اِس میں کو ئی شک نہیں کہ وطنِ عزیز میں اساتذہ
کرام کی مثال اس سیڑھی جیسی ہے ،جس پر لوگ چڑھ کر بامِ عروج تک تو پہنچ
جاتے ہیں مگر سیڑھی ہمیشہ اپنی جگہ پر ایستادہ رہتی ہے۔شیوہ پیغمبری سے
وابستہ ان لوگوں کی آواز حکومت کے ایوانوں میں عموما صدا بالصحرا ثابت ہوتی
ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ ہم اذان دیتے رہیں گے، خوابِ غفلت سے جاگنا ان کی
ذمہ داری ہے ایسی ہی ایک کوشش اپنی آواز حکومت تک پہنچانے کے لئے گذشتہ روز
پشاور کے ایک مقامی ہوٹل میں تنظیمِ اساتذہ پاکستان کے زیرِ اہتمام ایک
مجلس منعقد کی گئی جس کے روحِ رواں تنظیم کے سیکرٹری اطلاعات میاں
ضیاالرحمٰن تھے جبکہ اس تنظیم کے مرکزی صدر پروفیسر ڈاکٹر میاں محمد اکرم،
خیبر پختونخوا سے صوبائی صدر خیراﷲ حواری اورضلعی صدر عبدالشان خٹک کے
علاوہ کئی نامور اساتذہ کرام اوراہلِ قلم حضرات زینتِ محفل تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر میاں محمد اکرم کا کہنا تھا کہ نصابِ تعلیم میں تبدیلیاں اگر
چہ دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ضروری ہوتی ہیں مگر یہ تبدیلیاں فزیکل
سائنس کے مضامین میں ہو نی چاہئیں جبکہ ہمارے ہاں سارا زور سماجی علوم میں
تبدیلیوں پر لگایا جا رہا ہے ۔مثلا قرآن و حدیث،پیغمبرانِ اسلام، خلفائے
راشدین، صحابہ کرام اور تحریکِ پاکستان سے متعلق مضامین کو ایک تسلسل کے
ساتھ نکالا جا رہا ہے۔جو بڑی تشویشناک بات ہے ،یہ سلسلہ بند ہونا
چاہیئے۔اسی طرح ہمارے قومی زبان اردو کے ساتھ حکومت نے جو سلوک روا رکھا ہے
،وہ کسی طور پر ایک غیرت مند قوم کے شایانِ شان نہیں۔دنیا کے تمام قومیں
اپنی قومی زبان کو اپنا ذریعہ تعلیم بناتی ہیں مگر ہمارے ہاں انگریزی
زبانکو ترجیح دی جارہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسی قوم کی تخلیق
میں لگے ہو ئے ہیں جو نہ تیتر ہے اور نہ بٹیر۔۔ طلباء کی ایک بڑی تعداد
انگریزی زبان میں فیل ہو جاتی ہے ۔1973کے آئینِ کے مطابق اور سپریم کورٹ کے
فیصلے کے مطابق اردو زبان ہی ہماری ذریعہ تعلیم ، سرکاری دفتری زبان ہو نی
چا ہئے مگر افسوس صد افسوس کہ حکومت اردو زبان کو سرکاری زبان بنانے میں
لیت و لعل سے کام لے رہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر اردو
زبان کو اس کی حقیقی مقام دلانے پر عمل در امد کو یقینی بنائے۔
انہوں نے یکساں نظامِ تعلیم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ قومی یک جہتی کے فروغ
کے لئے پورے ملک میں طبقاتی نظام تعلیم ختم کر کے تمام پاکستانیوں کے لئے
یکساں اور ایک ہمہ گیر نظام تعلیم کی ضرورت ہے ۔طبقاتی نظام تعلیم نے پوری
قوم کو مختلف ہائے فکر میں تقسیم کیا ہے۔لہذا یکساں نصاب تعلیم، یکساں
ذریعہ تعلیم اور یکساں نظامِ امتحانات رائج کرکے قومی مقاصد کی حصول کو کو
ممکن بنانے کی سعی کرنی چا ہیئے۔اسی طرح یہ بات بھی شدّت سے محسوس کی جا
رہی ہے کہ کچھ غیر ملکی این جی اوز ہمارے نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم میں
بے جا قسم کی مداخلت میں مصروفِ عمل ہیں ۔جس کی روک تھام حکومتِ وقت کی ذمہ
دارہے۔ انہوں نے اٹھارویں آئینی ترمیم کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہو ئے
کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو نصاب سازی کا اختیار دینا ہر گز مناسب
نہیں،لہذا ایک نئی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس کے تحت تعلیمی منصوبہ بندی
کو واپس مرکز کے حوالہ کیا جائے ۔۔۔۔۔<<<
تنظیمِ اساتذہ کے صوبائی صدر خیر اﷲ حواری نے کہا کہ نظام امتحانات جب سے
گورنر سے لے کر سیولین کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے تب سے اس کا بیڑا غرق
ہو چکا ہے۔نقل مافیا سرگرم ہے اور ساسی مداخلت کی وجہ سے نظام امتحانات مین
کئی برائیاں جنم لے چکی ہیں-
طلباء کی صلاحیتوں کو زنگ آلو دہ کر دیا گیا ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ
امتحانی نظام گورنر کے حوالہ کیا جائے اور ایک صاف و شفاف نظام امتحانات کو
یقینی بنایا جائیتاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو اور طلباء کا محنت پر کامیابی
کے یقین کو مستحکم بنایا جائے۔ انہوں نے اساتذہ کرام کو ٹائم سکیل دینے اور
دیگر کئی مالی بے ضابطگیوں کو درست کرنے اور معمارانِ قوم کو با امرِ
مجبوری دفاتر کے چکر لگانے سے چھٹکارا دلانے کے لئے آ ن لائن سسٹم متعارف
کرانے پر بھی زور دیا ۔
بِلا شک و شبہ وطنِ عزیز کے نظامِ تعلیم میں متعدد اصلاحات کی ضرورت ہے، اس
وقت نظام تعلیم حکومت کے عدم توجہی کا شکار ہے۔ ان حالات میں اگرمعمارانِ
قوم کا حکومت سے کئے گئے شکوہ پر غور کیا جائے اور ان کی گزارشات پر عمل
کیا جائے تو پورے نظامِ تعلیم کو درست ٹریک پر ڈالا جا سکتا ہے۔جو وقت کی
اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ اسی میں قومی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ |