مفتی محمد زمان سعیدی رضوی
’’شیخ محقق علی الاطلاق‘‘علمی حلقوں میں جب بھی اس اعزازکا تذکرہ ہوتا ہے
توفوراً ذہن میں ایک پُر وقار شخصیت کا تصورآتا ہے جنہیں دنیائے علم وفن
میں تمام نے اپنا شیخ الکل تسلیم کیا ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ
الرحمۃ اپنے فتاوی مبارکہ جب اس ہستی کا تذکرہ فرماتے ہیں تو وہ القاب غور
طلب ہیں اعلیٰ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ ’’فتاوی رضویہ ‘‘جلد ۳۰ میں لکھتے ہیں
’’شیخ شیوخ علماء الہند،عارف باﷲ ،عاشق رسول اﷲ ، برکۃ المصطفی فی ھذہ
الدیارسید ی شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ القوی‘‘دربار قادریہ سے جو
فیضان شیخ محقق علیہ الرحمۃ نے پایا وہ کسی اہل علم سے مخفی نہیں ۔اس بات
کا تذکرہ آپ نے اپنی تصانیف میں متعدد مقامات پر فرمایا ہے ۔شیخ طریقت مرشد
کریم حضرت سید ابو الحسن جمال الدین موسیٰ پاک جیلانی شہید رحمۃ اﷲ علیہ سے
آپ کا قلبی لگاؤ اور عقیدت کا اندازہ آپ کی تحریر جو اخبار الاخیار میں
موجود ہ ہے سے لگایا جاسکتا ہے ۔رات کو عالم خواب میں رسالت مآب صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم سے اشارہ پر بارگاہ قادریت میں حاضر ہوئے اور آپ کے دست حق
پرست پر بیعت فرمائی ۔ آپ کے سوانح نگار لکھتے ہیں شیخ عبد الحق محدث دہلوی
رحمۃ اﷲ علیہ نے اخبار الاخیار میں دو بزرگوں حضرت سیدنا شیخ عبد القادر
جیلانی ،اور حضرت شیخ موسیٰ پاک رحمۃ اﷲ علیہما کے تذکرہ میں انشاء پردازی
اور فصاحت وبلاغت کا پور ا زور صرف کردیا ہے اس تذکرہ کا ایک ایک حرف عقیدت
وارادت میں ڈوبا ہوا ہے ۔ذیل میں معروف افسانہ نگار ،عالم دین ،مدرس ،صحافی
،ماہر اسلامیات وماہر فریدیات مولانا نور احمدفریدی المتوفی ۱۹۹۴ء کی مشہور
تصنیف ’’تاریخ ملتان ‘‘ سے چندسطور پیش خدمت ہیں جواخبار الاخیار کی تحریر
کا خلاصہ ہیں ۔شیخ محقق فرماتے ہیں ’’میں تاج البلاد دہلی میں بیٹھا لوگوں
کو علم حدیث کی تعلیم دے رہا تھا ۔ ہزار تشنگان ِ علوم میرے حلقہ ٔ درس میں
شریک ہوکر قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے دلوں کو گرما رہے
تھے لیکن میرا اپنا دل سیماب وار بے قرار تھا اور میر ی آنکھیں بیضہ ٔ چشم
میں بے تابی سے کسی مردِ کامل کا انتظار کررہی تھیں ۔ اسی سچی تڑپ اور طلب
صادق میں میرے لیل ونہار بسر ہورہے تھے ۔آخر کار میری نیت کا پودا بار آور
ہوا اور میرے سر پر ایک عیسٰی نفس آپہنچا جس کا ہر نفس آسمان معرفت کا
مائدہ نازل اور ہر کرشمہ اواخر واوائل کے لئے عید وسرور تھا ۔موسیٰ مقام
،کہ جس کے حُسن وجمال کی چمک شجر ِ توحید سے ضَوفشاں تھی ،جس قدر مناقب
وکلام حضرت کلیم اﷲ کے حق میں وارد ہوئے ہیں اس پاکبازپر صادق اور اس کے
حال پر موافق ہیں ۔معلوم ہوتا ہے کہ شاہد ِ قدرت نے اس ذات ِ پاک کو قلب ِ
موسی علیہ السلام پر پیدا کیا ہے یہ منقبت افزوں ہے کہ کہ جگر گوشہ محمد
(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم )ہے اگر چہ وہ مقتدائے اولیاء عالی مرتبت رسول اور
پیغمبر ہے ……یہ ذات ایسی حمیدہ صفات ،جانشین حامد اور مقام محمود کی وارث
واقع ہوئی ہے کہ اگر کوئی بڑے سے بڑا ثناخواں ان کے محامد ومحاسن کو شمار
کرنا چاہیے تو گنتے گنتے بے اختیار کہہ اٹھے کہ یہ کام میرے امکان سے باہر
۔الحاصل جو نہی یہ آفتابِ دین ودولت طلوع ہوا میری آنکھیں اس کے نورِجمال
سے روشن ،دل منّور اور جان باغ وبہار ہوگئی ۔آنکھیں چار ہوتے ہی دِل بے
قابو ہوگیا ،پائے عزت کو بوسہ دے کے یوں عرض گزار ہو ا ۔ ’’مدّتے بود کہ
مشتاق لقایت بودم ……لاجرم روئے ترا دیدم وازجا رفتم‘‘ ﴿تاریخ ملتان جلد دوم
صفحہ ۱۰۴،۱۰۵،اخبار الاخیار فارسی صفحہ ۳۱۶،۳۱۷ ﴾ شیخ محقق مزید آگے فرماتے
ہیں ’’وہم در شب اول بشارتی از مقصود یافتم پس عنان اختیار از دست رفت بے
توقف دست بدست سے دادم وبے اختیار درپائے وے فتادم وکان ذلک بکرۃ السّتّ من
شہر شوال ۹۸۵‘‘اور (بارگاہ ِ مرشد میں پہنچنے کے بعد ) پہلی ہی رات میرا
مطلب مجھے حاصل ہوگیا چنانچہ بغیر کسی توقف کے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے
دیااور بے اختیار ان کے قدموں میں گرپڑا یہ واقعہ ۶شوال ۹۸۵ھ کا ہے ۔﴿اخبار
الاخیار فارسی ۳۱۷﴾یہ بارگاہ میں حاضر ہونے کا ابتدائی واقعہ تھا ۔ شیخ
کامل سے فیض یاب ہونے کے بعد اپنے مرشد کا تعارف کن الفاظ میں کرایا ہے
اخبار الاخیار کے فارسی الفاظ پر غور فرمائیں آپ فرماتے ہیں ’’میرا مرکز
ِاعتماد اس صاحب قدم پر ہے جو مالک رقاب اولیاء ہیں اور کوئی راستہ دکھانے
والا ایسا نہیں جو ان کی خدمت میں اپنے سر کے بل نہ جائے اور ان کے قدموں
پر اپنا سر نہ رکھے اور یہ سب کچھ( میرے مرشد کے مقام ومرتبہ میں اضافہ
نہیں کررہا بلکہ )خود ان کے لئے سرفرازی ہے (کیونکہ وہ ایسی بارگاہ میں
حاضر ہیں )جب کہ (میرے شیخ کی شان یہ ہے )’’کسیکہ قدم بر قدم مصطفےٰ بود
بلکہ دم بدم بقدم آورد ودسعادت آن سرست کہ پائمال او گردد‘‘وہ رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے قدم بقدم گامزن رہے بلکہ سرکار صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
ہی کی طرح قدم بہ قدم چلتے رہے یہ سعادت اس کو ملی جس نے آپ کے قدموں پر سر
رکھ دیا ۔﴿اخبار الاخیار فارسی ۳۱۵﴾شیخ محقق رحمۃ اﷲ علیہ اپنے مرشد سید
موسیٰ پاک شہید قدس سرہ کے مناقب بیان کرتے کرتے بے اختیار پکار اٹھتے ہیں
’’حقا بیان شوق بپایاں نمی رسد ……کوتاہ ساز قصہ دوردراز را ‘‘﴿اخبار
الاخیار فارسی ۳۱۷﴾یعنی شیخ کے مناقب کا بیان شوق کبھی انتہاء کو نہیں پہنچ
سکتا ۔شیخ محقق کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت محدث علیہ الرحمۃ کی
خود نوشت سے پتہ چلتا ہے کہ بیعت ہونے کے بعد۹۸۷ھ میں شیخ محقق اپنے
پیرطریقت کی قدمبوسی کے لئے ملتان تشریف لائے اور چار سال تک مرشد کے قدموں
میں رہے ۔﴿تاریخ ملتان دوم ص۱۰۷﴾شیخ محقق علیہ الرحمۃکے قلب ودماغ پر اپنے
مرشد کی محبت کچھ اس طرح رچ بس چکی تھی کہ ہر وقت اپنے مرشد اورمرشد کے وطن
ملتان کا تصور آپ کی آنکھوں کے سامنے رہتا ۔تاریخ ملتان میں مولانا نوراحمد
فریدی رحمہ اﷲ علیہ نے آپ کے ان اشعار کا تذکرہ کیا ہے جو آپ نے باد نسیم
کا قاصد بناتے ہوئے اپنے مرشد کے شہر’’ ملتان ‘‘کے بارے میں کہے آپ فرماتے
ہیں
’’اے باد گزر کن بدیارِ ملتان زیں راہ نشین خاکسارِ ملتان
ایں تحفہ جاں ببربیارِ ملتان یک جان چہ ہزار جاں نثار ِ ملتان
یعنی اے باد نسیم ! اس خاکسار کی طرف سے ملتان شہر کی جانب گزر کر ،اور
میری جان کا یہ تحفہ ملتانی محبوب کی خدمت میں لے جا ،ایک جان کیا چیز ہے
،اگر ہزار جانیں ہوں تو بھی ملتان پر قربان کردوں ۔﴿تاریخ ملتان دوم
ص۱۰۸﴾خلیق احمد نظامی شیخ محقق علیہ الرحمۃ کی قلمی خودنوشت کے حوالے سے
لکھتے ہیں کہ شیخ محقق فرمایا کرتے کہ میرے مرشد شیخ موسیٰ کی صحبت میں بڑی
کشش تھی جو ان کے پاس پہنچ جاتا اُن کا ہی ہو جاتا تھا شیخ عبد الحق نے
لکھا ہے کہ وہ اس حدیث کے مصداق تھے ’’کانت فی عینی موسیٰ ملاحۃ من راہ
احبہ ‘‘موسیٰ کی آنکھوں میں نمکینی تھی جو اُن کو دیکھتا تھا اُن سے محبت
کرتا تھا ۔﴿حیات شیخ عبد الحق محدث دہلوی از خلیق احمد نظامی ص۱۲۸،۱۲۹﴾ان
چند شواہد وواقعات سے شیخ الکل حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ
کی اپنے مرشد سے عقیدت و محبت کس قدر تھے ۔
|