کر چکے ہوتے ہیں، کچھ کامیاب ہو جاتے ہیں، کچھ عشق کی داستانوں میں اضافے کا موجب بن جاتے ہیں اور کچھ تعلیمی ادارے سے جاتے ہوئے ڈگری کے ساتھ زندگی بھر کے پچھتاوے اور رسوائیاں بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں سے بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جو منظر عام پر نہیں آتے، یا کم از کم کسی بدنامی کی منزل کو نہیں پہنچتے۔ چند ماہ قبل بہاولپور میں اسلامیہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے ایک ہوٹل میں اپنی کلاس فیلو کو قتل کیا اور خودکشی کرلی۔ معاملہ طلبا تک ہی محدود نہیں، گزشتہ کئی مہینوں میں میڈیا پر جامعات کے معزز اساتذہ کے ایسے ہی واقعات سامنے آرہے ہیں، جن میں نہ صرف طالبات کو ہراساں کیا گیا بلکہ ان کی زندگیوں کی بربادیوں کی کہانیاں بھی سنائی دیں۔ ملتان یونیورسٹی کے اساتذہ کے بعد سندھ میں بھی ایسی ہی صورت حال سامنے آئی، جب ایک طالبہ سامنے آئی تو پھر پیچھے متاثر اور جنسی ہراساں ہونے والی طالبات کی قطاریں دیکھنے کو ملیں۔

ہماری حکومتوں نے دفاتر میں بھی خواتین کا کوٹہ مقرر کر رکھا ہے اور از راہِ کرم ہراساں کئے جانے کے امکانات کے پیش نظر ایسی خواتین جج بھی مقرر کردی ہیں جو کام والی جگہ پر ہراساں کی جانے والی خواتین کی داد رسی کریں گی۔ قوم کے لئے یہ خبر کسی انقلابی خوشخبری سے کم نہیں کہ پاکستان کی ایک معروف سیاستدان کشمالہ طارق نے پاکستان کی احتساب کمشنر کا حلف اٹھا لیا ہے، وہ ایسے ہی مقدمات کو دیکھیں گی، صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین نے ان سے حلف لیا ہے۔ کام والی جگہ پر ہراساں کرنے کا عمل جاری ہے، کیونکہ جہاں ایسا ماحول ہوگا وہاں بشری کوتاہی سے بچ کر رہنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ تضاد بھی معاشرے میں ناسور کی طرح پذیرائی حاصل کر رہا ہے کہ ہر طرح کی آزادی ہونی چاہیے، ایسے مخلوط ماحول کے ناقد ین کو بے حد تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں تنگ نظر اور منفی سوچ کے حامل افراد قرار دیا جاتا ہے، بتایا جاتا ہے کہ جو خواتین مخلوط نظام میں کام کرتی ہیں وہ خود اعتمادی کی دولت سے مالامال ہوتی ہیں، مگر جونہی ہراساں کرنے کی بات آتی ہے تو پھر سر پر بازو رکھ کر آہ وبکا شروع کردی جاتی ہے۔ گزشتہ رات تمام چینلز نے پی آئی اے کی یونین کے الیکشن میں کامیابی کا ’’جشن‘‘ اور بھارتی گانے ’’لیلیٰ‘‘ پر پاکستانی فضائی میزبانوں کا وہ رقص دکھایا، کہ دیکھنے والے ہیجانی کیفیت کا شکار ہوگئے۔ ایسے ماحول میں ہراساں کئے جانے کے امکانات کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔ شاید جشن وغیرہ میں ایسا ہو جانا کوئی ناممکن نہیں۔ اگر ہراساں کئے جانے کے عمل کو روکنا ہے، تو ایسا کرنے والے کو سزا ملنی چاہیے، (جو فریق بھی ذمہ دار ہو)، مخلوط اور آزاد ماحول پر کڑی نظر رکھنا ہوگی، ورنہ ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 430493 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.