ضلع چکوال میں سب سے زیادہ ذاتی ووٹ بنک رکھنے والے سابق
ضلع ناظم سردار غلام عباس جب سے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے ہیں تب سے
’’اینٹی سردار‘‘ قوتیں ان کو تہہ دل سے نہیں قبول کر رہیں، خصوصاً چکوال کے
کچھ پارلیمنٹرین بھی ایسے ہیں جو کہ ان کے وجود سے خوفزدہ ہیں۔ جن کو ان کا
وجود اپنی غیر موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ جب سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں
محمد شہباز شریف نے چکوال کا دورہ کیا ہے تب سے سردار غلام عباس کی غیر
موجودگی نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے۔ اگرچہ اس کی وضاحت خود سردار
غلام عباس نے کر دی ہے مگر ’’افواہ ساز فیکٹریاں‘‘ رکنے کا نام نہیں لے
رہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ضلع بھر کی سب سے اہم خبر ہی سردار غلام
عباس بن گئے ہوں۔ گذشتہ کل مجھے سردار غلام عباس نے خود فون کال کی، میں
اُن کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ وہ بندۂ ناچیز کو اتنی اہمیت دیتے ہیں۔
انہوں نے مجھے حوالہ دیا کہ میں اُن کا سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والا
بیانیہ دیکھ لوں۔ اگرچہ مجھے اُس کو دیکھنے کا وقت نہیں ملا لیکن مجھے
سردار غلام عباس کی باتوں سے ایسے محسوس ہوا جیسے وہ شدید مایوسی کی کیفیت
میں ہوں۔ ضلع بھر میں ہر طرف ایک ہی خبر گردش کر رہی ہے کہ سردار غلام عباس
مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جا رہے ہیں۔ اُن کی اندرون خانہ
ملاقاتیں راجہ یاسر سرفراز سے ہو چکی ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمنٹرین
کے رویے سے سخت دلبرداشتہ ہیں۔ انہوں نے چند دن پہلے اپنے اخباری بیان میں
بھی مسلم لیگ (ن) کے پارلیمنٹرین کو دعوت عام دی تھی کہ وہ آئیں اور اُن کے
ساتھ مذاکرات کر لیں۔ جب سردار غلام عباس مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے تھے
تو میں نے اُس وقت چند کالمز اُن کی شخصیت پر لکھے تھے وہ آج بھی ریکارڈ کا
حصہ ہیں۔ میرا ایک کالم تھا ’’سردار غلام عباس کے غلط سیاسی فیصلے‘‘۔ ایک
اور کالم تھا ’’یس عباس، نو عباس‘‘۔ مزید ایک کالم میں نے اُس وقت لکھا جب
سردار غلام عباس مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے تھے اس کا عنوان تھا ’’سردار
غلام عباس اب رک جانا‘‘۔ اگر ان تمام کالمز کو بغور پڑھا جائے تو میری لکھی
ہوئی تمام باتیں سچ ثابت ہوئیں۔ جن جن چیلنجز کا میں نے ذکر کیا تھا وہی
سردار غلام عباس کو آج درپیش ہیں۔
قارئین محترم! سردار غلام عباس اب کیا کریں گے۔ اب ان کے پاس تاش کے کون
کون سے پتے باقی ہیں۔ وہ آج تک جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اور مجھ سے ٹیلی
فونک گفتگو تک وہ مسلم لیگ (ن) کا حصہ ہیں۔ انہوں نے دو ضمنی الیکشن ایک
تحصیل تلہ گنگ سے ملک شہریار اعوان اور تحصیل چکوال میں چوہدری سلطان حیدر
کا اس طرح لڑے ہیں جیسے ان حلقوں سے سردار آفتاب اکبر کھڑے ہوں۔ انہوں نے
مسلم لیگ (ن) کے لئے دن رات ایک کیا۔ اگر پھر بھی کسی کو ان کی نیت پر شک
ہے تو یہ اُن کی منفی سوچ کا فتور ہو سکتا ہے۔ سردار غلام عباس سے آپ یہ
توقع کریں کہ وہ ٹکٹ مانگ کر لیں گے تو اس بات سے میں اتفاق نہیں کروں گا۔
مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ دینے کا ایک پارلیمانی نظام ہے۔ وہ پہلے ہر حلقے کا
غیر جانبدار سروے کمپنیوں سے سروے کراتے ہیں پھر ٹکٹ جاری کرتے ہیں۔ اگر
سردار غلام عباس کو مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ دیا جاتا ہے اور ٹکٹ بھی حلقہ 64
کا ہونا چاہئے۔ میرے خیال میں وہ تلہ گنگ کے حلقہ 65 میں زیادہ دلچسپی نہیں
رکھتے۔ اگر مسلم لیگ (ن) اُن کو ٹکٹ نہیں دیتی پھر اُن کے پاس دُوسرا آپشن
پی ٹی آئی کا ہے، اس میں جانے کا کافی راستہ ہموار ہے۔ وہاں ان کے راستے کی
صرف ایک رکاوٹ ہے۔ اگر چوہدری ایاز امیر (جو کہ سردار غلام عباس کے سب سے
بڑے ناقد ہیں) کو ٹکٹ مل جاتا ہے یا پھر چوہدری ایاز امیر پی ٹی آئی میں
شمولیت اختیار کر لیتے ہیں تو پھر سردار غلام عباس کے لئے وہاں کوئی جگہ
نہیں ہو گی۔ چونکہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ سردار غلام
عباس کے پاس تیسرا آپشن آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا ہے۔ میرے خیال میں
اگر مسلم لیگ (ن) اُن کو ٹکٹ نہیں دیتی پھر سردار غلام عباس کو آزاد حیثیت
میں الیکشن لڑنا چاہئے چونکہ بار بار پارٹیاں بدلنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس طرح
اُن کی شخصیت متاثر ہو رہی ہے اور اگر آزاد حیثیت میں وہ الیکشن میں حصہ
لیتے ہیں تو وہ مخالفین کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں کیونکہ حلقے کا ووٹ تقسیم
ہو جائے گا۔ مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور متفرق ووٹ خصوصاً تحریک لبیک میں
ووٹ تقسیم ہو جائے گا۔ ایسی صورت حال میں سردار غلام عباس کا ذاتی ووٹ بنک
بہت اہمیت اختیار کرے گا اور پھر سردار غلام عباس کو چاہئے کہ وہ تمام چھ
سیٹوں پر اپنا پینل کھڑا کریں۔ یقینا آنے والے دن سردار غلام عباس کے سیاسی
فیصلوں کے حوالے سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ بات اُن کے لئے انتہائی
حوصلہ افزا ہے کہ اُن کے چاہنے والے آج بھی اُن کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے
ہیں۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭٭٭
|