دال میں کچھ کالا ضرور ہے

یہ سب کیا ہے؟
محض الزامات ہیں۔ روائتی سیاسی بیانات ہیں ۔ خدشات ہیں ۔ ٹھوس شواہد کے ساتھ التماسات ہیں۔
جو بھی ہیں ایک سنجیدہ نظر ادھر بھی ہونی چاہیے۔

وزیراعظم کہتے ہیں:

‘‘ said the next general elections would be conducted by “aliens”, and not the caretaker government. “Elections will be held by aliens ”

ایک وزیر اعظم کے یہ الفاظ کتنے حیرت انگیز ہیں۔ جس نے حزب اختلاف کے مشورے سے خود عبوری حکومت تشکیل دینی ہے۔

سابق وزیر اعظم نوازشریف کہہ رہے ہیں:

’’ عمران خان اور زرداری صاحب سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں ہمارا مقابلہ آپ سے نہیں کسی اور سے ہے اور ان سے مقابلے میں اللہ ہمیں فتح دے گا ‘‘

’’ عمران بتائیں انھیں بڑی وکٹ گرنے کا کس نے بتایا؟ کس نےبتایا کہ الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں؟ کس نے کہا تھا، اس کا جواب دینا ہوگا اور ہم ان دونوں سے جواب لیں گے ‘‘

’’ سپریم کورٹ ہر چیز کا سوموٹو نوٹس لے رہی ہے لیکن سینیٹ انتخابات میں خرید و فروخت کا ازخود نوٹس نہیں لیاگیا ‘‘

باتیں تو بجا لگتی ہیں۔

عمران خاں کہتے ہیں:

‘‘ that the armed forces would be on the back of the Supreme Court when it came to a direct confrontation between political parties and the judiciary ’’

‘‘ claimed that several institutions, including elements from the army, helped the PML-N win the 2013 general elections ’’

کیا یہ سب اداروں پر الزام نہیں ہیں۔

امیر جماعت اسلامی فرما رہے ہیں:

‘‘ The Election Commission of Pakistan should be strengthened enough to avoid such a blame game while the returning officer should be held responsible in case of any rigging evidence ”

‘‘ claimed that the Pakistan Tehreek-i-Insaf (PTI) had voted for Sadiq Sanjrani following an “order from the top. ”

کیا یہ سب نواز شریف کی باتوں کی تصدیق نہیں ہے۔

ادھر پی ٹی آئی ان باتوں سے صاف منحرف ہو چکی ہے

یہ سب ان خاص لوگوں کی باتیں ہیں جو اندرونی حالات کو جانتے ہیں یا اس سارے عمل کا حصہ رہے ہیں۔

ان سب باتوں کا نوٹس لیا جانا چاہیے وگرنہ کبھی بھی نہ تو اداروں پر الزامات کا سلسلہ بند ہوگا اور نہ ہی دھاندلی سے پاک الیکشنز کا بھروسہ کیا جا سکے گا۔

اداروں کو اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے ضرور کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔

وگرنہ عوام یہ کہنے میں بجا ہوگی کہ ’’ دال میں کچھ کالا ضرور ہے ‘‘ یا ’’ سارے کی ساری دال ہی کالی ہے‘‘

اور اگر یہ ثابت ہو کہ یہ سیاستدان محض سیاسی کمپین کے لئے جو منہ میں آئے بول دیتے ہیں تو پھر اس کا بھی کوئی تو حل ہونا چاہیے۔

اسی لیے تو میں عرض کرتا ہوں:

عوامی نمائندگی کرنے والوں کو ان کے چناو سے پہلے ہی اخلاقی ، علمی ، دستوری ، تجربہ اور اقدار کے لحاظ سے چھان بین کے پراسس سے گزارنا ضروری ہے۔ تاکہ رائے اپنی کوالٹی کے بلبوتے پر بھی اپنی اہمیت رکھتی ہو۔

جب ایک کمپنی یا فرنچائز کے لئے سخت ضابطے اور قوانین موجود ہیں تو کسی سیاسی جماعت کے لئے کیوں نہیں؟ تاکہ سیاسی جماعتیں محض مجمعے نہ ہوں بلکہ تربیت یافتہ سیاسی ادارے ہوں جو عوام کو سیاسی ماہرین دے سکیں
 

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 124307 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More