زندگی سانس سے زندہ ہے اور پل سے
رواں رہتی ہے۔ سانس تبھی محسوس کئے جاتے ہیں۔ جب پل اپنی روانی چھوڑ دیں۔
دیکھنے میں جو زندگی ہے وہ اس کی وجہ سے ہے جو اصل ہے۔ وہ ساتھ ہوتے ہوئے
بھی محسوس نہیں کیا جاتا۔ سانس کے گننے اور انتظار میں شائد روانی رک جائے۔
اپنی دھڑکنیں دوسروں کو تو سنائی دیتی ہیں۔ اگر خود کا وجود سنائی دے جائے
تو برداشت نہ کر پائیں۔ لہو رگوں میں دوڑتا رہے۔ طعام سے انہظام تک، خون کے
بہاؤ سے اخراج تناؤ تک۔ کوئی بھی احساس بھاری پن کا احساس نہیں دلاتا۔ اور
یہ سانس کی وجہ سے ہے۔ جو ہمیں ہر بوجھ کی اذیت سے بچا کر رکھتا ہے۔ جس کے
اپنے احساس سے ہم بھاری پن کا شکار نہیں ہوتے۔ زندگی کے پل جسم سے تو جدا
رہتے ہیں۔ مگر کبھی خود تو کبھی جواز پیدا کر کے جسم ہی کو احساس سے تختہ
مشق بناتے ہیں۔ طاقت کا توازن بگڑنے سے کبھی کبھار کمزور بھی طاقتور پر
بھاری ہو جاتے ہیں۔ جسمانی قوت کو تو آخر کار گھائل ہونا ہی ہوتا ہے۔ مگر
سانسوں سے پیدا کی گئی طاقت روح میں سرایت کر جاتی ہے۔ جو فنا کی ملزومیت
سے ہمکنار رہتی ہے۔ اور آخری سانس تک زندگی کے لئے جنگ و جدل میں برسرپیکار
رہتی ہے۔ زندگی کو پانے کے احساس لمس دلاتی ہر شے دلپزیر ہوتی ہے۔ دلپسندی
سے زندگی گداز نما تو ہے مگر روح محو پرواز نہیں رہتی بلکہ فنا پرداز ہے۔
پر آسائش گداز بستر ہو یا آرام دہ سفر چند پل کے بعد وہی بدن اکتاہٹ و
مجبوری میں بدل جاتا ہے۔ جسم کی ضرورتیں پل پل بدلتی ہیں۔ کبھی پسند و نا
پسند میں تو کبھی خوشی و غم کے کھونے اور پانے میں۔ پانے کی خواہش ایک لمبے
پل کی محتاج ہے مگر پا کر خوشی کی چند پل سے زیادہ نہیں۔ کھونے کا خوف چند
پل کا ہے مگر کھونے کا درد ایک لمبے عرصے تک رہتا ہے۔ جو سانسوں کے ساتھ
جڑے ہوتے ہیں وہی اپنے ہوتے ہیں۔ جو پل کا ساتھ نبھاتے ہیں وہ پل میں جدا
ہو جاتے ہیں۔ اپنا پن دکھانے سے نہیں محسوس کرنے سے ہوتا ہے۔ جو یہ احساس
نہیں دلا پاتے کہ وہ اپنے ہیں۔ ان کا ساتھ چلنا ہوا کی مانند ہے۔ جس سے
لہریں کناروں سے لمس پاتی ہیں اور اسی پل جدا ہو جاتی ہیں۔ کنارے ہر نئی
لہر کی آس میں پھر انتظار میں قید ہو جاتے ہیں۔
لیکن پھول احساس سے مزین ہوتے ہیں۔ بھنوروں کو بلاتے ہیں صرف لمس ہی نہیں
خوشبو بھرا رس بھی دیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی بھنورے اور پھول کی قسمت میں فنا
لکھا ہے۔ مگر لہر اور کنارے کی طرح صدیوں تک آباد رہنا نہیں۔ لاثانی وہ ہے
جو لہن و لسان میں رہے اور لافانی جو قطرہ سے فنا ہو مگر قلب سے جس کی بقا
ہو۔ کنارے لہروں کی نظر میں لاثانی ہیں مگر لافانی نہیں۔
زندگی کو فنا ہے مگر موت کو بقا ہے۔ بقا پانے والی موت کبھی لوٹ کر زندگی
کی طرف نہیں آتی۔ مگر زندگی پانے والی ہر شے کو فنا ہے۔ چاہیے تو وہی جس
میں ہمیشہ کی بقا ہو۔ لیکن چاہتے ہیں وہ جس میں ہمیشہ کی فنا ہو۔
آج ہم جن کے پیچھے ہیں کچھ راستہ کے بعد ہم سے جدا ہو جائینگے۔ ان کے راستے
ان کو ان کی منزل کی طرف لے جائیں گے۔ اور ہمارے راستے ہمیں اپنی منزل کی
طرف۔ ایک لمحے کے لئے تو ان سے اپنائیت کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر جلد ہی جب وہ
راستہ چھوڑ دیتے ہیں تو ہم کسی اور کے پیچھے اپنا سفر شروع کر دیتے ہیں۔
ہمارا سفر ایک ہے اور منزل بھی ایک ہوتی ہے مگر مسافر روز الگ الگ ہیں۔
منزلیں سب کی بظاہر تو ایک ہیں راستے بھی بظاہر ایک۔ مگر وہ فنا کے راستے
ہیں اسی لئے تو ایک ہیں۔ بقا جلنا پسند نہیں کرتا فنا میں دلکشی ہے۔ قلب
فنا میں ڈوبے گا تو بقا میں ابھرے گا۔ جب خواہش بقا ہو جائے اور عمل فنا ہو
جائیں تو جستجو و ارادے بقا نہیں پاتے۔ فنا ہو جاتے ہیں۔ عمل بقا کے لئے ہو
تو اس کی فنا میں بقا ہے۔
زندگی کا فلسفہ کہیں حیاتیات ہے تو کہیں عمرانیات۔ مگر مذہب زندگی کو دو
طرح سے بیان کرتا ہے۔ ایک اس کی فنا صفت اور دوسری بقا۔ اور اگر غور کیا
جائے تو زندگی کی اسی صفت فنا سے ہی اس کی بقا نظر آتی ہے۔ ہم نے زندگی کی
صفت فنا کو ارض فنا سے منسلک کر رکھا ہے۔ اس لئے تو ہم بقا کے راز کو نہیں
جان پاتے۔
عالم فنا ہے تو علم بقا ہے۔ عامل فنا ہے تو عمل بقا ہے۔ جسم فنا ہے تو روح
بقا ہے۔ زخم فنا ہے تو درد بقا ہے۔ دوا فنا ہے تو اثر بقا ہے۔ محبوب فنا ہے
تو محبت بقا ہے۔ ماں فنا ہے تو مامتا بقا ہے۔
زندگی بادلوں کی مانند چلتی ہے۔ بارش کی مانند روتی ہے۔ پہاڑوں کی مانند
جمتی ہے۔ ٹیلوں کی مانند گھستی ہے۔ روشنی سے کھلتی ہے تو اندھیروں سے ڈرتی
ہے۔ کھیلوں سے بہلتی ہے تو پھولوں سے مہکتی ہے۔ یہ پل میں فدا ہے پل میں
جدا ہے۔ یہ ہاتھوں سے پھسلتی ہے۔ پاؤں سے ڈگمگاتی ہے تو آنکھوں سے ڈبڈباتی
ہے۔ یہ ہونٹوں سے مسکراتی تو رخساروں سے شرماتی ہے۔ اُٹھتی نگاہ ِ آسمان تو
نظر فنا ہے۔ جھکتا سر سجدہ میں قلب بقا ہے۔ |