نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہٰ
حضور اکرم ؐ تاجدار عرب و عجم، فخر موجودات، سرور کائنات ﷺ تاریخ عالم کی
وہ عظیم الشان ہستی ہیں جن کی مثال کرۂ ارض پر کہیں نہیں ملتی۔ آپؐ کی
شخصیت اس قدر جامع، مکمل، ارفع، اعلیٰ، منزہ، مقدس، محترم اور مکرم ہے کہ
اس کی مدح و ستائش سے قلم عاجز، ذہن عاری اور زبان گنگ ہے۔ بھلا وہ ذات ِ
پاک جس کی قدم بوسی کے لیے فرشِ زمین بے تاب اور اقدس پر جبینِ نیازجھکانے
کو عرشِ بریں محو اضطراب ہو مجھ ایسی ناچیز کے خیالات و جذبات میں کس طرح
سما سکتی ہے بلکہ انسان تو کجا فرشتے بھی اس مقام پر حاضری دیتے ہوئے اجازت
طلب کرتے ہیں۔
روزِآفرینش سے اب تک ہزاروں داعیانِ انقلاب تشریف لائے، ان میں صالحین بھی
تھے پیغمبرانِ عظام اور اولیائے کرام بھی ، جنہوں نے دِلوں کی سلطنتیں
تسخیر کیں۔دعوت ِ انقلاب لانے والوں میں سیدنا آدم ؑ سے لے کرحضرت عیسیٰ تک
ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی طویل فہرست موجود ہے۔ لیکن کسی داعی ٔ
انقلاب کو وہ کامیابی نہ ہوئی جو حضور اکرم ؐ کو حاصل ہوئی۔ آنحضورؐ کی
سیرت میں عملی نمونے اس قدر ہیں کہ ہر شخص کو رہنمائی میسر آسکتی ہے۔آپؐ نے
جو فرمایا کر کے دکھایا۔
ہوئی انوار کی بارش قدم رکھا محمدؐ نے
زمین کو چومنے عرشِ معلی بار بار آیا
ؐ12 ربیع الاوّل کا سورج بے کس، مجبور و مقہور انسانوں کے لیے خوشیوں کی
نوید لایا۔ کیونکہ غلاموں کے طوق اُترنے والے تھے ، یتیموں مسکینوں کی حاجت
روائی ہونے والی تھی اورلونڈیاں آزاد ہونے والی تھیں۔عورتوں کو باعزّت مقام
ملنے والا تھا ، معاشی استحکام ختم ہونے والا تھا۔ کیونکہ اس دن خدا کے
حبیب رسول کریمؐ تشریف لائے تھے۔خاتمِ پیغمبراں حضرت محمد ؐ ، محبوب ِلامکاں
قبلہ گاہِ عاشقاں کی ذات گرامی ہمارے لئے ایک تابناک سیرت ہے۔اس کا ہر پہلو
ہماری زندگی کا حاصل ہے کیونکہ آپؐ کی حیات مبارکہ کے اخلاق فاضلہ میں جس
صفتِ عالیہ نے دشمنوں کو آپ کے سامنے سر نگوں کیا، وہ آپؐ کا عدل و انصاف
ہے۔آپؐ صادق و امین اور رحمت اللعالمین ہیں۔ آپؐ اسلامی ریاست کے پہلے قاضی
القضاۃ (چیف جسٹس) تھے ۔اسلامی ریاست کے قیام سے پہلے بھی کفار اور یہودی و
انصاری آپؐ کے پاس اپنے تنازعات کے فیصلے کے لیے آیا کرتے تھے ۔ کیونکہ وہ
جانتے تھے کہ محمدؐ کسی رعایت کے بغیرصرف انصاف کریں گے۔ ایک مرتبہ آپؐ کے
سامنے کسی مسلمان اور یہودی کا مقدمہ پیش ہوا۔ یہودی نے اپنا حق ثابت کر
دیا تو آپؐ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا اور ہرگز خیال نہ کیا کہ اس سے
مسلمانوں میں بددلی پیدا ہوگی۔
آج مغربی معاشرے کو اپنے قانون اورعدل کے معیار پر بڑا فخر ہے لیکن ضابطہ
جاتی قوانین میں اس قدر خامیاں ہیں کہ انصاف عملی طور پر مہیا ہی نہیں ہوتا۔
شہادت کے ضابطے اس قدر پیچیدہ ہیں کہ انسان جرم کر کے صاف بچ جاتا ہے۔ لیکن
سرورِ کائنات کی عدالت ِعالیہ میں آجائیں اور دیکھیں کہ انصاف کیسے ہوتا
ہے۔ایک بار آپؐ کی عدالت میں قبیلہ کی ایک خاتون فاطمہ کو لایا جاتا ہے جس
پر چوری کا الزام ہے آپؐ مقدمہ کی سماعت فرماتے ہیں اورالزام ثابت ہو جاتا
ہے۔ آپؐ اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرما دیتے ہیں۔ بڑے بڑے رؤسا آ کر
سفارش کرتے ہیں کہ خطا معاف کر دی جائے۔ ہا تھ کاٹنے کی بجائے کوئی دوسری
سزا دی جائے، آپؐ فرماتے ہیں: ’’ خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے
اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کی سزا
دیتا، تم سے پہلے لوگوں کو اس چیز نے ہلاک کر دیا کہ جب کوئی بڑا آدمی چوری
کرتا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور کمزورآدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے
تھے۔‘‘ایک صحابی نے اپنے بیٹے کو کچھ عطا کیا۔ آپؐ کو معلوم ہوا کہ اس نے
دوسرے بیٹوں کو نظر انداز کر دیا ہے تو فرمایاکہ اﷲ سے ڈرو اور اپنی اولاد
کے مابین عدل کرو‘‘۔
تاریخ ِ اسلام گواہ ہے کہ آپؐ نے عدل و انصاف کی ایسی ایسی مثالیں قائم
فرمائیں کہ مخالفین کو ان کی منصفانہ صفات اور صداقت و امانت کا معترف ہونا
پڑا۔ایک مرتبہ مجمع میں شمعٔ رسالت کے پروانے محفل آراء تھے۔ آپؐ فرماتے
ہیں تُم میں سے کوئی شخص ہے جس کو محمدؐ نے تکلیف پہنچائی ہو اوراس نے مجھ
سے بدلہ نہ لیا ہو۔ ایک صحابی اٹھ کر کہتے ہیں۔ یا نبیؐ ! آپ نے ایک مرتبہ
میری پیٹھ پر چھڑی ماری تھی، انصاف کا تقاضا ہے کہ مجھے بھی چھڑی مارنے کی
اجازت دی جائے۔آپؐ سب کے سامنے اپنی کمر اس صحابی کے سامنے کر دیتے ہیں۔ وہ
صحابی عرض کرتے ہیں، یا رسول اﷲ میں اُس وقت ننگے بدن تھا۔ آپؐ اُسی و قت
اپنی کمر سے قمیض ہٹا دیتے ہیں تاکہ صحابی بدلہ لے سکے۔ صحابی آگے بڑھ کر
مہرِ نبوت کا چوم لیتا ہے اور کہتا ہے : یا رسول اﷲ مجھے انصاف مل گیا۔
خُدا کی قسم ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ میں مہرِ نبوت کوبوسہ دوں، یہ خواہش
پوری نہیں ہو رہی تھی۔ انصاف لینے کا تو ایک بہانہ تھا۔سبحان اﷲ! ہے دنیا
میں کوئی ایسا حاکم، کوئی ایسا منصف جو اپنی ننگی پیٹھ انصاف کے لیے کسی کے
سامنے پیش کر دے۔
آپؐ کا قول و فعل ، احکامِ قرآن کی تفسیر سب ایک ہیں۔ معاشرے میں امن چین
اور سکون صرف اور صرف عدل و انصاف سے پھیلتا ہے۔ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے کہ:
’’اﷲ تعالیٰ قضیہ کافیصلہ حق سے کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اور کسی قوم کی دشمنی
تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو کہ یہ تقویٰ
کے قریب تر ہے۔‘‘ عدل و انصاف شریعت کی روح ہے۔ ہمارے معاشرے میں زوال کی
بڑی وجہ عدل وانصاف کا اُٹھ جانا ہے۔عدل صرف فوجداری و ریاستی مقدمات میں
ہی نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کے ہر معاملے میں عدل ضروری ہے۔ ناپ تول کے
معاملے میں بھی انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، کاروبار میں، عبادت و ریاست
اور سیاست و معیشت میں بھی عدل و انصاف سے کام لیا جائے ۔ غرض انصاف کے
تقاضے اگر زندگی کے ہر معاملے میں پورے کیے جائیں تو محبت و اخوت کی وہ
فضاء پیدا ہو گی کہ پورا عالمِ اسلام سیسہ پلائی دیوار بن جائے گا، انشاء
اﷲ ! |