آج کل پاکستان میں غریب سفید پوش انسان کا کیا حال ہے کسی
کو خبر نہیں ۔ ناہی انکو جنہیں ہم نے ووٹ دے کر اپنانمائندہ بنایا ہے۔
ہم میں سے مڈل کلاس لوگ روز ویگنوں اور چنگ چی رکشہ میں سفر کرتے ہیں ۔ اگر
آپ انہیں غور سے دیکھیں تو انکے چہروں پر مایوسیا ں طاری ہوتی ہیں ۔ لوگ
ڈرائیورز سے پانچ پانچ روپے پربحث کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہر سگنل پر گداگر
مانگنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور آتے جاتے راہ گیر کو حسرت بھری نگاہوں سے
دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ ۔ ان میں سے کچھ عورتیں بچے کرایہ پر لے کر انہیں نشہ
آور انجیکشن لگا کر بیچ سڑک پر کا ر والے کے سامنے آجاتی ہیں ۔ لوگ پانچ دس
روپے دے کر انسے اپنی جان چھڑواتے ہیں ۔لیکن بات یہ ہے کہ حکومتی نمائندے
جو ووٹ لینے لے لیے اتنے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کیا وہ اپنے ارد گرد غریبوں
کا حال نہیں دیکھتے ؟؟
حکومت کے اتنے بڑے پروجیکٹس جن پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن ان
پروجیکیٹس کا ایک غریب آدمی کو کیا فائدہ؟ جو سارا دن دھوپ میں کام کر کے
چار/ پانچ سو روپیہ گھر لے کر جاتا ہے اور انہی پیسوں سے آٹا آتا ہے اور
بھوک مٹتی ہے ۔۔ کم از کم ایک جمہوری ریاست میں رہتے ہوئے کسی غریب فرد کو
اسکی بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء ۔۔ روٹی ، کپڑا، مکان یا بنیادی تعلیم
تو ملنی چاہیے جس سے معاشرے میں تھوڑا سا بدلاؤ آسکے ۔
جنکو ووٹ دیتے ہیں وہ ووٹ لینے کے لیے پہلے برادریوں کے واسطے تو ڈال لیتا
ہے ۔ بڑے بڑے وعدے تو کر لیتا ہے مگرجونہی وہ اقتدار میں آتا ہے کبھی اس
گلی سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتا ۔ اگر آپ اِنکے دفتر میں کبھی غلطی سے
اپنا مطالبہ لے کر چلے جا ئیں تو پہلے وہ آپ سے طرح طرح کے سوالات کریں گے
۔ کہ کہاں سے آئے ہو ؟ کیوں آئے ہو؟ کام بتاؤ جلدی۔۔ اگر وہ شریف آدمی
نوکری کے لیے جاتا ہے تو پہلے بات کرنے سے کترا جاتا ہے پس اگر وہ کہہ دے
کہ حضور میں نوکری کی تلاش میں آپکے پاس حاضر ہوا ہوں ۔ میری یہ تعلیم ہے
تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ دیکھ بھایٔ ابھی کوئی نوکری نہی آئی جب آئے گی
تب آنا۔ وہ مایوس ہو کر گھر آجاتا ہے لہٰذا اسکی کہانی آخر کار ریڑھی پر
تمام ہو جاتی ہے اور یہ سارے واقعات میری آنکھوں دیکھے ہیں کہ کس طرح عوامی
نمائندوں کے دفاتر میں انکے ووٹرز ددھکارے جاتے ہیں ۔غریب کو کوئی نہیں
پوچھتا کہ تیری ماں کی دوائی ختم ہو گئی ہے یا ہے؟؟
کوئی نہیں کہتا کہ آج تیرے گھر میں روٹی پکی ہے یا تو بھوکا سویا ہے؟؟
کیونکہ ہمارے عوامی نمائندوں کے سر پر اقتدار کا تاج اس قدر چمک رہا ہوتا
ہے کہاسکی روشنی نے انہیں اندھا کیا ہوا ہے ۔۔ گر میوں کے دنوں میں کسی دن
سڑک کنارے دیکھیئے گا کہ ۔۔ اس طرح آٹے کے تھیلے کو بھر کر اوپر سے بند
نہیں کیا جاتا جس طرح لوگ ویگنوں میں اوور لوڈ ہو کر ایک دوسرے کے اوپر
چڑھے ہوتے ہیں ۔
رمضان المبارک کے دنوں میں چینی ،گھی پر دو روپے کی سب سٹی کے باعث جس قدر
لوگ لائن میں لگے ہوتے ہیں کیا اس سے بھی حکومتی نمائندو ں کو عوام کی غربت
نظر نہیں آتی؟؟یہ ملک ان حکومتی عہدیداران کو غریب آدمی کو ساتھ لے کر
چلانا ہو گا ۔ کیونکہ اکثریت غریب اور مڈل کلاس لوگوں کی ہے ۔وہ بھی اتنا
ہی ٹیکس دے رہے ہیں جتنا امیر روزمرہ کی اشیاء خریدنے پر دیتا ہے ۔۔
اگر انکو ساتھ لے کر نا چلے تو ملک بھی کسی قیمت پر نہیں چل سکتا ۔ عوام سے
اگر ووٹ لیا ہے تو صرف ووٹ کی نہیں ووٹر کی بھی عزت کو مدِنظر رکھنا پڑے گا
۔ ورنہ بھوک انسان کو بغاوت پر مجبور کرتی ہے ۔ ہمارے آقاؐ نے بھی بھوک او
ر افلاس سے پناہ مانگی ہے۔ کیونکہ بھوک ایک مسلمان کو کفر تلک لے جاتی ہے ۔
ہمارے حکومتی عہدے دار ایک دوسرے کے بیانات پر ہتک عزت کے نوٹس بھیجنے لگ
جاتے ہیں ۔ تو کیا اگر یہی عوام آپکے کیے گئے جھوٹے وعدوں پر ہتک عزت کے
توٹس بھیجنے لگ جائے توذرا سوچیئے کیا ہو سکتا ہے۔۔؟؟؟؟؟
شاید کہ یہ زمانہ انہیں پوجنے لگے
کچھ لوگ اسی خیال سے پتھر کے ہو گئے۔۔!
|