افغانستان کے بہادر صحافیوں کو سلام

افغانستان کے درالحکومت کابل میں 30؍ اپریل کی صبح صبح ان افراد کو نشانہ بنایا گیا جو صبح کی کرنیں نکلنے سے پہلے پہلے عوام کو دنیا میں رونما ہونے والے حالات سے باخبر کرتے ہیں۔ 30؍ اپریل کی صبح کابل کے علاقے ششدرک میں ایک موٹر سائیکل سوار حملہ آور نے پہلا بم دھماکہ کرکے ان صحافیوں اور سیکوریٹی عہدیداروں کو مقامِ واقعہ پر جمع ہونے کی راہ ہموار کی۔ صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں صحافی کو ہمیشہ مستعدی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے ۔ جب کوئی حادثہ یا بم دھماکہ یا کوئی سانحہ پیش آجائے اور اس کی اطلاع صحافی کو ملے تو وہ صبح کی بھینی بھینی ہواؤں سے لطف اندوز ہونے کا مزہ چھوڑ کر یا رات کی سونی سی ہوائیں یا پھر دوپہر کی جلسادینے والی دھوپ میں نکل پڑتا ہے۔ یہی سب کچھ 30؍ اپریل کی صبح کابل میں ہوا۔ پہلے بم دھماکے کی تفصیلات معلوم کرنے کے لئے اپنے فرض منصبی کے تحت صحافی اور پولیس کے عہدیدار بھاگے بھاگے جائے حادثہ پر پہنچے ہی تھے کہ اسی اثناء یعنی کم و بیش 15منٹ کے وقفہ میں دوسرا دھماکہ کردیا جاتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق 31افراد بشمول 9صحافی اور چار پولیس عہدیداراس بم دھماکے میں ہلاک ہوگئے۔ جبکہ بی بی سی کے ایک 29سالہ نمائندہ احمد شاہ کو جو اس واقعہ کی تفصیلات حاصل کرنے کے لئے راستہ طے کررہے تھے کہ فائرنگ کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا۔اس طرح جملہ 10صحافی ہلاک اور 45افراد زخمی ہوگئے ۔اسی روز افغان صوبہ ننگرہار میں سڑک کے کنارے نصب بم پھٹنے سے بحسود ضلع کے کرائم انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ہلاک ہوگئے اور ضلع کے ڈپٹی گورنر اور دیگر تین پولیس عہدیدار زخمی ہوئے۔ ایک اور بم دھماکے میں 11مدرسہ کے طلبہ ہلاک ہوئے۔ان دھماکوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک ہی روز میں چار بم دھماکو ں میں 50افراد جاں بحق اور 100زخمی بتائے گئے۔ اس سے چند روز قبل یعنی 22؍ اپریل کو کابل میں ووٹر رجسٹریشن سینٹر کے باہر خود کش دھماکا ہوا تھا، جس میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم60 افراد جاں بحق اور 119 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔اس سے قبل 12 اپریل 2018 کو افغان صوبہ غزنی میں ضلعی حکومت کے کمپاؤنڈ پر طالبان کی جانب سے کیے گئے حملے میں ضلعی گورنر اور پولیس اہلکاروں سمیت 15 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔واضح رہے کہ 2؍ اپریل کو افغان حکام نے ملک کے شمالی علاقے میں طالبان کے تربیتی کیمپ پر فضائی حملے میں 20 شرپسندوں کے ہلاک جبکہ متعدد کو زخمی کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بی بی سی کے مطابق رواں سال افغانستان میں دولت اسلامیہ (داعش) اور طالبان سرگرم ہیں اور ملک کا صرف 30فیصد علاقہ ہی مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ اس سے قبل امریکہ نے افغانستان میں اپنی ناکامی چھپانے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان کے حالات انتہائی سنگین ہیں اور نہیں معلوم یہاں کے عوام کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کے حملوں کا نشانہ کون بنتے ہیں اور کب بنایا جاسکتا ہے اس سلسلہ میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حکومت اور عالمی طاقتیں افغانستان میں امن وآمان اور سلامتی کے حوالے سے ناکام ہوچکی ہیں۔ افغانستان میں عوام کہیں پر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ نہ تو سیکیوریٹی اداروں میں کام کرنے والے محفوظ ہیں اور نہ ہی دوسرے سرکاری و خانگی اداروں میں کام کرنے والے ۔ یہی نہیں بلکہ مدارس میں پڑھنے والے وہ معصوم بچے بھی ان درندہ صفت ظالم دہشت گردطالبان و داعش کے قاتلوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔افغانستان میں جن لوگوں کو ہلاک کیا جارہاہے وہ تمام کے تمام مسلمان ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ طالبان اور داعش کے نام نہاد جہادی کیا مسلمان ہیں ؟داعش اور طالبان کی جانب سے اس سے قبل بھی مساجد، مدارس اور دیگر مذہبی مقامات پر خودکش حملے کئے جاچکے ہیں۔ رہی بات کیا ان درندہ صفت ظالموں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاسکتا ۔؟ اس سوال سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دشمنانِ اسلام نہیں چاہتے کہ طالبان اور داعش جیسی تنظیموں کا خاتمہ ہو بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ تمام کے تمام ان ہی کی پیداوار کا نتیجہ ہے کیونکہ دشمنانِ اسلام ایک طرف مسلمانوں کو دہشت گرد بتاکر عالمی سطح پر بدنام کرنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب ان مسلم ممالک کے حکمرانوں پر اپنا اثر رسوخ پڑھاتے ہوئے اور ان میں ڈر و خوف پیدا کرکے اپنے کروڑہا ڈالرس کے ہتھیارفروخت کر رہے ہیں۔ہاں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان نام نہاد جہادی تنظیموں میں بعض ایسے مسلم نوجوان بھی شامل ہورہے ہیں جنہیں حقیقی معنوں میں اپنے ان مظلوم مسلمانوں کا انتقام لینے کا جذبہ ہے۔ جہاد کے نام پر یہ نوجوان ان تنظیموں میں شامل ہورہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ دشمنانِ اسلام کی یہ بھی ایک سازش کا نتیجہ ہو کیونکہ ان جہاد میں حصہ لینے والے مسلمانوں کو ایک پلٹ فارم پر جمع کرکے انکے خلاف بھی کارروائی کی جاسکتی ہے اور ایسے نوجوان اس طرح آسانی سے ان دشمنانِ اسلام کے ہاتھوں میں آرہے ہیں۔ 30؍ اپریل کا واقعہ صحافتی آزادی کے لئے ایک بہت بڑا سانحہ ہے یہ سانحہ ہی نہیں بلکہ ان صحافیوں کے لئے جو ایسے حالات میں رپورٹنگ کرنے کے لئے فوراً پہنچ جاتے ہیں انہیں ڈرو خوف دلانے کا ایک حصہ بھی ہے۔ اس کے باوجود آج صحافت کے پیشہ سے وابستہ کئی ایسے صحافی موجود ہیں جو اپنی موت کی پرواہ کئے بغیر اپنے پیشہ سے انصاف کرتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی لگاکر موت کے اس کنویں میں یعنی بم دھماکوں، خودکش حملوں، فائرنگ کے بعد رپورٹنگ کرنے کے لئے مقام حادثہ پر پہنچ جاتے ہیں ۔ایسے ہی جانباز صحافیوں کو ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جو اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنے پیشہ سے وابستہ رہے اور موت کی آغوش میں پہنچ گئے۔

اب کس پر بھروسہ کیا جائے ایران پریا اسرائیل پر۰۰۰
ایران ایٹمی ہتھیار بنارہا ہے یا نہیں یہ ایک عالمی مسئلہ ہے کیونکہ ایران کے خلاف اسی سلسلہ میں معاشی پابندیاں عائد تھیں لیکن 2015میں ایک معاہدے کے بعد اس پر کئی معاشی پابندیاں اٹھالی گئیں۔ان دنوں اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے ’’خفیہ ایٹمی فائلیں‘‘افشا کی ہیں جن کے مطابق ایران نے خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کی تھی۔ اسرائیل وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ہزاروں ایسی دستاویزات حاصل کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نے دنیا کو یہ کہہ کر دھوکہ دیا کہ اس نے کبھی بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کی۔یہ بات تو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ہم جانتے ہیں کہ ایران نے 2015 میں ایک معاہدے کے تحت اپنے ایٹمی پروگرام کو روکنے کا وعدہ کیا تھا جس کے بدلے میں مغربی ملکوں نے اس پر عائد پابندیاں اٹھا لی تھیں۔امریکی ایوانِ صدر وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نتن یاہو نے جو معلومات دی ہیں وہ امریکہ کو ایران کے خفیہ ایٹمی اسلحہ پروگرام کے بارے میں پہلے سے حاصل کردہ معلومات سے مطابقت رکھتی ہیں۔امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے نتن یاہو کی پریزنٹیشن کا ایک حصہ دیکھا ہے اور یہ صورتِ حال ناقابلِ قبول ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ12 ؍مئی کو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ برقرار رکھنے کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔یوں تو امریکی صدرٹرمپ پہلے ہی سے ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے سخت مخالف رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایران کی یہ حرکت شرمناک ہے۔ انھیں 12 ؍مئی سے قبل اس معاہدے کو جاری رکھنے یا ختم کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔تاہم یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے کی پاسداری کرینگے۔تل ابیب سے انگریزی میں تقریر کرتے ہوئے نتن یاہو نے دستاویزات دکھا کر کہا کہ یہ ان دستاویزات کی نقول ہیں جو اسرائیلی جاسوس ادارے نے تہران سے حاصل کی ہیں۔انھوں نے کہا کہ 55 ہزار صفحات اور 153 سی ڈیز پر مشتمل یہ دستاویزات ایران کے ایٹمی اسلحے کے پروگرام سے متعلق ہیں جس کا خفیہ نام ’’پروجیکٹ آماد‘‘ تھا۔نتین یاہو نے دعویٰ کیا ہیکہ اس پروجیکٹ کا واضح مقصد پانچ ایٹم بم تیار کرنا تھا، جن میں سے ہر ایک کی طاقت دس کلو ٹن ٹی این ٹی کے برابر ہوتی۔پاور پوائنٹ پریزنٹیشن پیش کرتے ہوئے نتن یاہو نے کہا کہ ان کی حاصل کردہ دستاویزات ہیں سے پتہ چلتا ہے کہ ایران نے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کے اہم اجزا پر کام کیا تھا جن میں ان کا ڈیزائن اور ایٹمی تجربے کی تیاری شامل ہیں۔انھوں نے کہا کہ ایران نے ایٹمی تجربے کے لیے پانچ مختلف جگہوں پر غور کیا تھا۔اسرائیلی وزیرِ اعظم نے کہاکہ ان فائلوں سے قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ ایران جب یہ کہہ رہا تھا کہ وہ ایٹم بم نہیں بنا رہا تو وہ سفید جھوٹ بول رہا تھا۔نیتن یاہو کے مطابق یہ فائلیں امریکہ کے ساتھ شیئر کر دی گئی ہیں اور انھیں ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے کے بھی حوالے کیا جائے گا۔2007میں امریکی انٹیلی جنس نے ’’بڑے اعتماد کے ساتھ‘‘تخمینہ لگایا تھا کہ ایران 2003 تک ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام پر کام کر رہا تھا، لیکن بعد میں اس نے اسے ترک کر دیا۔دوسری جانب ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹرپراپنے پیغام میں اسرائیل کی جانب سے ایران پرایٹمی ہتھیار بنانے کے حوالے سے لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی ہے۔جواد ظریف کا کہنا ہے کہ یہ پرانے الزامات کی تکرار ہے جن سے اقوام متحدہ کا ایٹمی ہتھیاروں کی نگرانی کا ادارہ پہلے ہی نمٹ چکا ہے۔ایرانی وزیرخارجہ کا نیتن یاہو کے بارے میں کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے بارے میں فیصلہ کرنے سے قبل متاثرکرنے کیلئے بچکانہ ہتھکنڈا ہے۔جواد ظریف نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن اور توانائی کے حصول کا ذریعہ تھا۔اب دیکھنا ہیکہ امریکی صدر اس ماہ اپنا فیصلہ ایران کے حق میں کرتے ہیں یا پھر اسرائیل کی جانب سے جو الزام ایران پر لگایا گیا ہے اسے سچ مانتے ہوئے ایران کے خلاف فیصلہ کرتے ہوئے معاہدہ کو ختم کرتے ہیں۔ ویسے امریکی صدر خود چاہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ معاہدہ کو ختم کردیا جائے ۔

قطر کا بحران اورمتحدہ عرب امارات
عالمِ اسلام جس سنگین مسائل سے دوچار ہے اس موقع پر تمام اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد قائم ہونا بے حد ضروری ہے ۔سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک نے جس طرح قطر سے مختلف الزامات کے تحت سفارتی تعلقات منقطع کرلئے ہیں اور معاشی طور پرقطر کو بحران سے دوچار کردیا ہے اس کا اثر تمام عالمِ اسلام پر پڑرہا ہے۔اب متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور ڈاکٹر انور قرقاش نے کہا ہے کہ قطر اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان جاری تنازع کو خلیج کے اندر ہی حل کرنا ہوگا۔ اس بحران کو باہر سے کسی تیسری قوت کی ثالثی کے تحت حل نہیں کیا جا سکتا۔عرب ٹی وی کے مطابق ٹوئٹر پر پوسٹ کردہ متعدد پیغامات میں انور قرقاش نے قطر پر زور دیا کہ دوحہ ٹال مٹول کی پالیسی کے بجائے براہ راست بائیکاٹ کرنے والے ممالک کے مطالبات تسلیم کرے۔ان کا کہنا تھا کہ قطر کے بحران کے حوالے سے خلیجی ممالک پر بیرونی دباؤ اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ قطر کو پڑوسی ممالک کی شکایات دور کرتے ہوئے ان کے تمام مطالبات کو تسلیم کرنا ہوگا۔خیال رہے کہ سعودی عرب،، متحدہ عرب امارات،، بحرین اور مصر نے کئی ماہ سے قطر کا سفارتی اور تجارتی بائیکاٹ جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ چاروں ممالک قطر پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام عاید کرتی ہیں۔ انہوں نے قطر سے تعلقات کی بحالی کے لیے 13 مطالبات پیش کیے ہیں۔قطردہشت گردی کے حوالے پشت پناہی کے الزام کو بے بنیاد قرار دے کر اسے مسترد کرچکا ہے ۔ اور ان 13مطالبات کو بھی وہ پوری طرح ماننے کے حق میں نہیں ہے۔اب دیکھنا ہے کہ ان ممالک کے درمیان اتحاد ہو پاتا ہے یا ایک عرصہ دراز تک قطر پر معاشی پالیسیاں یوں ہی عائد رہتی ہے۔
***

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209436 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.