پاکستان میں الیکشن کی تاریخوں کا اعلان جلد ہونے والا
ہے۔ سیاسی جماعتیں بڑی تیزی سے انتخابی منشور ترتیب دے رہی ہیں۔ منشور کسی
جماعت کی پالیسی کا آئینہ ہوتا ہے۔ اس سے متعلقہ جماعت کے وژن کا بخوبی
اندازہ لگایا جا سکتاہے۔ جن قوموں نے ترقی کی۔زندگی کے ہر ایک شعبہ میں آگے
بڑھیں۔ انھوں نے صحیح معنوں میں بڑی ورق ریزی سے سروے کرائے۔ اپنی
کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لیا۔ تحقیق کی۔ وجوہات معلوم کیں۔ ملکی
مسائیل کو دیکھا ، پرکھا۔ قانون سازی، ا س کی تشریح، اس کا نفاز ، اصلاح و
احوال کا بھی جائزہ لیا گیا۔ پاکستان میں ایک ڈرامہ چل رہا ہے۔پتہ ہی نہیں
چلتا سکرپٹ کس نے لکھی، فنڈنگ کس کے ہاتھ میں ہے۔ ہدایت کون دے رہا۔ منافع
کسے ہو گا۔ایک دوسرے پر الزامات کا ڈرامہ۔یہ منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔
جمہوریت میں منافع عوام کو ہونا چاہیئے۔ وہی اس کے حق دار ہیں۔ ان کے ہی
نام پر سب کچھ ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن باریاں کھیل رہے تھے۔
مسلم لیگ کے کئی دھڑے ہوئے ۔ میاں برادران سے چوہدری برادرانمات کھا گئے۔
صوبائی شوشے بھی اسی لئے ہیں۔ن لیگ کے گزشتہ منشور سے اندازہ ہورہا تھا کہ
وقت نے میاں نواز شریف کو بہت کچھ سکھا دیا ۔
موجودہ اسمبلی اور صوبائی حکومتوں کے پانچ سال دوسری بار پورے ہو رہے ہیں۔
عوام کو کیا ملا۔ دہشت گردی میں نمایاں کمی ہوئی۔ کراچی کے حالات بہت بہتر
ہوئے۔ رینجرز اور وفاق کو کریڈٹ نہ دینا نا انسافی ہو گی۔سی پیک اور بجلی
گھروں خاص طور پر نیلم جہلم اور پتریانڈ کی وجہ سے غربت، بے روزگاری،
جہالت، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ میں کمی ہوئی۔روپے کی قدر میں افسوسناک کمی
ہوئی۔ زر مبادلہ کے ذخائربڑھے۔ عوام کی قوت خرید کم ہوگئی۔
سچ یہ ہے غریب کم ہو رہے ۔ غربت بڑھ رہی ہے۔ ملک میں ایڈہاکزم ہے۔ سرمایہ
دار بھی معاملات ایڈہاک اور عارضی بنیادوں پر چلاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ
باقاعدگی اور ریگولر ائزیشن سے محنت کش کو پنشن دیگر الائنسز کی شکل میں
حقوق بھی دینا ہوں گے۔ اس لئے ان کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔ مزدوروں کی یونین
بن گئی تو اس کے مقابلے میں مالکان کی بھی یونینز بن گئیں۔ مزدور کمزور اور
مالک مزید طاقتور ہو گئے۔ حکام کس کی سنیں گے۔ مزدور کی یا مالک کی؟۔ ظاہر
ہے مالک کی بات ہی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن آجر کو بڑی غلط فہمی ہو گئی۔ اس سے
مزدور مایوس ہو رہا ہے۔ کل مزدور کا دن تھا جو گزر گیا۔ مزدور نے یہ دن بھی
کام میں گزارا۔ مزدور کے نام پر دیگر نے چھٹی کی۔مزدور کی اجرت میں کمی کی
وجہ سے پیداوار میں کمی ہونے لگی ہے۔ محنت کش مسائل میں پھنس کر کام میں
دلچسپی نہیں لے سکتا۔ اگر پیداوار میں پچاس فی صد اضافہ ہونے والا ہو تو اس
سے پانچ فی صد ہی ہو پاتا ہے۔ اس کا نقصان پورا ملک برداشت کرتا ہے۔ آجران
کی یونین بازی سے وہی خسارے میں رہے۔ ان کے وسائل میں کمی ہوئی۔ وہ جدید
مشینری اور ٹیکنالوجی پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کی اورہالنگ پر خاص توجہ دیتے
ہیں۔ گاڑی کے انجن میں آئل نہ جائے تو فوری طور پر جام ہو جائے گا۔
کیمرہ،مشین کے پیچھے موجود محنت کش ، کمپوٹر پر کام کرنے والے کے حالات نہ
بدلے تو کوئی فائدہ نہیں۔سیاسی پارٹیاں اپنے منشور میں اس جانب توجہنہیں
دیتیں۔ 2013میں مسلم لیگ ن کے منشور میں مضبوط معیشت، مضبوط پاکستان کا
نعرہ لگایا گیا ۔ مضبوط معیشت کا روڈ میپ بھی دیا گیا۔ حکمران جماعت ن لیگ
کے منشور میں معیشت کو اہمیت دی گئی ۔ قومی پیداوار، صنعتی پیداوار، سرمایہ
کاری، بجٹ خسارے کی کمی، ٹیکس کی شرح بڑھانے، ایک ہزار بستیوں کا قیام،
پانی اور کوئلہ سے بجلی کی پیداوار میں اضافے، زرعی پیداوار میں اضافے،
سماجی تحفظ، تعلیمی ایمرجنسی، خواندگی کی شرح میں اضافہ، دانش سکول، ملک کے
طلباء کو لیپ ٹاپ، ہر خاندان کو ہیلتھ انشورنس کارڈ، تشخیصی ہسپتالوں کا
قیام، موبائل ہیلتھ یونٹس، آئی ٹی سنٹرز ، 30لاکھ افراد کو روزگار، مزدور
کی ماہانہ اجرت 15ہزار تک بڑھانا، سمند رپار پاکستانیوں کے لئے منصوبے،
وغیرہ کا نعرہ دیا گیا۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ منشور پر عمل کے لئے دو
تہائی اکثریت درکار ہے۔ ن لیگ پی آئی اے کو ایشیا کی بہترین ائر لائن بنانا
چاہتی تھی۔ریلوے کی بند ٹرینوں کو چالو کرنے، کراچی سے پشاور تک بلٹ ٹرین
چلانے، بے سہارا افراد کے لئے امدادکا وعدہ کررہی تھی۔
مسلم لیگ ن نے منشور میں 22نکات دیئے ۔معیشت، توانائی، زراعت، تعلیم سے
سماجی تبدیلی، صحت، خواتین، نوجوان، محنت کش، اقلیتیں، جمہوری حکمرانی، سول
سروس کی مضبوطی، آئی ٹی، قدرتی توانائی، صوبوں میں ہم آہنگی، منشور میں
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی ملکی اکائی قرار دیا گیا ۔ ماضی کی
غلطیوں کی نشاندہیوں کے لئے کمیشن۔ ہزارہ ، بہاولپور، جنوبی پنجاب، نئے
صوبے۔انصاف کی فراہمی۔ کرپشن کا خاتمہ۔ نئی خارجہ پالیسی۔ اقوام متحدہ کی
قراردادوں اور معاہدہ لاہور کیمطابق کشمیر کا حل۔ دہشت گردی کا خاتمہ۔
کراچی میں آپریشن۔ مشور پر عمل در آمد۔ بزنس اینڈ اکنومک کونسل کا قیام۔یہ
ایک جامع منشور تھا۔ پاکستان میں منشور دیکھ کر ووٹ ڈالنے کی روایت موجود
نہیں۔ لیکن اب عوام کو منشور کی ایک کاپی اپنے پاس رکھنی چاہیئے۔ اگر
پاکستان کو بدلنا ہے۔ تو پہلے خود کو بدلنا ہو گا۔ ہم نے دین کو مسجد اور
مولوی صاحب کو حوالے کر دیا ۔ سیاست کو سیاستدان کے سپرد کر دیا ۔ اﷲ
تعالیٰ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتے جو خود اپنی حالت نہ بدلنا چاہے۔سب
پارٹیوں کے منشور دیکھیں۔ انکا تقابلی جائزہ لیں۔نظام اور ملک کو بدلنے کے
لئے اپنا زہن تیار کر لیں۔ آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ن لیگ نے اپنے منشور میں
کیا وعدے کئے۔ کتنے وفا کئے۔اسے کیا رکاوٹیں در پیش آئیں۔ اسی طرح دیگر
پارٹیوں کے منشور پر بھی نظرڈالنے کی ضرورت ہے۔2013کے منشور کا جائزہ لیں
تو پتہ چلے گا کہ اس پر کیا عمل ہوا یا کوشش کی گئی۔ اس طرں 2018کے منشور
کو سمجھنا آسان ہو گا۔ |