کبھی ڈاکٹرز کو مسیحا کہا جاتا تھا۔حکمت اور ولائت کو نیک
دل اور خدا ترس انسانوں سے نسبت تھی۔ حکیم اللہ کے ولی ہوا کرتے تھے۔ ان کا
مقصد حیات انسانیت کی خدمت اورحصول رضائے الہی ہوتا تھا اور ان کے ہاتھ میں
حقیقی شفا ہوتی تھی۔
اور ایک آج کا ڈاکٹر ہے (ہمارا پاکستانی)جو روئیے سےلے کر عمل تک ڈاکٹر کم
تھانیدار زیادہ لگتا ہے اور لالچ کا یہ حال ہے کہ اکثر سڑکوں پر یا گیٹ پر
ہسپتال کا راستہ بند کئے ہوئے ملتے ہیں تاکہ کوئی مریض ہسپتال میں داخل نہ
ہو پائے۔ مطلب ہر آئے دن ہڑتال پر ہوتے ہیں۔ خیر ہڑتال تو ہماری قوم کی
پہچان بن چکا ہے اور اگر ہڑتال نہیں کرتے تو دینی مدارس کے مدرس اور قاری
ہیں جن کو ہم نے آج تک ہڑتال کرتے ہوئے نہیں دیکھا کہ ہماری تنخواہ بڑھائی
جائے اور دوسرا دہقان(کسان) جس کی مشقت سے ہر امیر غریب کا پیٹ بھر رہا ہے۔
سب سے زیادہ کم اجرت بھی ان دو قسم کے طبقات کی ہے مگر پھر بھی وہ ہر حال
میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ تو پتہ چلا کہ انسان کی حالت دولت کےآ جانے
سے نہیں بلکہ حقیقی شعور کے آ جانے سے بدلتی ہے جس سے خاص کر آج کے دور
کے نام نہادپڑھے لکھے کوسوں دور ہیں۔
بات زیادہ آ گے نکل گئی
میں آپ کے ساتھ ایک خبر شئیر کرنے جا رہا ہوں کہ آج کے دور میں بھی دنیا
میں اچھے لوگ اور ڈاکٹر موجود ہیں مگر بات ساری تربیت کی ہے اخلاقی تربیت
کی جو نہ ہمارے گھروں ہیں ہو رہی ہے اور نہ تعلیمی اداروں میں۔
ہم بچوں کے اندر خدمت کاشوق نہیں بلکہ دولت کے بلبوتے پر بڑا بننے کا شوق
پیدا کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو اپنے وسائل سے بھی بڑھ کر اچھے سے اچھے
پرائیویٹ سکول میں داخل کرواتے ہیں۔ ایسے سکولوں میں جہاں سٹیٹس کو کا
ماحول ہوتا ہے اور بچے بہروپئے کا روپ دھارتے چلے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا
ہے کہ بچوں کی کلاس تو بدل جاتی ہے مگر والدین کی پہلے والی ہی رہتی ہے۔
اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ اپنے ہی والدین کو پہچاننے سے باغی ہو جاتے ہیں
اور دور ہو جاتے ہیں۔
خبر یہ تھی کی مونٹریال، کینیڈا میں ڈاکٹرز نے ہڑتال کی ہے کہ ان کے پاس
پہلے ہی مراعات کافی ہیں لہذا ان کی تنخواہ نہ بڑھائی جائے بلکہ ان کے
معاون عملے کی مراعات بڑھائی جائیں اور عوامی صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے
کی کوشش کی جائے۔
یہ فرق ہوتا ہے سوچوں کی تبدیلی کا اور یہ تبدیلی کے نعروں سے نہیں بلکہ
عمل سے آتی ہے۔ |