تحریک بچاؤ مہم کا آغاز

یہ حقیقت سب پرعیاں ہے کہ محاز رائے شماری کی کھوکھ سے جنم لینے والی تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ مقبول بٹ شہید کی پھانسی اور برطانیہ میں مہاترے کیس کے بعد جموں کشمیر کی قومی تحریک کے طور پر ابھری اور چند سال تک بھارتی مقبوضہ کشمیر میں لبریشن فرنٹ کے حاجی گروپ کی قیادت میں جد و جہد نے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا لیکن بھارت کو اس وقت سہارا مل گیا جب جموں کشمیر کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے والی قوتوں نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو محدود اور کنٹرول کرنے کے لیے پہلے اسکی بظاہر حمایت کرتے ہوئے اپنے لوگ اس میں داخل کیے اور پھر ان لوگوں پر مشتمل درجنوں تنظیمیں قائم کر کے لبریشن فرنٹ کے خلاف جہاد شروع کر دیا جس کے نتیجے میں کشمیریوں کے ہاتھوں کشمیری قتل ہوئے۔ انہی قوتوں نے آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے لبریشن فرنٹ کے بانیوں کو یا تو خریدنے یا انہیں سائڈ لائن کرنے کی سازش کی لبریشن فرنٹ کے اندر ایسے لوگ داخل کیے گے جنہیں جب بھی کسی نے آ ئین شکنی سے روکا تو انہوں نے ان لوگوں کے خلاف منفی پروپگنڈہ شروع کر دیا جنہوں نے اپنا سب کچھ تحریک و تنظیم کے لیے قربان کر دیا جسکی وجہ سے لبریشن فرنٹ بار بار گروپ بندی کا شکار ہوئی۔ جب بھی لبریشن فرنٹ نے کوئی بڑا کام کیا تو اسے پیش رفت سے روکنے کے لیے کوئی نہ کوئی نیا تنازعہ کھڑا کر دیا جاتا ہے اور مختصر ترین کال پر لبیک کہنے والے لبریشن فرنٹ کے ہزاروں کارکنوں کی جد وجہد کو ہائی جیک کر لیا جاتا ہے جیسا کہ حالیہ امن مارچ میں بھی ہوا جس میں ہمارا ایک قیمتی ساتھی نعیم بٹ شہید ہو گیا۔ ہر ادمی جموں کشمیر میں پاک۔بھارت گولہ باری کے خلاف احتجاج کی ضرورت محسوس کر رہا تھا گو اسکا اعلان عجلت میں ہوا اور وسیع تجربہ رکھنے والے لبریشن فرنٹ کے بانی و بنیادی لوگوں سے مشاورت نہ کی گئی لیکن پھر بھی اکثریت نے اسکی حمایت کی کیونکہ عوام آر پار کی گولہ باری سے سخت تنگ تھی اس مارچ سے ایک بار پھر یہ پیغام ملا کہ جموں کشمیر کے عوام کسی بھی آزادی پسند تنظیم اور شخصیت کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں لیکن ہماری تحریک کو ہائی جیک کرنے والوں نے ایک بار پھر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ کشمیریوں کی قومی تحریک نہیں بلکہ خطے کی دو بڑی قوتوں ہندوستان اور پاکستان کا علاقائی جھگڑا ہے۔ امریکہ سے لبریشن فرنٹ کے بانی رہنماء راجہ مظفر خان کی طرح چند تجربہ کار ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ سیز فائر لائن کی طرف مارچ کرنے کے بجائے کسی جگہ دھرنا دے کر بین القوامی میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں کو دعوت دے کر دو طرفہ گولہ باری کے خلاف عالمی برادری کی توجہ حاصل کی جائے مگر اس تجویز کو صرف رد ہی نہ کیا گیا بلکہ اسکا بر ابھی منایا گیا کچھ ایسے منفی بیانات داغے گے کہ عزت دار لوگوں کے لیے سوشل میڈیا کے شیروں سے جان چھڑانا مشکل ہو گیا تب سے راجہ مظفرخان گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان سے جب نئی صورت حال پر بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ تبدیلی کو تبدیل نہیں کر سکتے جسکا مطلب ہے کہ اب کسی شریف و مخلص بزرگ کی بات کی قدر نہیں رہی۔ پھر وہی ہوا جسکا خدشہ تھا اور وہ یہ کہ امن مارچ کے اختتام پر ہلڑ بازی ہوئی گولی چلی اور ہمارا ایک نوجوان شہید ہو گیا چلنے والی گولیوں سے مزید جانی نقصان بھی ہو سکتا تھا ۔امن مارچ دو انتہائی خوبصورت الفاظ ہیں لیکن عسکری اصولوں کی طرح امن کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے باالکل مختلف ہوتے ہیں۔ عسکری جد و جہد میں وار کرنے اور پرامن جد وجہد میں دشمن کے وار کو ناکام بنانے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔ امن مارچ میں جب گولی چلی تھی تو وہاں سے بھاگنے کے بجائے لیٹ جانا چائیے تھا لیکن اسکی تربیت و ہدایت قبل از وقت دی جانی چائیے تھی ایسا نہ ہونے کی وجہ سے بعقول شائدین بگھدڑ مچی اور لوگ بھاگنا شروع ہو گے اور بھاگنے والوں میں ہمیشہ کی طرح اکثر لیڈران سب سے آگے تھے۔ اب بھی کچھ ساتھیوں کی کوشش ہے کہ گوشہ نشینی اختیار کرنے کے بجائے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو سہارا دیا جائے اور جو بھی کمزوریاں ہیں انہیں آئینی و نظریاتی حدود میں رہ کر دور کیا جائے۔ اس سوچ و جذبے کے تحت پہلے غلام محمود جرال۔سید شوکت جعفری اور راقم پر مشتمل ایک مشاورتی کمیٹی جسکی تجویز پر گلف سے آئے ہوئے لبریشن فرنٹ کے سابق صدر اور سابق مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل حنیف راجہ ۔ عدیل فرید اور راقم نے کھوئیرٹہ سے تتہ پانی۔ ہجیرہ۔ عباس پور۔ راولاکوٹ۔ باغ ۔ دھیر کوٹ اور مظفرآباد کا تفصیلی دورہ کیا جہاں تنظیمی ساتھیوں سے مشاورت کی گئی۔ ہر ایک تنظیم کی اصلاح کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اس موقف سے اتفاق کرتا ہے کہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ ہی ایک ریاست گیر تنظیم ہے جو تحریک کو اپنے منطقی انجام تک پہنچا سکتی ہے۔ ساتھیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد ہم نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ ریفارمز کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ پونچھ باغ اور مظفرآباد سے واپسی کے بعدحنیف راجہ۔ نبیل ظفر اور راقم نے میرپور ریجن کا دورہ کیا جہاں میرپور کے لیے راجہ صغیر خان اور بھمبر کے لیے چوہدری جاوید کو ریفارمز کمیٹی کا رکن چنا گیا۔ ہماری خوائش ہے کہ سنئیر ساتھی مل جل کر اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں رائے د یں کہ آیا کس طرح تنظیم کو بچا کر تحریک کو بار بار ہائی جیک ہونے سے بچایا جاسکتا ہے؟

انہی دوروں کے دوران ہم نے اندرون و بیرون ملک قائم آزاد کشمیر نصاب ایکشن کمیٹی کو وسعت دینے کے لیے ہر تحصیل میں کو ارڈینیٹرز مقرر کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ نصاب کمیٹی ایک غیر سیاسی و غیر جماعتی تنظیم ہے جس میں ہر وہ فرد شامل ہو کر کردار ادا کر سکتا ہے جو اتفاق کرتا ہے کہ جموں کشمیر کی تاریخ پڑھنا ہر کشمیری بچے کا پیدائشی حق ہے ۔ تحریک آزادی کشمیر کو منطقی انجام تک پہنچانے کی خاطر نوجوانوں کے لیے جموں کشمیر کی تاریخ و ثقافت سے بھی واقف ہونا ضروری ہے اس کے بغیر مسلہ کشمیر کی تاریخی آئینی اور عالمی حیثیت کو سمجھنا اور سمجھانا مشکل ہے۔ مذکورہ دورہ کے دوران پہلے مرحلہ پر ہماری نشست تتہ پانی میں ہوئی جہاں تتہ پانی سے تعلق رکھنے والی کوٹلی یونیورسٹی کے سرگرم طالب علم رہنماء ابرار ملک کو ارڈینیٹر مقررہوئے۔ ہجیرہ میں سردار ذیشان اور عباس پور میں سردار شاہ جہان ارشد نے یہی ذمہ داریاں سنبھالیں جبکہ عباسپور سے ہی تعلق رکھنے والے ایک نوجوان وکیل اور کالم نگار راجہ افضل کیانی کو اتفاق رائے سے سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا امید کی جاتی ہے کہ قانون دان اور قلمکار راجہ افضل کیانی جیسے نوجوان کے تجربات سے نصاب کمیٹی کے کام میں بہتری آئے گیْ ۔ راولاکوٹ میں نعیم بٹ شہید کے والدین سے ملاقات کے بعد جسٹس فارنعیم بٹ کمیٹی کی طرف سے دئیے جانے والے دھرنے میں شرکت کر کے اظہار یکجہتی کیا گیا۔ پانی و بجلی کی سہولتوں سے محروم یہ دھرنا کئی دنوں سے جاری ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے سونے کے بعد ہم راولاکوٹ سے ضلع باغ چلے گے جہاں چار مختلف مقامات پر ہماری نشستیں ہوئیں باغ سے ناصر مرزا اور دھیر کوٹ سے راجہ ذیشان نصاب کمیٹی کے کوارڈینیٹرز مقرر کیے گے جبکہ مظفرآباد سے اجمل کامریڈ نصاب کمیٹی میں شامل ہوئے۔ آزاد کشمیر کی ہر حکومت اس خطے کو پوری ریاست جموں کشمیر کی آزادی کا بیس کیمپ قرار دیتی آ رہی ہے لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو نام نہاد بیس کیمپ کی حکومتیں فائر بندی لائن ختم کرانے کے بجائے اسے قائم رکھنے کے لیے اسکی حفاظت اور کشمیری بچوں کو اپنی تاریخ وثقافت سے دور رکھ کر انہیں برین واش کرنے میں گھناؤنا کردار ادا کر رہی ہیں جسکی وجہ سے وحدت کشمیر کی بحالی کے لیے جد وجہد کے لیے ہمیں مزیدمنظم و متحد ہونے کی ضرورت ہے
 

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 47572 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.