ادب کی تنہائی


لفظوں کے ہجوم میں ادب کی تنہائی!
تحریر! بابرالیاس

چاروں طرف لفظوں کے ہجوم میں ادب کی تنہائی ماتم کرتی دکھائی دیتی ہے ،
شہر کی گلیوں میں جب محفلیں سجتی ہیں، نعرے بلند ہوتے ہیں، تنظیموں کے بورڈ لگتے ہیں اور مشاعروں میں کرسیوں کی قطاریں بھرتی ہیں تو بظاہر یوں لگتا ہے کہ ادب اپنی پوری شان کے ساتھ موجود ہے۔ مگر ذرا قریب جا کر دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ادب کی روح کہیں کھو گئی ہے، لفظ تو ہیں مگر ان میں حرارت نہیں، لکھاری تو ہیں مگر ان کے قلم میں روشنی نہیں۔

ادب دراصل چراغ ہے جو اندھیروں کو کم کرتا ہے، مگر آج یہ چراغ صرف دھواں دینے لگا ہے۔
بے شمار تنظیمیں ہیں، مگر اکثر کا کام محض تصویریں کھینچوانا، شاباشی لینا اور تختیوں کا تبادلہ کرنا ہے۔ اپنی پسند اور برسوں میں لائن میں کھڑے لوگوں کو ایوارڈ کی تقسیم ہے ،اس پر حیرت یہ بھی ہے کہ برسوں اس لائن میں کھڑے رہنے اور تعلق کی وجہ سے ایوارڈ وصول کرنے کے بعد بھی ان کا پیٹ بھرتا نہیں بلکہ وہ مزید کے لیے کسی معصوم بچے کی طرح دوبارہ لائن میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں جیسے کسی گلی کے کونے پر کوئی اللہ کے نام پر ٹافیاں تقسیم کر رہا ہوں ،نئے لکھنے والوں کو تھپکی دینا گناہ سمجھا جانے لگا ہے ،بس قریب المرگ بزرگوں کو سر پر بیٹھا کر اور ان کی شان میں جھوٹ کے جملے بول کر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہی ادب کی خدمت ہے ،
یہاں لفظوں کی محفل میں انا کی سرگوشیاں گونجتی ہیں اور سچائی دب جاتی ہے۔

لکھاری کی گنتی کرنا مشکل ہے ،لیکن یہ طے ہے کہ بیشتر لکھاریوں کے قلم تالیوں اور واہ واہ کے اسیر ہیں۔
وہ لکھتے ہیں مگر دل کی زمین پر نہیں، سماج کے آئینے میں نہیں۔۔۔بلکہ صرف کاغذ پر لکھتے ہیں اور پھر وہی لفظ بے معنی ہو کر بکھر جاتے ہیں۔
اسی لیے معاشرے میں ادب کے باوجود بے ادبی کا شور بڑھ رہا ہے۔ کتاب سے دوری، مطالعے کی کمی اور سوشل میڈیا کی سطحی دوڑ نے ادب کو کھوکھلا کر دیا ہے۔
اب الفاظ کی کثرت ہے مگر تہذیب کی قلت معاشرے کا مقدر ہے ،
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ادب کوئی تقریب نہیں ہے اور نہ ہی یہ تنظیمی اجلاسوں کا ایجنڈا ہے۔
ادب تو وہ نرم ہوا ہے جو انسان کو انسانیت کی خوشبو دیتی ہے، وہ آئینہ ہے جو ہمیں اپنا اصل چہرہ دکھاتا ہے۔ اگر یہ خوشبو اور یہ آئینہ زندگی سے کٹ جائے تو پھر تنظیمیں لاکھ ہوں، لکھاری بے شمار ہوں، ادب صرف لفظ رہ جاتا ہے اور معاشرہ بے ادبی کی دھول میں ڈوب جاتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ادب کو دوبارہ دلوں کی زمین پر اتاریں، اسے محفل کی روشنی سے زیادہ کردار کی روشنی بنائیں۔
کیونکہ جب ادب اپنی اصل روح کے ساتھ لوٹ آئے گا تو بے ادبی خود بخود رُخصت ہو جائے گی۔


 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 924 Articles with 681421 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More