پیرا شوٹرز سے کیا مراد ہے ؟سیاسی اسطلاح میں پیراشوٹرز
ایسے شخص کو کہتے ہیں جو آسمان سے کسی چھتری کے ذریعے ان سیاسی جماعتوں میں
اترتا ہے جن کی مقبولیت بہت ہوتی ہے اور اقتدار ان سے چند قدم کے فاصلے پر
ہوتا ہے آج کے حالات کے مطابق ہمارے ملک میں پیراشوٹرز کی تعداد بڑھ چکی ہے
جب بھی انتخابات کا وقت قریب آتا ہے ایسے پیراشوٹرزنومودار ہوتے ہیں یہ
پیراشوٹرز اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ کی نظریاتی کارکنوں کو روندتے ہوئے آگے
نکل جاتے ہیں ان کے آگے آنے کی وجہ سے نظریاتی کارکنوں پر جو دباؤ پڑتا ہے
اور جس طرح ان کی تذلیل ہوتی ہے یہ وہی جان سکتا ہے جس کے ساتھ یہ رونما
ہوتا ہے ایسے پیراشوٹرز ہر سیاسی جماعت میں آسانی سے داخل ہوتے ہیں لیکن
پاکستان کی سیاست میں ان کا عمل دخل کچھ زیادہ نظر آتا ہے اس کی وجہ کیا ہے
؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر شخص جاننا چاہتا ہے تو جناب یہ پیراشوٹرز
اپنی دولت اور اثر رسوخ کے بل بوتے بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے دائیں
بائیں نظر آتے ہیں ایسے لوگوں کے کوئی نظریات نہیں ہوتے وہ صرف اپنے اور
اپنے آنے والے کل کے لئے سوچتے ہیں
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے کئی پیراشوٹرز آئے اور اپنا کام کر کے
چلتے بنے ایسی ہی ایک مثال شوکت عزیز ، اور معین قریشی جیسے لوگوں کی ہے یہ
الگ بات ہے کہ ایسے پیراشوٹرز کی وجہ سے پاکستان کو جو نقصان ہوا وہ دوسرے
روایتی سیاست دانوں کی وجہ سے سو سالوں میں بھی نا ہو سکتا یہ پیراشوٹرز
ایسے ہوتے ہیں کہ جیسے اقتدار ختم ہو یہ کسی چڑیا کی طرح فور اپنا گھونسلا
تبدیل کرلیتے ہیں یہ سال الیکشن کا سال ہے اس میں کئی پیراشوٹرز ہر حلقے
میں نظر آرہے ہیں یہ پیرا شوٹرز الیکشن سے کچھ دن پہلے ہی مقبول جماعتوں
میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں ظاہر سی بات ہے کسی بھی سیاسی جماعت کو فنڈز
کی ضرورت ہوتی ہے یہ لوگ اتنے بااثر اور مالدار ہوتے ہیں کہ ان جماعتوں کو
فوری طور پر فنڈز دے کر رکنیت حاصل کر لیتے ہیں اور اپنی دولت کے بل پر
فوری طور پر نظریاتی کارکنوں پر حاوی ہوکر اس جماعت کا ٹکٹ لینے میں بھی
کامیاب ہوجاتے ہیں ماضی میں بھی اور اب بھی ہم کئی دفعہ یہ دیکھ چکے ہیں کہ
ایسے پیرا شوٹرز یکدم سے آتے ہیں اور کسی طلسم کی طرح سیاسی جماعتوں کے
قائدین پر چھا جاتے ہیں ایسے میں بیچارا نظریاتی کارکن تو اتنے دباؤ کا
شکار ہوتا ہے کہ اسے سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ کیا کرے اور کیانہ کرئے اس سال
چونکہ الیکشن ہونے والے ہیں اس لئے پیراشوٹرز کی بھرمار ہے کسی بھی جماعت
کے قائد کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایسے لوگوں کو جگہ دینے سے
نظریاتی کارکنوں کی حق تلفی ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کی وجہ سے جماعت کے
نظریات کمزور ہوتے ہیں جب نظریات کمزور ہو تو پھر وہ جماعت قائم نہیں رہ
سکتی خاص طور پر پاکستانی سیاست میں وفاداریاں نہیں بلکہ خوشامد دیکھی جاتی
ہیں ان کے مال و دولت کی وجہ سے سیاسی جماعتیں اپنے وفادار اور نظریاتی
لوگوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں یہ پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا المیہ ہے اور
یہاں کی سیاسی جماعتوں کو اس بارے میں سوچنا چاہیے کہ نظریات کیا ہے اور ان
کی حفاظت کیسے کی جاسکتی ہے ایک نظریاتی کارکن اتنی مشکل اور مسائل کے
باوجود اگر جماعت کے ساتھ وفادار رہتا ہے تو بلا شبہ اس کے پیچھے صرف اس کا
نظریہ اور جماعت کی پالیسیوں سے محبت اور لگاؤ ہوتا ہے چونکہ یہ الیکشن کا
سال ہے اور مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے کارکنوں سے پارٹی ٹکٹ کے لیے
درخواست طلب کر رکھی ہیں اس لئے ان کے نظریاتی کارکنوں کے ساتھ ساتھ بعض
پیراشوٹرز نے بھی درخواستیں دے رکھی ہیں اور نظریاتی کارکنوں کی درخواست کے
ساتھ تو فنڈز کم ہی ہوتے ہیں البتہ پیدا شوٹرز جماعت کو ایک کثیر سرمایہ
بطور پارٹی فنڈز دے دہے ہوتے ہیں
اب یہاں پر دو چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں ایک طرف نظریات اور ایک طرف پیسہ
پاکستان کی بہت ہی کم جماعتیں ہیں جو اپنی نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹ دے کر
انہیں اعلیٰ ایوانوں میں پہنچانے کا ذریعہ بنتی ہیں ان میں خاص طور پر
پیپلز پارٹی کی تعریف کروں گا کہ انھوں نے کئی بار غریب اور محنتی لوگوں کو
ناصرف پر موٹ کیا بلکہ انھیں اعلیٰ ایوانوں میں بھی لایا جس کی ایک مثال
راجہ پرویز اشرف بھی ہیں لیکن دوسری طرف مجھے دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں
بہت ہی کم نظریاتی لوگ اوپر آتے ہیں بلاشبہ پاکستان میں الیکشن لڑنے کے لئے
کروڑوں روپے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لئے ایک مڈل کلاس اور ایک غریب
آدمی کیسے الیکشن لڑ سکتا ہے لیکن ساتھ ہی اگر دیکھا جائے تو یہ نظریاتی
کارکن اپنی جماعت کے لئے کسی سونے چاندی اور ہیرے سے کم نہیں ہوتے کیونکہ
جماعت کے مشکل اوقات میں یہی لوگ جماعت کو لے کر آگے چلتے ہیں پاکستانی
جمہوریت کو اگر مضبوط اور منظم بنانا ہے جمہوریت کواستحکام دینا ہے تو
سیاسی جماعتوں کو یہ قدم اٹھانا ہوگا کہ انہیں اپنی صفوں میں سے ایسے
پیراشوٹرز کو نکال باہر کرنا ہوگا اور صرف نظریاتی لوگوں کو آگے لانا ہوگا
تاکہ نظریاتی لوگ نہ صرف اپنی جماعت بلکہ جمہوریت کے استحکام کے لیے اپنا
کردار ادا کر سکیں نظریاتی لوگ اگرچہ گراس روٹ لیول سے آتے ہیں اس لیے وہ
عام لوگوں کی مجبوریوں کو ان کے مسائل کو اور ہر قسم کے حالات و واقعات کو
بخوبی جانتے ہیں اس لئے ایسے لوگ مسائل کو حل کرنے کے لئے ہر قسم کے
اقدامات کرنے کے قابل ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف پیراشوٹرز ہماری اشرفیہ کاوہ
چہرہ ہے جو اپنے مال وزر کل بل بوتے پر سیاست میں آتے ہیں اور وہ نہ تو
عوام کو جانتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کو اس لئے ایسے لوگ سیاست میں آنے کے
بعد صرف اپنے لئے مال بناتے ہیں ان کے لئے سیاست سیاست میں آنے کا مقصد صرف
اور صرف مال بنانا ہوتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ایسا پیراشوٹ ووٹر جب بھی
سیاست میں آیا اس نے پاکستان کو نقصان ہی پہنچایا پاکستان تحریک انصاف جو
کہ ایک بہت بڑی جماعت بن چکی ہے اور حالیہ کچھ سالوں سے وہ پاکستانی سیاست
میں ایک نمایاں مقام بنا چکی ہے انکے قائدین کے کچھ فیصلوں کی وجہ سے آج
پاکستان میں کرپشن کے خلاف ایک مضبوط آواز بلند ہوچکی ہے لیکن دوسری طرف ہم
یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب پاکستان تحریک انصاف کی ہوا چلی تو بہت سے
پیراشوٹرز نے دیگر جماعتوں کے گھونسلوں سے اڑان بھری آج پاکستان تحریک
انصاف کے نظریاتی کارکن بھی پریشان نظر آتے ہیں کیونکہ یہ نظریاتی کارکن
ایک تو متوسط طبقے سے ہیں دوسرا یہ مالدار پیراشوٹرز کا مقابلہ کرنے کی
پوزیشن میں نہیں شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اب نظریاتی
کارکنوں کو نظر انداز کررہی ہے جو بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے تباہ
کن ثابت ہو سکتا ہے یہ بات پاکستان تحریک انصاف کے کپتان عمران خان کو
سوچنے کی ہے پاکستان تحریک انصاف میں آنے والے زیادہ تر لوگ نظریاتی نہیں
بلکہ پیراشوٹرز ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو
رہے ہیں یہ بات ایک حوالے سے اچھی تو لگتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں
ایلیکٹ ایبل لوگ آرہے ہیں لیکن دوسری طرف نظریاتی کارکنوں میں پائی جانے
والی بے چینی یہ بات ثابت کرتی ہے کہ نظریاتی کارکن پاکستان تحریک انصاف
میں آنے والوں سے بہت خائف نظر آتے ہیں پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت
کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کے نظریاتی کارکنوں کی اب کی بار حق تلفی نہ ہو
ایسے لوگوں کی اگر حق تلفی ہوئی تو یہ جماعت زیادہ عرصہ نہیں نکالے گئی اور
اسکا حساب بھی پاکستان مسلم لیگ ق کے جیسے ہو سکتا ہے لیکن یہ بات بھی سچ
ہیں کہ عمران خان ایک کھلاڑی ہے اور اس نے ہمیشہ چیلنج کیا اور اس چیلنج کو
جیت کر بھی دیکھایا لیکن آج یہ پیغام عمران خان کے لیے بھی ضروری ہے کہ ان
پیراشوٹرزکو اگر نظریاتی لوگوں پر فوقیت دی گئی تو یہ تحریک انصاف کے لئے
زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے |