وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے فرمایا ہے کہ سیاستدان کی
بھی جج ،جرنیل جتنی عزت ہونی چاہیئے ملک کی ترقی کا صرف ایک ہی طریقہ ہے
ووٹ کو اور سیاستدان کو عزت دو ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک دوسرے کی
عزت کرنی چاہئے ۔عزت کے لئے صرف مذکورہ تین شخصیات نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو
اس ملک کا شہری ہے کی عزت کرنا ہمارے حکمرانوں ،جرنیلوں ،ججوں ودیگر بڑوں
کا فرض ہے اسلام میں عزت دینے کا معیارمال اور عہدہ نہیں ہے بلکہ اعمال
صالح ہیں ۔بدقسمتی سے ہم آج مادیت پرستی کی دوڑ میں اتنے آگے نکل گئے ہیں
کہ اب صرف پیسہ اور عہدے والے کی عزت کی جاتی ہے ۔ہر شخص اپنی عزت کروانے
کا شوقین ہے ۔دوسرے کی عزت وقار حقوق کا اسے کوئی خیال نہیں ہے ہمارے ملک
کے بڑوں نے چاہے وہ جج ،جرنیل ،سیاستدان ،جرنلسٹ جو بھی ہوں ملک کا جو حال
کیا ہے اس کے مطابق تو کوئی بھی عزت کروانے کا حقدار نہیں ٹہرتا لیکن یہاں
الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔جس نے جتنا مال کمایا ،قرضے معاف کروائے کمیشن میں
کروڑوں وصول کیے وہ ہی الیکشن لڑنے کا حقدار ،اربوں کی کرپشن کرو ،کروڑوں
میں دیکر نیب سے گلوخلاصی کی سندحاصل کرلو ۔اسی طرح کروڑوں والے لاکھوں اور
لاکھوں والے ہزاروں دیکر پاک صاف ہوجاتے ہیں ۔ایک تو ہم مالی کرپشن ترقیاتی
کاموں ،نوکریوں ،ٹھیکوں ،خریداریوں میں کرتے ہیں لیکن اس سے ہمارا پیٹ نہیں
بھرتا تو بینکوں سے قرض لے کر اسے ہڑپ کرجاتے ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق
گزشتہ 27 برسوں میں ساڑھے چار کھرب سے زائد قرضے 988 سے زائد کمپنیوں اور
افراد نے معاف کروائے ۔پاکستان جو کہ 28 ہزار ارب روپے سے زائد قرضو ں کے
بوجھ تلے دباہوا ہے اس کی لولی لنگڑی معیشت آخری سانسیں لے رہی ہے وہ اس
قسم کی عیاشیوں ،سخاوت کا ہرگز متحمل نہیں ہے ۔قوم کے پیسوں سے حاصل شدہ
سرمائے کو ہمارے سیاستدان ،جاگیردار ،صنعت کار ،تاجر ،زمیندار ،کاشتکار
ایسے ہڑپ کرلیتے ہیں جسے یہ ان کا قانونی حق ہے اور اس کرپشن میں ہماری
عدلیہ ،جج ،جرنیل ،سیاستدان سب ملوث ہیں ۔بھائی چوروں لٹیروں کی عزت کون
کرتا ہے لیکن پھر بھی کو ئی کہتا ہے ہمیں عزت دو کوئی ووٹ کی عزت کی بات
کرتا ہے تو کوئی خواتین کی اور کوئی ووٹرز کی ۔ہمارے سیاستدان ،جج ،جرنیل ،جرنلسٹ
سب کے سب اپنی مراعات ،سہولیات ،پلاٹس ،تنخواہوں ،الاؤنسز ،پنشن کی فکر میں
تمام عمر گزار دیتے ہیں لیکن اس ملک کے غریب ،مزدور ،بیمار ،لاچار ،بیوہ کی
عزت کرنے انہیں تمام تربنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کے بارے میں کوئی
فکر مند نہیں ہے ۔ویسے بھی عزت ،دولت ،حکومت کے تمام تر خزانے میرے رب کے
پاس ہیں ۔اگر ساری دنیا کے بادشاہ ،سرمایہ دار مل کر یہ چاہیں کہ فلاں شخص
کو عزت دینی ہے لیکن میرے مولا اس کی بے عزتی ،زوال کا فیصلہ کرلیاہو تو
کوئی بھی اسے عزت نہیں دے سکتا ۔اگر ہمارے بڑے یہ چاہتے ہیں کہ عوام ان کی
عزت کرے تو انہیں اپنے اعمال درست کرنے ہونگے ۔عوام کے دکھ درد کو اپنا دکھ
درد سمجھنا ہوگا ۔ظاہری زبردستی کی عزت ،پروٹوکول چند دنوں کی ہے ۔اصل عزت
تو وہ جو مرنے کے بعد بروز قیامت ملنے والی ہے ایک حدیثؐپاک کے مفہوم کے
مطابق ایک مرتبہ ایک شخص کا گزر حضورؐ اور صحابہ ؓ کے سامنے سے ہوا جو کہ
دنیاولی لحاظ سے بڑا تھا آپؐ نے دریافت کیا کہ اس شخص کے متعلق تمہاری کیا
رائے ہے صحابہ کرام ؓ نے جوابدیا کہ یہ ایک باعزت شخص ہے ۔اس کی بات کو لوگ
سنتے ہیں اہمیت دیتے ہیں کہیں اگر یہ رشتہ بھیجے تو اس کے رشتہ کو قبول کیا
جائے گا پھر ایک عام صحابی ؓ جس کے کپڑے پھٹے پرانے ،مالی ودنیا وی حالت سے
کمزور شخص کا گزر ہوا اس کے بارے میں بھی آپ ؐنے سوال کیا تو صحابہ کرام نے
جوابدیا کہ ایک عام شخص ہے جس کی بات کی کوئی اہمیت نہ ہے کہیں رشتہ بھیجے
تو قبول نہ کیا جائے گا ۔آپؐنے جوابدیا کہ اگر ان پہلے جیسوں سے دنیا بھر
جائے تو پھر بھی اس دوسرے شخص کی جو عزت وقار میر ے مولاکے ہاں ہے اس کے
بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ۔میر ے پرودگارکے ہاں عزت کا معیار اعمال
صالح میں ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران ،اشرافیہ ،جج ،جرنیل ،تمام دنیاوی
عزت وقار کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ۔ہر شخص اقتدار کا بھوکا ہے ۔ہمارے
حکمرانوں کے نیک عمل میں بھی ریاکاری ،دکھلاوا نمایا ں ہوتا ہے۔بھائی کوئی
جیب سے پیسہ لگارہے ہو جو تختیاں لگاتے ہو۔بڑے بڑے اشتہار دیتے ہو ۔میں نے
یہ کیا میں نے وہ کیا ۔ہمارے ملک جسے اﷲ تعالیٰ نے لاکھوں مسلمانوں کی
قربانی کے باعث ہر نعمت سے نوازا لیکن ہم نے دنیاوی جاہ وجلال کی خاطر اس
کے وسائل کو بری طرح سے لوٹا اور برباد کیا ۔الٹا ہم جو پہلے جرمنی ،کوریا
جیسے ممالک کو قرضے ،تربیت دیتے تھے اب ان ملکوں اور دیگر مالیاتی اداروں
کے کھربوں کے مقروض ہوگئے ۔ملک پانی ،بجلی ،گیس ،کرپشن ناانصافی ،بے
روزگاری ،عدم تحفظ ،بدامنی ،دہشت گردی ،فرقہ واریت ،قومیت ،علاقائیت ،بے
حیائی جسے مسائل کا شکار ہے ۔عوام کا اعتماد حکمرانوں ،سیاستدانوں چاہے وہ
جس روپ میں بھی ہوں اٹھ چکا ہے ۔عدالتی انصاف اور احتسابی ادارے احتساب
کرنے میں ناکام ہیں ۔عوام ذہنی پریشانی ،غربت ،بے روزگاری ،مہنگائی کے باعث
خودکشیوں میں مصروف ہے لیکن ہمیں اپنی عزت کی فکر ہے ہمیں عزت دو ۔اگر ہم
اپنے عوام کی خدمت ایمانداری کے ساتھ کریں گے ۔ملک کے سرمائے ،وسائل کو
اپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر استعمال نہیں کریں گے ۔لوگوں کی جان ومال کو تحفظ
فراہم کریں گے توہمیں عزت کی بھیک نہیں مانگنی پڑے گی ۔میرا پرور دگار خود
عوام کے دلوں میں حکمرانوں ،جرنیلوں ،ججوں کی عزت پیدا کردے گا۔مصنوعی عزت
وقار سے دنیا وآخرت میں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
٭٭٭٭ |