شہر سے 60 کلومیٹر دور بستی میں ایک شخص رہتا تھا ان کے
دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی ان کے ساتھ گھر میں ایک چھوٹا بھائی بھی رہتا تھا
ان کے دونوں بچے ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے جبکہ اُن کی چھوٹی سی بچی
پڑھائی میں شامل نہ تھی اور اپنی ماں کے ساتھ گھر کے کام میں ہاتھ بھٹاتی
تھی ان کی ولد محترم دور دراز علاقے میں ایک جاگیردار شخص کے ساتھ کاشتکاری
کا کام کرتا تھا اورہمیشہ بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کرتے کہ پڑھنااور
بڑے آفیسر بن جانا ساتھ ہی بچوں کو یہ بھی فرماتے کہ جو شخص نہیں پڑھتااُن
کی زندگی نامکمل ہوتی ہے اور یہی وجہ تھی کہ اُن کی خاص توجہ بچوں کی
پڑھائی پر تھی ان کی تنخواہ دس ہزار روپے بنتی تھی جس میں گھر سارا بوجھ
اور بچوں کی سکولوں کا فیس بھی اسی تنخواہ میں ادا کرنا پڑتا تھا اور اس
لگن کی وجہ سے اُس سے اپنا مالک بھی بہت خوش تھا کام بروقت کرتا اور مالک
حق سے زیادہ پیسے دیتے تھے اُس نے انتھک محنت اور ملنساری کی وجہ سے بستی
میں ایک نام پیدا کیا تھابستی میں دس سال کا طویل عرصہ نہایت عزت سے
گزارااور کسی کو بھی ناراضگی کا موقع نہیں دیابستی والے اُسے اپنے گھر کا
فرد سمجھتے تھے ان کااصل نام گل مرجان تھا لیکن خدمت کی وجہ سے خدمت گار کے
نام سے مشہور تھا اُس سے بستی والے لوگ بہت خوش تھے اُس کی بڑی بیماری یہ
تھی کہ سیاستدانوں سے دلی لگا ؤ زیاد ہ تھا جب بھی کام سے فارغ ہوتا تو گھر
کا حال معلوم نہیں کرتابلکہ فورا جلسہ جلسوں میں خاضری لگانے کیلئے دوڑ تا
اور ہر وقت سیاستدانوں کے پیچھے بھگتا پھرتا نظر آتا تھا بڑے شوق سے اپنی
تنخواہ سیاست میں خرچ کرتا تھا اس کے برعکس اُس کے بچے بستی میں ایک دکان
سے قرضہ پر سامان لیتے تھے تقریبا یہ سلسلہ بدستور تین ماہ تک جاری رہا ایک
دن ایک شخص نے اُس سے عرض کیا کہ اپنے ساری زندگی سیاسی لیڈروں کو خوش کرنے
کیلئیگزاری خدمت کے بدلے میں کچھ ملاہے کہ نہیں،ساتھ یہ بھی فرمایا آپکا
چھوٹا بھائی بیروزگاری کی وجہ سے گلیوں اور محلوں میں گھومتا پھرتا ہے اُس
نے جواب دیا فلاں ایم این اے سے نوکری کی بات ہوئی ہے اُس نے کہا ہے کہ تم
فکر نہ کرو میں آپ کے بھائی کیلئے ایک اچھی نوکری ڈھونڈرہاہوں اس دوران اُن
کوایک کال آئی اسلام وعلیکم کہا سلام کے بعد عرض کیا کون صاحب بات کررہے
ہوواپس جواب ملا اب مجھے جانتے بھی نہیں فلاں دکاندار بات کررہاہوں جی
فرمائے اُنہوں نے کہاکہ تین ماہ ہوگئے آپ کے بچے دکان سے سامان لے رہے ہیں
لیکن آپ کی طرف سے ادائیگی نہیں ہورہی ہے معلوم کرنے کیلئے اُس نے عرض کیا
کتنے پیسے ہیں دکاندار نے جواب دیاکہ تین ماہ کی ٹوٹل پیسے پچیس ہزار ہیں
یہ بھی کہہ دیا کل تک مجھے پیسے بھجوادیں ورنہ آئندہ بچوں کو سامان نہیں
دوں گا پھر کچھ دیر کیلئے سوچنے لگا تھوڑی دیر بعد دوسری کال آئی اُس نے
موبائل اُٹھا یا اور عرض کیا کہ کون بات کررہے ہو جی میں فلاں سکول کے
پرنسپل بات کررہاہوں جی فرمائے عرض کیا کہ فلاں فلاں بچے آپ کے بچے ہیں جی
ہاں ہمارے بچے ہیں پرنسپل صاحب نے بولا کہ بچوں کی پانچ ماہ کی فیس باقی
ہیں فیس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے آپ کے بچے سکول سے خارج کردیئے گئے ہیں
اس کے فوراً بعد مالک کاکال آیا اور مالک نے اُس کو آزمائش میں ڈالتے ہوئے
کہاکہ چند دنوں سے آپ چھٹی پر تھے آپ کی وجہ سے ہماراساراکام رُکاہوا تھا
ہم نے دوسرا مزدور کاشتکاری کیلئے لگایاہے آپ مزید آنے کی زحمت نہ کریں پھر
یہ بدقسمت شخص اکیلا بیٹھ کر رونے لگا اور کھوئے ہوئے مقام کودوبارہ پانے
کیلئے سوچتا رہا لیکن گیا وقت واپس نہیں آتایہی حال آج کل ہمارے معاشرے کا
ہے عوام اپناقیمتی وقت اور تمام تر صلاحیتیں سیاسی لیڈروں پر قربان کرکے
آخر حالی ہاتھ ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔بقول شاعر
نہ خدا سے ملے نہ وصالِ صنم نہ ادھرکا رہے نہ اُدھر کے رہے
اُن کو تگ و دو کے بدلے محرومیوں کے سواء کچھ حاصل نہیں ہوتا اور معاشرے
میں اُسے مسترد شدہ افرادکے نام سے پکارا جاتا ہے عوام صرف الیکشن کے دنوں
میں سیاسی پارٹیوں کے ساتھ نہیں دیتے بلکہ اُس میں ایسے کارکناں بھی ہوتے
ہیں کہ مالی نقصان تو کیا جانی نقصان کا بوجھ بھی برداشت کرنے سے کسر نہیں
آتے جب انتخابات گزار جاتے ہیں اور ممبران اسمبلی تک پہنچ جاتے ہیں تو
اُسسے کارکنوں کا بھی کچھ توقعات ضرور ہوتے ہوں گے پھرتو وہ ضروریات
کوپوراکرنے کیلئے دوڑتے رہیں گے اگر ان کی ذاتی ضروریات نہ بھی ہوں گے تو
کوئی دوست یا رشتہ دار کا تو ضرور ہوتے ہوں گے ایک کارکن کو دوست کا کال
آیا عرض کیا کہ فلاں ایم پی اے کے ساتھ میراکام ہے حالیہ الیکشن میں اپنے
اُن کاساتھ دیا تھا کل دونوں کام کے عرض سے فلاں ایم پی اے کے پاس تشریف لے
گئے ایم پی اے کا گھر اُن سے تھوڑے فاصلے پرتھا ایم پی اے کے ساتھ ملاقات
ہوئی اور سرگردہ کارکن نے دوست کا فائل میز پر رکھ کر ایم پی اے سے عرض
کیاکہ یہ شخص میرا دوست ہے ان کا کام کریں ایم پی اے نے کہاکہ تم فکر نہ
کرو ان کاکام ہوجائے گا تم ایساکروکہ دو ماہ بعد آجاؤاور کا م کا پتہ کرو
دوماہ گزارنے کے بعد پھر اُنہیں ایم پی اے کے دفتر کی چوکھٹ پر سر لگایا
چونکہ ایم پی اے صاحب دفتر میں تھے اُس نے پی اے کے ساتھ ملاقات کی اُنہوں
نے عرض کیاکہ تم تھوڑا انتظار کروایم پی اے صاحب آنے والے ہیں تقریبا 5
گھنٹے تک انتظار کی لیکن ایم پی اے صاحب نہیں آئے، آنے اور جانے کایہ سلسلہ
تقریبا چار سال تک جاری رہا چار سال کے بعد اُنہوں نے پھر جانے کا ارادہ
کیااس دوران گھر کے کام کے غرض سے بازار نکلا تو دوست نے اُن سے پوچھا کہ
بھائی کام کا کیا بنا انہوں نے جواب دیا انشاء اﷲ آج میں ایم پی اے صاحب کے
پاس جارہاہوں دوست نے کہا پتہ ہے کیا اب جانے کی ضرورت نہیں اخبار دیکھوں
الیکشن کمیشن نے تمام ممبران کے اختیارات پر پابندی لگادی ہے پھر خیران ہوا
اورسوچنے لگا گیاوقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔ |