سچ پوچھئے انسان کو اپنے لیڈروں کی مدح سرائی میں ان کا
دفاع کرتے ہوئے انسان ہی رہنا چاہئے۔اور چودھری طلال اور جناب رانا صاحب
بیٹیاں تو بیٹیاں ہی ہوتی ہیں چاہے آپ کی ہوں یا کسی پی ٹی آئی والے کی۔یہ
جدہ کے ان دنوں کی ذکر ہے جب میاں نواز شریف میاں شہباز شریف وہاں خود
ساختہ اور خود اختیار کر دہ زندگی گزار رہے تھے غالبا سن ۲۰۰۰ یا ایک آدھ
سال آگے پیچھے کی بات ہو گی۔سرور پیلیس جو کبھی شاہ فیصل شہید کے زیر
استعمال تھا جب مملکت کا کیپیٹل ہوتا تھا اور غالبا وہ زیر تعلیم تھے۔ اسی
محل کو جو خالی محل تھا اس کی تزئین و آرائیش کر کے میاں نواز شریف اور
شہباز شریف کو دے دیا گیا ۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس محل کی تعمیر میں
انجینئر ظفر اقبال جھگڑا نے بھی کام کیا جب وہ وہاں ایک پاکستانی کمپنی میں
ملازم تھے یہ بات انہوں نے خود مجھے بتائی تھی سامنے مقبرہ تھا رویس محلے
کے شروع میں حیات پیلیس کے پاس یہ اسی محل کی کہانی ہے یہ۔وہاں کے مسلم
لیگی اس وقت بھی انتشار کا شکار تھے قاری شکیل مرحوم بھی صدر تھے اور ارشد
خان بھی۔دونوں اب اس دنیا میں نہیں ہیں اﷲ غریق رحمت فرمائے آمین۔اس محل
میں ہمارا بھی آنا جانا رہا آمد ورفت کی وجہ ایک تو اخبار نویسی تھی اور
دوسرا کیپٹن صفدر چونکہ میرے بھتیجے کے دوست تھے فیصل ذوالفقار علی جو این
اے ۱۲ کا چیف کو آرڈینیٹر تھا میاں صاحب کے آخری دنوں میں انہیں چھوڑ چکا
تھا اس کی وجہ میاں صاحب کی وہی پرانی رٹ فوج کے خلاف اور کرپشن کا دور
دورہ۔مجھے اپنے بھتیجے کی تعریف نہیں کرنا لیکن سرکل لورہ اور ایبٹ آباد کے
لوگوں سے اس کی دیانت داری شفافیت کا آج بھی پوچھ لیں۔بحر حال ہم اس شہر کے
جانے پہچانے لوگوں میں تھے۔اور اس سے زیادہ اہمیت قومی اخبار کا نمائیندہ
ہونے کی وجہ سے سیاست دانوں کی ضرورت بھی تھا۔باقی باتیں جو میرے دل میں
ایک یاد داشت کی صورت میں موجود ہیں کچھ لکھا بھی ہے اور کچھ لکھنے کا
ارادہ بھی ہے موقع ملا تو لکھوں گا۔ایک بات جو مجھے ہمیشہ منع کرتی ہے وہ
یہ ہے کہ میں اس بات کو بلکل اچھا نہیں سمجھتا کہ جس نے عزت دی ہو آپ کو
گھر میں داخلے کی اجازت دی ہو کھانا ساتھ کھایا ہو گپ شپ کی ہو اس کی ان
باتوں کو سر عام بیان کیا جائے خاص طور پر وہ باتیں جو میزبان کی عزت کی
دھجیاں اڑا دے۔میں ان کا مہمان بھی بنا اور وہ میرے مہمان بھی۔فوجی دور تھا
آمریت زوروں پر اس کے اوپر اسد درانی جیسا ظالم شخص سفیر اور اس کے نیچے
جدہ میں پنڈی گھیپ کا ایک بلی آنکھوں والا گنجا منحوس بڑی بڑی مونچھوں والا
ایک جس کا نام طارق ملک تھا یہ لوگ سفارت کار کم اور سیاست دانوں کی سرکوبی
میں زیادہ جتے ہوئے تھے انہی لوگوں نے عظمت نیازی ،آفتاب مرزا،نعیم
بٹ،خواجہ امجد کو وہاں کی حکومت سے کہلوا کر بند کرایا اور جبری پاکستان
بھیج دیا میں نے احتجاج کیا تو مجھے بھی دھر لیا ان لوگوں کوکہہ لیجئے شاہ
سے زیادہ شاہ کے وفا دار۔منحوس کرنل تو اپنے بچوں کی فیسیں بھی کمیونٹی کے
ڈرپوک لوگوں سے لے کر ادا کیا کرتا تھا۔ان دنوں جو کچھ مسلم لیگ نون کے
ساتھ ہوا وہی کچھ آج بھی ہو رہا ہے۔لوگ جوک در جوک قائد اعظم لیگ میں شامل
ہو رہے تھے جنرل مجید،اعجازالحق میاں منیر چودھری شجاعت پرویز الہی ہارون
اختر ہمایوں اختر غرض پنچھی اڑ رہے تھے۔ہم گجروں کی سب سے اچھی یا بری عادت
ہے جسے میں اچھی سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ گرے کے اوپر کبھی وار نہیں
کرتے۔میں ویسے بھی مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہوں خوامخوا سمجھ لیں پرائے
پنگے اپنے ذمے لینے کی پرانی عادت ہے یہی وجہ ہے کہ عمر کے اس حصے میں بھی
سرگرداں معاش ہوں اور اﷲ ہے جو زندگی کی گاڑی چلا رہا ہے۔میں نے موضوع چنا
ہے بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ہوا یوں کہ ان دنوں کیپٹن صفدر مریم میاں صاحب
کی والدہ والد یہ سب لوگ بشمول سہیل ضیاء بٹ وہاں آئے ہوئے تھے۔ارشد خان
مرحوم نارووال ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین بھی ہیں بڑے پیارے دوست تھے یہ وہی
ارشد خان ہیں جنہوں نے ایک بار موجودہ وزیر داخلہ جو آج کل ناک پر مکھی
نہیں بیٹھنے دیتے ان کے من پر تھپڑ جڑ دیا تھا۔ارشد خان کی دعوتیں جاری
تھیں کہ میاں صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔میاں صاحب کچھ عرصہ اٹک قلعے
میں رہے وہاں کے مچھر چھپکلیاں اور سانپ بقول ان کے ان کو تنگ کرنے کے لئے
چھوڑے جاتے تھے ۔اس مصیبت سے گھبرا گئے۔یہ ایسی مکروہ اور بری چیزیں ہیں جس
کی تائید نہیں کی جا سکتی۔میاں صاحب ہوں بھٹو ہو یا کوئی اور سیاست دان ان
کے ساتھ ناروا سلوک کی مذمت کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا۔میاں صاحب جو
معروف ہیں کہ انہوں نے سڑک شفاف اور روشنی کی وافر تعداد میں موجودگی کے
باوجود بقول دوست ریاض بخاری چودھری اکرم کی طرح کچے میں اتارنی ہی ہوتی
ہے۔سو اتار دی اور اس کا نتیجہ بھگتنے ایک ڈیل کر کے جدہ آ گئے۔یہاں ان کے
قیام کے دروان وہ پابند تھے یہ بات بلکل غلط ہے کہ وہ وہاں آزاد تھے۔یہ
ضرور ہوا کہ حسین نواز نے محمدیہ پلازہ جو حیات ریجینسی مدینہ روڈ پر واقع
ہے وہاں بڑے شاندار دفاتر قائم کئے جہاں انہوں نے قاری شکیل نعیم بٹ اور
دیگر کو ملازمت دی۔یہ کاروبار عزیزیہ سٹیل ملز کا تھا جو مکے کے کونے پر
بنائی جا رہی تھی۔نعیم بٹ اور قاری شکیل وہاں کام کیا کرتے تھے۔کیپٹن صفدر
اس کی تعمیر میں صبح سویرے نکلتے اور رات گئے پٹکا باندھے مٹیو مٹی ہو کر
واپس ؤیا کرتے تھے۔وہ ایک مرعوب خاوند اور شفیق باپ بھی تھے اپنے ہاتھوں سے
بچیوں کی کتابوں کی جلدیں بھی باندھتے غرض ایک محنتی شریف گھر داماد کا
کردار نبھایا کرتے ۔ہوا یوں کہ ایک بار کسی نے مجھے کہا کہ ہمیں کچھ تصاویر
چاہئیں تا کہ انہیں مناسب موقع پر استعمال کیا جائے اور تصاویر بھی ایسی
ہوں جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ خاندان اور ان کی خواتین وہاں عیاشی کر رہی
ہیں۔ایک جمعے کے روز میں ارشد خان کے پاس پہنچ گیا جو ایک ایسے فلیٹ میں
رہتا تھا جو میاں شہباز شریف نے کسی اپنی غیر اعلان شدہ بیگم کے لئے لے
رکھا تھا۔میں نے ارشد خان سے کہا کہ مجھے کچھ تصاویر چاہئیں اس نے میز کے
نیچے دائیں بائیں پھیلے بے شمار البم سامنے رکھ دیئے میں نے کچھ تصاویر رکھ
لیں وہ کوئی ایسی تصاویر نہتھیں جس سے کوئی منفی تآثر لیا جا سکے لیکن ان
کی اہمیت یہ تھی کہ ان تصویروں سے محسوس ہوتا تھا کہ یہ خاندان وہاں مزے
میں ہے۔جدہ کے سرخ سمندرمیں مریم شہباز شریف کی بیٹی اور دیگر خواتین کی ان
تصاویر میں موٹر بوٹ میں بیٹھی یہ چند خواتین کھلے بالوں کے ساتھ سیر کرتی
نظر آتی ہیں۔تصیریں تو میں نے لے لیں لیکن خدا کو حاضر جان کر لکھ رہا ہوں
میں اپنے ضمیر کے بوجھ تلے دب گیا۔میں نے وہ تصاویر سنبھال کے رکھ دیں اور
انہیں پاکستان نہیں بھیجا۔ہوا یوں کہ ارشد خان کی بیوی پاکستان میں قتل ہو
گئیں۔ہم بھی افسوس کرنے گئے تو ساحل سمندر کے اس فلیٹ میں شہباز شریف بھی
افسوس کے لئے آئے میرے ساتھ چار چھ لوگ تھے وہاں ہم نے دعا ء مغفرت کی اور
بعد میں ہم اپنی گفتگو میں مگن ہو گئے جس میں شہباز صاحب شریک نہ تھے شائد
انہیں یہ بات بری لگی۔میں جب دوستوں کے ساتھ اٹھ گیا تو انہوں نے کسی سے
پوچھا کہ یہ صاحب کون تھے انہیں بتایا گیا کہ پاکستان کے ایک اخبار کے
نمائندے ہیں اور کسی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔موصوف نے کہا کہ ہماری
محفلوں میں اس قسم کے بندے نہیں آنے چاہئیں۔یہ بات مجھے سلیم ناز نے بتائی
جو ایک کارکن تھا اور میرے دوست ملک سرفراز فردوس ہوٹل والے کی وساطت سے
ملا تھا۔وہ تصویریں اب میرے لئے بوجھ بنی ہوئی تھیں۔اﷲ کا کرنا ایسا ہوا کہ
ایک روز مدینہ منورہ میں مجھے سہیل ضیاء بٹ ملے انہوں نے کہا تراویح کے بعد
کھانا اوبرائے ہوٹل میں میاں صاحب کے ساتھ کھانا کھائیے میں بھی چلا گیا
قدرتی بات تھی میرے بریف کیس میں پڑی تصویریں بھی میں نے اپنے کوٹ کی جیب
میں ڈال لیں۔کھانے کے دروان میاں صاحب نے وہ بات کی جس کا میں ذکر کر چکا
ہوں ان کے فوج کے بارے میں جو خیلات تھے اور شدید منفی خیالات تھے جس پر
میں نے انہیں مشورہ بھی دیا کہ ہتھ ہولا رکھیں ۔خیر میں نے کچھ دور سے میاں
شہباز شریف کو بلایا اور وہ تصویریں ان کے حوالے کیں کہنے لگے یہ آپ کے
ہاتھ کیسے آئیں میں نے جواب دیا حضور آپ ہم سے دور رہنے کا کہتے ہیں یہ
تصوریں آپ کے نہائیت چاہنے والوں سے ملی ہیں۔بڑی تیز آواز میں کہا میں
ممنون ہوں مشکور ہوں۔
قصہ مختصر یہ میری سوچ تھی میں نے سوچا بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں میاں
شہباز شریف کی ہو یا انجینئر افتخار چودھری کی۔ان کی عزے ان کے نام پر کوئی
دغ نہ آئے۔کل میں بھی جلسے میں تھا اﷲ کی قسم جب عمران خان نے ریاست مدینہ
کی مثالیں دیں تو تو چند خواتین ایک جس نے فل عبایہ پہنا تھا اور دوسری
جینز میں تھی دونوں کی آنکھوں سے آنسورواں تھے۔میں یہ نہیں کہتا کہ تحریک
انصاف میں سب اچھا ہے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ یہاں بھی اتنا ہی اچھا ہے
جتنا نون لیگ میں اچھا ہے کچھ بہتر ہو گا کم نہیں۔لیکن یہ مقابلہ کسی کے
زیادہ یا کم عزت دار ہونے کا نہیں۔یہاں بیٹیوں کی عزت کا معاملہ ہے۔رانا
ثناء اﷲ طلال چودھری پتہ نہیں کسی بیٹی کے باپ نہیں اور اگر ہیں تو شائد وہ
بڑی غلطی کر رہے ہیں۔انہوں نے پیپلز پارٹی میں ہوتے ہوئے کیپٹن صفدر کے
حوالے سے رکیک حملے کئے میاں صاحب کی بیگم اور بیٹی پر انتہائی بے ہودہ
الفاظ استعمال کئے اب وہ پی ٹی آئی کی خواتین پر چڑھ دوڑے ہیں۔رانا صاحب آپ
اپنی بیٹی کا تعارف کیا کچھ کہہ کر کراتے رہے ہم نے تو کبھی اسے نہیں
اچھالا۔ایسا نہ کیجئے ۔بچیاں چاہے پی ٹی آئی کی ہوں یا نون کی وہ خواتین
ماں بہن اور بیٹی کے نام سے پہچانی جانی چاہئے۔سچ پوچھئے انسان کو اپنے
لیڈروں کی مدح سرائی میں ان کا دفاع کرتے ہوئے انسان ہی رہنا چاہئے۔اور
چودھری طلال اور جناب رانا صاحب بیٹیاں تو بیٹیاں ہی ہوتی ہیں چاہے آپ کی
ہوں یا کسی پی ٹی آئی والے کی۔
|