دنیا بھر میں 8 مئی کو تھیلیسیمیا کا عالمی دن منایا جاتا
ہے۔ اس دن لوگوں میں شعور و آگہی پیدا کرنے کی غرض سے سیمینارز اور واکس
(Walks ) کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس بیماری کا نام تھیلیسیمیا رکھنے کی وجہ
تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ سب سے پہلے بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں میں
شناخت ہوئی اور چونکہ ـ" تھیلا سا" ایک یونانی لفظ ہے جس کے معنی سمندر کا
خون ہیں۔ لہٰذا اسی مناسبت سے اس بیماری کا نام تھیلیسیمیا رکھا گیا۔ایک
تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا میں 50 ہزار سے زائد بچے اس موذی اور
اذیت ناک بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔پاکستان میں ان کی تعداد 5 سے 6 ہزار
ہے۔یعنی سو میں سے پانچ یا چھ بچے اس بیماری کا شکار بنتے ہیں۔دنیا کی
آبادی کا سات فیصد مریض اس بیماری کے کیرئیر ہیں جب کہ پاکستان میں ان کی
تعداد اسّی لاکھ ہے۔
تھیلی سیمیا ایک مہلک موروثی بیماری ہے جو بچوں میں والدین سے منتقل ہوتی
ہے۔ یعنی اس بیماری کا کھانے پینے ، مل جل کر رہنے ، کپڑوں ، استعمال کی
اشیاء ، اور آب و ہوا وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے
کہ یہ بیماری ( بغیر ازدواجی تعلقات کے ) ایک شخص سے دوسرے شخص کو نہیں
لگتی جیسا کہ نزلہ ، زکام ، ٹی بی وغیرہ ۔ اس بیماری میں پیدائشی طور پر
جسم میں خون بنانے (ہیموگلوبن ) کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے۔یعنی خون کی ایک
کیفیت کا نام ہے۔ تھییلیسیمیا کی دو اقسام ہیں، تھیلیسیمیامائنر (صغیرہ )
اور تھیلیسیمیامیجر (کبیرہ )۔ پہلی قسم میں مبتلا لوگ ظاہری طور پر صحت مند
ہوتے ہیں اور ان کے روزمرہ کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آتا اس لئے انہیں
کسی علاج کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ یہ ایک بے ضرر تکلیف ہے اور اس مرض کی
علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ تھیلیسیمیامائنر سے
لاعلم رہتے ہیں جب کہ اس بیماری کی دوسری قسم تھیلیسیمیامیجر ہے جو ایک
انتہائی خطرناک اور مہلک ترین قسم ہے جس کی وجہ سے بچوں میں پیدائش کے چار
سے چھ ماہ کے دوران خون کی کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے اور ایسے بچے اپنی
زندگی اور صحت کی نشوونما کے لئے خون کی مناسب مقدار نہیں بنا پاتے ہیں۔
دنیا بھر میں تھیلیسیمیامائنر سے متاثر افراد موجود ہیں مگر عام طور پر ان
کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہیں کیوں کہ یہ ان کی زندگی اور
صحت کے لئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتی اور وہ نارمل اور بھر پور زندگی
گزارتے ہیں لیکن جب اس بیماری سے متاثرہ مرد اور عورتوں میں کچھ جوڑوں کی
آپس میں شادی ہوجائے تو پیدا ہونے والے بچے تھیلیسیمیامیجر کے شکار ہوجاتے
ہیں۔اس بیماری میں مبتلا بچے کا رنگ پیلا پڑجاتا ہے ، نیند، بھوک اور
نشوونما میں کمی واقع ہوجاتی ہے ،جگر اور تلی کے بڑھ جانے سے پیٹ پھول جاتا
ہے، عموماً بچے کو بخار اور سینے کی سوزش کی شکایت ہوتی ہے اور ٹانگوں میں
زخموں کی وجہ سے چلنا پھرنا دشوار ہو جاتا ہے۔یہ بیماری بچے کی پیدائش سے
چند ماہ بعد خون کی کمی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے جسے عام طور پر اینمیا
کہتے ہیں۔لہٰذا علامات شروع ہونے کے فوراً بعدکسی ماہر معالج کے زیرنگرانی
معیاری لیبارٹری میں خون ٹیسٹ کروائیں اور بلڈ ٹرانسفیوژن جو فی الوقت فوری
علاج ہے شروع کروایا جائے کیوں کہ تھیلیسیمیامیجر میں مبتلا بچوں کا واحد
علاج باقاعدگی سے انتقال خون ہے جس کی عموماً تین سے چار ہفتے کے بعد ضرورت
ہوتی ہے۔ہر انتقال خون کے بعد کثیر مقدار میں فولاد جسم کے مختلف اعضائے
رئیسہ کو متاثر کرتی ہے جس سے عموماً مریض بچے 15 سے 20 سال کی عمر میں
وفات پا جاتے ہیں۔موجودہ دور میں فولاد کے اخراج کے لئے ڈیسفرال ٹیکہ ایجاد
ہوا ہے جو جسم میں داخل ہوتے ہی فولاد کو اپنے ساتھ ملاکر چھوٹے پیشاب کے
ساتھ خارج کردیتا ہے اور جو بچے انتقال خون اور ڈیسفرال کا باقاعدہ استعمال
کرتے ہیں وہ بالکل عام انسانوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔اس بیماری کا ایک
علاج بون میروٹرانسپلانٹ کا آپریشن ہے ، جس پر پندرہ سے بیس لاکھ کے
اخراجات آتے ہیں۔ مشہور ضرب المثل ہے کہ " پرہیز علاج سے بہتر ہے"۔
تھیلیسیمیامیجر میں مبتلا بچوں کو فولاد سے بھر پور غذا نہیں دینی چاہیئے
مثلا گائے کا گوشت، انڈے کی زردی ، پالک، ٹماٹر ، کلیجی ، سیب اور انار
وغیرہ۔ اس کے علاوہ آئرن ٹانک دوائیں استعمال نہیں کرنی چاہئیں اور دیگر ہر
قسم کی دوائیں اپنے معالج کے مشورے کے بغیر استعمال نہ کریں۔
تھیلیسیمیا سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے کہ شادی سے قبل مرد اور عورت کا مکمل
خون کا معائنہ کیا جائے اور اگر دونوں کو یہ عارضہ لاحق ہے تو ہرگز شادی نہ
کریں اور اگر دونوں میں سے کوئی ایک تھیلیسیمیامائنر کا شکار ہے تو شادی
کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یورپ میں تھیلی سیمیا مائنر میں مبتلا افراد کے
درمیان شادی قانوناً ممنوع ہے۔ہمارے ملک میں وفاق سمیت صوبہ سندھ اور پنجاب
میں اس بیماری سے متعلق قانون سازی کی گئی ہے لیکن بد قسمتی سے ملک میں
سزاؤں کی کمی کی وجہ سے عمل درآمد نہیں ہو پا رہا ہے۔
|