بلوچستان ایسا صوبہ جس کا مستقبل سی پیک کی وجہ سے روشن
لیکن فرقہ وارانہ و لسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ میں اضافے کے سبب تشویش
ناک ہے۔ بلوچستان میں فرقہ وارانہ و نسلی بنیادوں پر جس طرح لوگوں کا قتل
کیا جارہا ہے، وہ صوبائی حکومت سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے
بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے6
محنت کشوں کو خلیجے کے مقام پر دہشت گردوں نے اپنی سفاکیت کا نشانہ بنایا۔
نام نہاد قوم پرست بلوچستان کی ترقی میں حائل ہیں اور بے گناہ و نہتے محنت
کشوں کو اپنی سفاکیت کا نشانہ بنارہے ہیں۔ اس دہشت گردی کا واضح مقصد لسانی
اکائیوں کو پیغام دینا ہے کہ بلوچستان دیگر قومیتوں کے لیے نوگو ایریا ہے۔
ایسے واقعات متعدد بار رونما ہوچکے ہیں، جس میں محنت کشوں کو دہشت گردی کا
نشانہ بنایا گیا۔ یہ انتہائی افسوس ناک صورتحال ہے جس کا مداوا
انتہائیضروری ہے۔ ملک دشمن عناصر فرقوں کے نام پر مسلمانوں کو شہید کررہے
ہیں تو کبھی نام نہاد قوم پرست نسلی و لسانی بنیادوں پر قتل و غارت گری کا
بازار گرم کرتے رہتے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف کوہزارہ برادری کی ٹارگٹ
کلنگ کے علاوہ سنی مسلمانوں، مسیحیوں اور محنت کشوں کے مسلسل قتل عام کا
بھی نوٹس لینا چاہیے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پڑوسی ملک محنت کشوں کو اپنے
مخصوص مفادات کے لیے دہشت گردی کا نشانہ بنارہا ہے۔
لسانی و فرقہ وارانہ سازشوں کا ہی نتیجہ تھا کہ کراچی کرچی کرچی ہوا۔
پاکستان کو 70فیصداور سندھ کو90فیصد سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر ناپرساں
کو لسانی و فرقہ وارانہ گروہ بندیوں میں تقسیم کرکے وطن عزیز کی شہ رگ پر
ضرب لگائی گئی۔ کئی دہائیوں بعد کراچی میں امن کی واپسی شروع ہوئی تو یہ
بات اُن عناصر کو برداشت نہ ہوسکی جن کی سیاست لاشوں پر چل رہی تھی۔ عام
انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرچکی ہیں۔
ملک گیر سطح پر چھوٹے بڑے جلسوں میں سیاسی رہنما مخالف پارٹی پر سنگین
الزامات عائد کرتے نظر آرہے ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں کی بہ نسبت کراچی کی
اہمیت اس لیے دوچند ہے کہ شہر کے یرغمال عوام کو کئی عشروں بعد آزادی ملی
ہے۔ 70فیصد سے زائد علاقے نوگو ایریا تھے اور سیاسی مخالفین کو کسی قسم کی
سماجی و سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں تھی۔ میڈیا سے وابستہ صحافییا اینکر
پرسن بھی جب نوگو ایریاز میں جانا چاہتے تو اُس علاقے کی اسٹیک ہولڈر جماعت
سے انہیں اجازت لینا پڑتی اور اُس کی ڈکٹیشن کے مطابق ہی پروگرام کرنا پڑتا
تھا۔ عامل صحافی کے لیے تو رپورٹنگ کرنا جان جوکھم کا کام ہوا کرتا تھا۔
کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف لکھنے پر اُسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور
یہ کم ترین سزا ہوتی ہے۔ جس میں اُسے زخمی کردیا جاتا تھا۔
جبر کی اس روش کو لسانی جماعت کی مخالف عسکری ونگ رکھنے والی جماعتوں نے
بھی اختیار کرلیا اور راقم آج سوشل میڈیا میں اُن ناموروں کی ’’اونچی
دُکان اور پھیکے پکوان‘‘کی پوسٹوں کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہے کہ آج
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صرف کراچی کے شہریوں کو ہی نہیں بلکہ
صحافیوں کو بھی دہشت گردوں کے جبر سے آزاد کیا۔ آج کراچی میں بھی جہاں
سیاسی جماعتوں کو کھل کر سیاسی جلسے کرنے کی آزادی ہے توعامل صحافیوں کو
بھی کسی نوگو ایریا کا سامنا نہیں۔ لیکن ایک مخفی خوف اب بھی کراچی کے
اکثریتی صحافیوں میں نظر آتا ہے۔ لفافہ صحافیوں کے علاوہ پیکیج ملنے والے
بعض کئی بڑے نام آج بھی جوتیاں سیدھی کرتے نظر آتے ہیں۔ پہلے سوشل میڈیا
میں عسکری ونگ سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے خلاف پوسٹ کرنا بھی خودکُش
حملے سے کم نہیں تھا۔ بتدریج ٹاک شوز کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے،
اینکرز کچھ آزاد ہوئے لیکن پھر بھی ان کا کوئی پروگرام اُس وقت تک نہیںنشر
نہیں ہوسکتا تھا جب تک معروف لسانی جماعت کا نمائندہ موجود نہ ہوتا تھا۔
یہاں تک کہ پرائم ٹائم میں براہ راست نشریات رکوا دی جاتی کہ لندن کو آن
ایئر لے لیا جائے۔ اینکر خاموشی سے 50 منٹ کے پروگرام میں بھیجے گئے سوالات
ہی پوچھتا اور جی بھائی، جی بھائی آپ درست کہتے ہیں کے علاوہ کوئی دوسرا
سوال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان حالات سے پاکستانی کا ہر شہری واقف ہے
کوئی عامل صحافی، اینکر پرسن اس سے انکار نہیں کرسکتا۔
بدقسمتی سے ان حالات
کا سامنا بلوچستان کے صحافیوں کو آج ہے۔ ریاستی و غیر ریاستی عناصر کے
موقف کو من و عن پیش نہ کرنے پر دھمکیاں اور جانی نقصان سمیت اخبارات و
اشتہارات کی بندش معمول بن چکی ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے مکمل سچائی نہیں
لکھی جاسکتی۔ بلوچستان سے دور قومی اخبارات سے وابستہ صحافیوں کو ریاستی و
غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ڈکٹیشن دی جاتی ہے کہ جیسے ’’اخباریا چینل‘‘
ان کی جاگیر ہے۔ جو جیسا کہے گا ویسا ہی لکھے گا، سچ و جھوٹ کا کوئی پیمانہ
نہیں ہوگا۔ ملکی حالات و اداروں کے سربراہوں کی پالیسیوں کے برخلاف خود
ساختہ ایجنڈوں کیجانب سے بھییک طرفہ رپورٹنگ کرنے کا دبائو جب بلوچستان سے
تعلق نہ رکھنے والے صحافیوں پر ہوتا ہے تو سوچا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کے
صحافیوں کی حالت ِ زار کیا ہوتی ہوگی۔ کراچی میں کئی عشروں بعد سیاسی و
صحافتی آزادی کی تازہ لہر سے اہل شہر سانس لے رہے ہیں لیکن جس طرح ایک بار
پھر کراچی میں لسانی سیاست کو فروغ دیا جارہا ہے، وہ پُرامن شہریوں اور
صحافیوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ اہلیان شہر ماضی کے متشدد کراچی کو دوبارہ
نہیں دیکھنا چاہتے۔ لسانی سیاست کے نام پر ہونے والی نوٹنکی نے ایک بار پھر
اشتعال انگیز سیاست شروع کردیہے۔ اس ضمن میں اہل صحافت کا فرض بنتا ہے کہ
جس خوف کے حصار سے کئی عشروں بعد نکلے ہیں، دوبارہ اس دلدل میں دھنسنے سے
خود کو بچائیں۔ کراچی کو ایک بار پھر کراچی بنائیں۔ بلوچستان میں سیاست و
صحافت آزاد کرائی جائے، تاکہ زمینی حقائق کو بے خوفی سے سامنے لایا جاسکے،
کیونکہیہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔
|