ہمارے ہاں احتساب کا نظام اگا دوڑ پچھا دو ڑ کی تفسیر
بناہے۔ہم کسی ترتیب سے کام کرنے کی بجائے کانٹ چھانٹ کے طریقہ اپنائے ہوئے
ہیں۔کبھی کسی کے کہنے پر کسی کو پکڑلیا کبھی کہیں سے آنے والے اشارے پر کسی
کو چھوڑ دیا گیا۔بس یہی کہانی ہے۔یہی کچھ ہورہاہے۔نہ کوئی ترتیب نہ کوئی
ریکارڈ۔اس نظام کو اگا دوڑ پچھا چوڑ کی تفسیر نہ سمجھنا جائے تو کیا سمجھا
جائے۔مدتوں سے پڑے معاملات اس لیے نبٹائے نہیں جارہے کہ انہیں دیکھنے کا
وقت نہیں ہے۔فوری نوعیت کے معاملات الجھائے رکھتے ہیں۔مشرف اور زردار ی
پاکستان کی تاریخ کے تاریک دور رہے ہیں۔جتنی کرپشن اور بد انتظامی ان دونوں
ادارمیں ہوئی۔مثال نہیں ملتی۔مشرف تو مادر پدر آزاد حکمران تھے۔فوجی سٹک کے
سہارے وہ ملک سے کھلواڑ کرتے رہے۔یہاں ہر آمر نے جو جو تباہی مچائی مشرف
دورمیں بھی مچائی گئی۔ آئین توڑا گیا۔عدالتی نظام کی دھجیاں بکھیریں
گئیں۔سیاسی نظام کو تلٹ پلٹ کردیا گیا۔حقیقی قیادت کو دیوار سے لگاکردونمبر
قیادت تیار کرکے قوم پر مسلط کردی گئی۔کیا ہمارے نظام احتساب نے ان معاملات
پر کوئی پرسش کی۔ مشرف دور کے کرتادھرتاؤں میں سے کوئی سز ا جزا سے
گذرا۔اگر آئین اور قانون توڑنا قابل پرسش نہیں تو باقی سب فضول ہے۔اگا دوڑ
پچھا چوڑ کے اصول پر ہونے والے اس احتساب میں ہو یوں رہا ہے کہ ہر دور میں
ماضی کا کھاتہ بند اور نئے لوگوں کی پسند ناپسند کو مدنظر رکھ کر نیا کھاتہ
کھولا جا رہاہے۔
نیب یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہے کہ ملک میں بے لاگ اور بلا امتیاز احتساب
ہورہا ہے۔اس سلسلے میں کئی سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے خلاف کیسزچلائے
جارہے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے بعد تحریک انصاف،ق الیگ اور پی پی کے کچھ لیڈران
کی طلبیاں دیکھنے کو ملیں۔اب پرویز مشر ف سمیت تین دیگر سابق جرنیلوں کا
احتساب کیے جانے کی خبریں سنی جارہی ہیں۔چیئرمین نیب نے بڑے شد ومد سے
اعلان کیا ہے کہ ڈرامہ ختم اب اصل احتساب کہانی شروع ہوگئی۔جو حقائق پر
مبنی ہے۔اس میں شامل ہر کردار کو بلا تفریق بے نقاب کیاجائے گا۔نیب اس
سلسلے میں ریلو ے گالف کلب لاہور کی غیر قانونی لیز کیس میں 3 سابق جرنیلوں
سمیت 9 ملزمان کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کردیا گیا۔3سابق
جرنیلوں میں جنرل اشرف قاضی، سعید الظفر،حامد بٹ شامل ہیں۔سابق آرمی چیف
جنرل (ر)پرویز مشر ف کے خلاف بھی ناجائز آثاثے بنانے کے معاملے پر کاروائی
شروع کی جانے کا امکان ہے۔ اس سلسلے میں ان کی اہلیہ۔بچوں اور دیگر افراد
کے اثاثوں کی تفصیل منگوائی گئی ہے۔سابق صدر پرویز مشرف کا موقف ہے کہ
انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ان کا ایک بھی اثاثہ نا جائز
نہیں۔جب انہوں نے دوبئی کے لیے وطن چھوڑا تو پاکستان میں ان کا کوئی اثاثہ
موجو د نہیں تھا۔ان کا دامن صاف ہے۔او ر وہ پر قسم کی قانونی کاروائی کا
سامنا کرنیکو تیار ہیں۔
پرویز مشر ف کی پاک دامن ہونے کی با ت بے جا نہیں۔انہیں جس دھڑلے سے نظام
احتساب نے پاکستان سے فرار کروایا اس کے بعد ایسا دعوی ٰ بے محل نہیں۔حکومت
انہیں روکنے کے لیے انتہائی حد تک گئی تھی۔سابق فوجی حکمران اگر ایک عدالت
سے وطن سے باہر جانے کی اجاز ت لے بھی لیتے تو حکومت کسی دوسری عدالت میں
چیلنج کردیتی۔ہر جگہ حکومتی موقف یہی ہوتا کہ ملزم کے سر پر قتل اور آئین
شکنی سمیت کئی مقدمات ہیں۔یہ ملک سے فرار ہونا چاہتا ہے۔اگر چلا گیا تو
واپس نہیں آئے گا۔عدالت نے عچب بات کی کہا کہ ہم تو انہیں باہر بھجوانے کا
حکم دے رہے ہیں۔آپ کسی معاملے میں انہیں روک سکتے ہیں تو روک لیں۔حکومت اس
بات پریشان تھی کہ مشرف کو باہر جانے سے روکنے کے معقول دلائل سننے کے بعد
بھی عدالت انہیں باہر بھجوانے کا حکم جاری کررہی ہے۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت
کو بعد میں عدالتوں کی طرف سے مشرف کو بپیش نہ کرنے پر جھڑکیاں سننا
پڑیں۔حکومت پریشان تھی کہ کرے بھی توکیا کرے۔پہلے مشرف کو باہر جانے سے
روکنے پر مسائل کا سامنا تھا۔اب واپس نہ لانے پر باتیں سننا پڑرہی ہیں۔وہ
سمجھتی ہے کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر اسے ناکام کرنے کے درپے ہیں۔مشرف کو فرار
کروانے کے لیے بیسیوں جتن کیے گئے۔اس کے لیے پٹھوؤں کو میدان میں
اتاراجاتارہا۔کبھی عدالت سے مدد لینے کی کوشش کی۔نوازشریف کو ٹف ٹائم دیا
گیا۔مقصد یہی تھاکہ وہ فوجی حکمران کی سیاہ کرتوتوں پر آنکھیں بند
کرلیں۔دوسری سیاسی قیادت کی طرح اندھے بہرے بن کر مشرف کا سفید سیاہ بھول
جائیں۔نیب ان دنوں ملک میں بلا امتیاز و تفرق احتساب ہونے کا اعلان کررہی
ہے۔بظاہر اب تک سرف اور صر ف نوازشریف فیملی کا احتساب ہوتا نظر آرہاہے۔نیب
اگر آج پرویز مشر ف سمیت دیگر تین سابق فوجی جنرلز کے احتساب کا اعلان
کررہی ہے تواس کا عملی ثبوت دینا ہوگا۔اگر عملی ثبوت نہ آیا تو اس اعلان کو
شریف فیملی سے ہونے والی زیادتی کا اثر کم کرنے کے لیے ایک حکمت عملی تصور
کیا جائے گا۔ایسی خانہ پریاں نیب نے ہر دو ر میں کی ہیں۔اس قسم کے دعووں کو
بھی کوئی خانہ پر ی سمجھ کر قوم خون کے گھونٹ پی لے گی۔ |