عرب کی زمیں برائیوں کی آماج گاہ تھی۔ عصمتیں سرِ بازار
رُسوا تھیں۔ فحاشی، عریانیت (فیشن شو) کا عام ماحول تھا۔ رَقص و سرود،
موسیقی و فحاشی (فلمیں/سنیما) اُن کے معاشرے کا حصہ تھے۔ سود و جوا، لہو و
لعب (قمار بازی)لازمہ بن چکے تھے۔ بے پردگی سرِ راہ تھی۔ شرک و کفر (بت
خانے/گرجا)عام تھے۔ ایسے ماحول میں اﷲ کے آخری نبی صلی اﷲ علیہ وسلم جلوہ
گر ہوتے ہیں۔ قلیل مدت میں اپنے پیغمبرانہ اختیارات اور اعلیٰ کردار سے
برائیوں کو ختم کر کے عرب کی زمیں کو نور و نکہت سے بھر دیتے ہیں۔ دلوں کی
دُنیا میں انقلابِ تازہ کی دستک ہوتی ہے۔ رہزن؛رہبر بن جاتے ہیں۔ گُم راہ؛
ہادی بن جاتے ہیں۔
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا
خاک کے ذرّوں کو ہمدوشِ ثریا کر دیا
شرک و کفر دَم توڑ گئے۔ پتھر دل نرم ہو گئے۔ ظالم؛ مظلوموں کے داد رَس اور
محبتوں کے خوگر بن گئے۔
وہ عہدِ ظلم و جہالت کے دل نما پتھر
نبی سے ملتے رہے آئینوں میں ڈھلتے رہے
اثرات: ایک صدی نہیں گزری تھی کہ غلامانِ مصطفی، اصحابِ رسول نے وادیوں کو
زرخیر بنا دیا، علاقوں کو فتح کیا، دنیا کے بڑے علاقوں تک اسلام کا پیغام
امن و محبت پہنچا، دلوں کے زنگ دُھلے، خرابیاں دور ہوئیں، برائیوں پر قدغن
لگا۔ اسلامی انقلاب کی دھمک نے کفر کی شوریدہ وادیوں کو -لبیک یارسول اﷲ-
کے نغموں سے لالہ زار بنا دیا۔
صہیونی سازشیں: اسلام کے سیلِ رواں کے آگے بند باندھنے کے جتن کیے گئے۔
یہود و نصاریٰ کے اشتراک نے صہیونیت Zionismکو رواج دیا۔ بیت المقدس پر
حملہ کیا گیا۔ حجازی فکر چھیننے کی کوششیں ہوئیں۔ برائیوں کو اسلام کے
مقابل فروغ دیا گیا۔ مسلمانوں کو مغربی رنگ میں رنگنے کی کوششیں ہوئیں۔
اسلامی اندلس جو یورپ کا اہم حصہ تھا؛ میں برائیوں کے ذریعے اسلامی آٹھ صدی
کا دورِ زریں رخصت ہوا۔ مغربی تمدن کے حملے نے مسلمانوں کے اخلاق مسخ کرنے
کی کوششیں کیں۔ اسی کے ذریعے فتنے، فرقے، نئے عقائد جنم دیے گئے، قادیانیت
کا فتنہ اور ناموسِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم میں بے ادبی کی راہیں ہم وار کی
گئیں۔ تعظیم نبی کو شرک قرار دیا گیا۔ بلکہ داعش و بوکو حرام جیسی دہشت گرد
تنظیمیں اور ISISجیسے آتنک واد مسلمانوں کو مشرک قرار دے کر شہید کر رہے
ہیں۔ یہ سب سازشیں ہیں، یہ سب چالیں ہیں، یہ اسلامی تمدن کے خلاف ماحول
سازی ہے۔مغرب کا اسلام پر حملہ ہے۔
عرب نشانے پر: گزری دو صدی سے عرب دنیا میں صہیونی اثرات مسلسل ظاہر ہو رہے
ہیں۔ ترکوں کا خاتمہ، من چاہی حکومتوں کا قیام، اسرائیل کا قیام، فلسطین کی
تاراجی اسی کے اثرات ہیں۔ پھر عراق کی بربادی، صدام کی شہادت، لیبیا کی
تاراجی و لبنان و مصر میں افراتفری، اور حال میں شام میں خوں ریزی و یمن
میں بمباری اسی سازش کے اہم پہلو ہیں۔ جس کا نتیجہ پوری اُمتِ مسلمہ کو
بھگتنا پڑ رہا ہے۔ بچوں، عورتوں، ضعیفوں، جوانوں کی لاشیں ہیں، پورا مسلم
جسم لہولہان ہے۔ اس خوں ریزی کے مقابل عرب میں اسلامی تہذیب کو اپنے ہاتھوں
دفن کرنے کی تیاری کی جا چکی ہے۔ عرب میں لباس و زبان کے سِوا سب امریکی
غلامی میں محسوس ہوتے ہیں۔
اپنی تہذیب پر حملہ: خونِ مسلم کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ اور اسلامی مرکز
حجاز مقدس/سعودی عرب میں ان تمام برائیوں کو لا بسایا جا رہا ہے، جسے خاتم
الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے ختم فرمایا۔ اب دبئی میں
مندر کے افتتاح ہو رہے ہیں، سعودی فرماں روا پوپ کے ساتھ چرچوں کی راہ ہم
وار کر رہے ہیں۔معاہدات عمل میں لائے جا رہے ہیں۔ رقص و سرود کے مراکز/
سنیما گھروں کے افتتاح کیے جا رہے ہیں، امریکی فلموں کے ذریعے اسلامی تمدن
سے دوری کا عملی پیغام دیا جا رہا ہے۔ بنتِ حوا سرِ راہ رُسوا کی جا رہی ہے،
میراتھن کے ذریعے عصمتوں کا بازار سجایا جا رہا ہے، ریگزارِ عرب جہاں سے
بیت المقدس کی آزادی کی صبح طلوع ہونی تھی، وہاں بناتِ مسلم کو عریاں کرنے
کے عمل روا رکھے جا رہے، اور جس قوم کے ہاتھوں میں اسلامی فتوحات کے علَم
ہونے تھے، تاش و جوا کے کارڈ تھما دیے گئے۔
اپنی موت: ہم خود موت سے قریب ہو رہے ہیں۔تمدنِ اغیار کا عروج قومی ورثے کی
موت ہے ۔ فطری تہذیب سے بغاوت نے اسرائیل و امریکہ کو ایسا مسلط کیا کہ
رُوح مر چکی ہے۔ قومی وقار کا جنازہ نکل چکا ہے۔ جہاں سے اسرائیل کے مظالم
پر قوت کا مظاہرہ کر کے ظلم پر قدغن لگانا تھا، جہاں سے عرب ملکوں کو مغربی
اَسیری سے نجات دلانی تھی، جہاں سے شوکتِ اسلامی کا نغمۂ ماضی- تازہ کرنا
تھا، وہیں سے اسلامی تہذیب کے خلاف فیصلے صادر کیے جا رہے ہیں۔ اگر یہ سب
کسی جمہوری ملک میں ہوتا تو تعجب کی بات نہ تھی، لیکن جہاں اسلامی نظام کی
بالادستی ہو، اسلامی حکومت کا دعویٰ ہو، وہاں خلافِ شریعت کاموں کا فروغ
تشویش ناک بھی ہے اور اُمتِ مسلمہ کے زخمی جسم میں صہیونی خنجر کے مترادف
بھی۔
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
ممکن ہے کہ اسلامی تہذیب پر سعودی حکمرانوں کے ذریعے مغربی یلغار صالح
انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو، جس کے بعد قربانیوں کی بزم سجے، اور پھر حیات
کی سرخی ظاہر ہو اور حجاز کی زمیں سے مغربی نغمے دور ہوں اور لبیک یا رسول
اﷲ کے والہانہ نغموں سے مغربی تمدن کی آخری ہچکی بلند ہو اور پھر اسلامی
شوکت کا پھریرا کئی براعظموں پر لہرائے۔ آزادیِ بیت المقدس کی صبح کا بھی
انتظار ہے۔ اے کاش ایسا ہو! |