"سیلاب نے کھمبے بہا دیے، انٹرنیٹ بہانے بہا لے گیا!"
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ملک بھر میں حالیہ بارشوں اور سیلاب نے سب کچھ بہا دیا، مگر عوام کے نزدیک اصل قیامت تب آئی جب انٹرنیٹ بہہ گیا۔ جی ہاں! مکانات ڈوبے، سڑکیں ٹوٹیں، کھیت اجڑ گئے، مگر فیس بک اور واٹس ایپ کے بغیر پاکستانی قوم کی زندگی جیسے رک سی گئی۔
نیٹ بلاکس نامی ایک عالمی ادارے نے رپورٹ جاری کی کہ پاکستان میں انٹرنیٹ سروس بیس فیصد کم ہو گئی ہے۔ اب آپ سوچیں کہ یہ بیس فیصد کیا ہوتا ہے؟ تو جناب، یہ بالکل ایسے ہے جیسے کسی کے گھر میں پانچ روٹیاں پکتی تھیں اور اب صرف چار رہ گئی ہیں۔ بندہ زندہ تو رہ سکتا ہے مگر دل جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔
پی ٹی سی ایل کے ترجمان نے معذرت کے ساتھ کہا: "ہماری ٹیمیں دن رات محنت کر رہی ہیں، آپ فکر نہ کریں۔" یہ سن کر عوام نے ایک ہی سوال پوچھا: "بھائی، تم دن رات کب سے محنت کر رہے ہو؟ کیونکہ ہماری یادداشت میں تو تم ہر سال یہی بیان جاری کرتے ہو!"
پی ٹی اے والوں نے مزید کمال دکھایا۔ فرمایا: "ٹاورز میں ڈیزل ڈالنا مشکل ہے، بارہ گھنٹے جنریٹرز چلانا ممکن نہیں۔" عوام نے پوچھا: "تو پھر بھائی، شادی بیاہ والے ڈی جے کو بلا لو، وہ بارہ کیا چوبیس گھنٹے بجلی نکال لیتا ہے، ساتھ بونگے گانے بھی مفت میں مل جائیں گے۔"دوسری طرف کراچی کلفٹن کے ساحل پر موجود زیرِ سمندر کیبل کے لینڈنگ اسٹیشن پر مسئلہ نکلا۔ اب پاکستانی عوام حیران: "بھائی، یہ لینڈنگ اسٹیشن ہوتا کہاں ہے؟ کیا یہ بندرگاہ ہے یا بس اسٹینڈ؟ اور اگر وہاں خرابی ہے تو فیس بک کیوں نہیں کھل رہا؟"
وزارت آئی ٹی کے اہلکاروں نے بڑے سکون سے بتایا کہ کوئی سب میرین کیبل متاثر نہیں، بس لینڈنگ اسٹیشن یا مین ہب میں تکنیکی مسئلہ ہے۔ عوام نے جواب دیا: "یعنی کےبل محفوظ ہے، مگر انٹرنیٹ پھر بھی بند ہے۔ مطلب روٹی تنور میں ہے لیکن کھانے کو کچھ نہیں!"
اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب فیس بک اور واٹس ایپ بند ہوئے۔ پورے ملک میں دلہنیں اپنے ولیمے کے فوٹوز اپلوڈ نہ کر سکیں، دوست احباب میمز نہ بھیج سکے، اور ٹک ٹاکرز نئے ڈانس اپلوڈ کرنے سے محروم رہ گئے۔ کچھ نوجوانوں نے تو گھر کے صحن میں بورڈ لگا دیا: "نیٹ نہیں ہے، ہم ملنے کے لیے دستیاب ہیں۔" والدین برسوں بعد اپنے بچوں کے اصل چہرے دیکھ کر چونک گئے۔
وفاقی وزیر آئی ٹی شزا فاطمہ نے بیان دیا کہ "نیٹ ورک پر دباو¿ ہے کیونکہ سب لوگ ایک ساتھ کالیں کر رہے ہیں۔" عوام نے کہا: "باجی، ہمیں تو لگتا ہے پورا ملک ایک ہی وقت پر اپنے دوست کو یہی کال کر رہا ہے: بھائی، نیٹ چل رہا ہے؟"سوشل میڈیا کے شوقین پاکستانیوں نے اس دوران اپنے مسائل حل کرنے کے نت نئے طریقے ایجاد کیے۔ ایک صاحب نے ٹی وی انٹینا پر لال کپڑا باندھ کر کہا: "یہ ٹک ٹاک کے لیے سگنل پکڑ رہا ہے۔" دوسرے نے موبائل کو فریج میں رکھ کر دعویٰ کیا کہ "یہاں نیٹ تھوڑا بہتر آ رہا ہے۔"
کچھ نوجوانوں نے تو ریڑھی لگا لی: "ہمارے پاس یوٹیوب کے پرانے ڈاو¿ن لوڈ شدہ ڈرامے ہیں، صرف پچاس روپے فی قسط۔"ایسی نازک صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر وہ نوجوان ہوئے جو آن لائن گیم کھیلتے ہیں۔ جب انہیں پتہ چلا کہ سرور ڈاو¿ن ہے، تو انہوں نے گھر کے چھوٹے کزن کو پکڑ کر پب جی کی بندوق سے بھاگنے کی پریکٹس شروع کر دی۔
مختصر یہ کہ سیلاب نے چاہے سڑکیں اور پل بہا دیے ہوں، مگر پاکستانی عوام کے نزدیک اصل نقصان "نیٹ ورک" کی تباہی ہے۔ حکومت چاہے اربوں روپے کے نقصانات کا رونا روئے، عوام کی ایک ہی فریاد ہے:"بجلی آئے نہ آئے، روٹی ملے نہ ملے، بس وائی فائی واپس دے دو!"
|