چنیوٹ : مندر کی خستہ حال عمارت میں قائم سکول

نیوٹ کے محلہ لاہوری گیٹ میں واقع گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول محکمہ اوقاف کی ملکیت ایک پرانے مندر میں قائم ہے۔یہ مندر قیام پاکستان سے قبل 1930ء کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا جسے کرتاری لال یا کلاں مندر کہا جاتا ہے جبکہ یہاں سے گزرنے والی سڑک کو بھی مندر روڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔مندر کی عمارت تین منزلوں پر مشتمل ہے جس میں سب سے نیچے والی منزل میں سکول جبکہ بیرونی طرف 11 دکانیں اور ایک گودام موجود ہے جبکہ دوسری منزل کو خستہ حالی کے باعث بند کر دیا گیا ہے۔اس عمارت کی چھت پر خستہ حال مندر کے کلس اور چوبرجیوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔

چنیوٹ کے محلہ لاہوری گیٹ میں واقع گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول محکمہ اوقاف کی ملکیت ایک پرانے مندر میں قائم ہے۔یہ مندر قیام پاکستان سے قبل 1930ء کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا جسے کرتاری لال یا کلاں مندر کہا جاتا ہے جبکہ یہاں سے گزرنے والی سڑک کو بھی مندر روڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔مندر کی عمارت تین منزلوں پر مشتمل ہے جس میں سب سے نیچے والی منزل میں سکول جبکہ بیرونی طرف 11 دکانیں اور ایک گودام موجود ہے جبکہ دوسری منزل کو خستہ حالی کے باعث بند کر دیا گیا ہے۔اس عمارت کی چھت پر خستہ حال مندر کے کلس اور چوبرجیوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔

1947ء میں جب ہندوستان اور پاکستان کے نام سے دو نئے ملک وجود میں آئے تو یہ مندر تعمیر کے آخری مراحل میں تھا تاہم ہندو آبادی کی بڑی تعداد ہجرت کر کے بھارت چلی گئی جس پر اسے محکمہ اوقاف کی تحویل میں دے دیا گیا۔قیام پاکستان کے بعد کبھی کبھار چنیوٹ کے قدیم ہندو باشندے اس کی زیارت کرنے کے لئے یہاں آ جاتے تھے لیکن دسمبر 1992ء میں جب بھارت میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو اس کے بعد ہندو زائرین کی آمد کا سلسلہ بند ہو گیا۔اس موقع پر یہاں بھی لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے مندر کو مسمار کرنے کی کوشش کی جو انتظامیہ کی مداخلت کے باعث کامیاب نہ ہو سکی۔

قیام پاکستان کے بعد پہلے اس عمارت میں سکول اور پھر خواتین کو ہنرمند بنانے والا ادارہ کام کرتا رہا جبکہ 1997ء میں میونسپل کارپوریشن نے اس جگہ باقاعدہ طور پر پرائمری سکول قائم کر دیا۔یہاں اس وقت 200 سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں لیکن عمارت کی خستہ حالی کے سبب ہر وقت کسی حادثے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔اس سکول میں زیر تعلیم پانچویں جماعت کے طالب علم محمد زید نے بتایا کہ بارش کے دوران سکول کی انتظامیہ پوری عمارت خالی کروا کے تمام بچوں کو ایک کمرے میں جمع کر لیتی ہے اور بارش کے اختتام تک تمام طلبہ وہیں بیٹھے رہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں سکول جانے سے ڈر لگتا ہے تاہم والدین کے زور دینے پر وہ یہیں تعلیم جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بارش کے موسم میں بہت سے طلبہ سکول ہی نہیں آتے اور جو آ جائیں انہیں پڑھایا نہیں جاتا ہے۔ میرا تو یہاں آخری سال ہے اور جنوری 2018ء کے بعد میری اس بھوت بنگلے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ جائے گی۔ مندر روڈ کے رہائشی میاں دلدار احمد کے دو بچے بھی اسی سکول میں زیر تعلیم ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ عمارت اتنی خستہ حال ہو چکی ہے کہ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کچھ ہو نہ جائے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ محکمہ تعلیم اس عمارت کی تعمیر ومرمت کروائے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہیں تو سکول کسی بہتر اور نئی عمارت میں منتقل کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ علاقے کی گلیاں اتنی چھوٹی ہیں کہ کسی حادثے کی صورت میں یہاں امدادی سرگرمیاں بھی ممکن نہیں ہو سکیں گی۔

دلدار کے مطابق محکمہ اوقاف والے کرائے کی مد میں ماہانہ ہزاروں روپے وصول کرتے ہیں لیکن انہیں کبھی اس عمارت کی حالت بہتر بنانے کا خیال نہیں آیا۔سکول کی ہیڈ مسٹریس بشریٰ نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ محکمے سے ملنے والا بجٹ محدود ہوتا ہے پھر بھی ہم نے یہاں مرمت کا کافی کام کروایا ہے۔ اس کے علاوہ ریسکیو 1122 سے بھی عمارت کا معائنہ کروایا جا چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خود بھی اس عمارت کی حالت سے مطمئن نہیں ہیں لیکن سکول کی منتقلی کا فیصلہ کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے۔ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد لیاقت علی کہتے ہیں کہ یہ عمارت محکمہ اوقاف کی ملکیت ہے اور محکمہ تعلیم یہاں کرایہ دار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی ایسی عمارت کی تعمیر پر فنڈز خرچ نہیں کر سکتے ہیں جو محکمے کی ملکیت نہ ہو۔انہوں نے بتایا کہ ضلع بھر میں 67 سکولوں کی عمارتوں کو خطرناک قرار دے کر مسمار کیا جا چکا ہے اور ان کی جگہ پر نئی عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔لاہوری گیٹ والے سکول کی عمارت کی خستہ حالی میرے علم میں ہے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس سکول کو جلد سے جلد کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے۔

ملک میں کرپشن کی وجہ سے خزانے خالی پڑے ہیں اور سرکاری سطح پر تعلیم ہر بچے کو دینا بہت مشکل ہے جس کے لیے شعبہ تعلیم میں پرائیویٹ سکولز کا نظام بھی لایا گیا اب بڑی تعداد میں بچے سرکاری کی بجائے پرائیویٹ اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں سرکاری سطح پر قائم سکولز میں سہولیات کے فقدان، استاتذہ کی عدم توجہی اور دیگر عوامل کی وجہ سے زیادہ تر والدین پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ترجیع دیتے ہیں۔ موجودہ دور میں تقریباً اکثریت پرائیویٹ سکولز چلانے والے کاروباری سوچ کے حامل افراد ہیں جو ان اداروں کو ایک دوکان کی طرح چلاتے ہیں اسی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر سے والدین کا اعتبار اٹھتا جارہا ہے۔

پاکستان اس وقت ڈھائی لاکھ سکول ہیں جن میں سے بچاس ہزار ہائیر سیکنڈری سکول ہیں۔ جبکہ ملک میں یونیورسٹیوں کی 188 ہے اور پندرہ سال قبل یہ تعداد صرف 59 تھی جبکہ حکومت سطح پر کوشش کی جاری ہے 2025 ان تعداد 300 تک ہونے کے امکانات ہیں۔ یونیورسٹیوں میں اس وقت انرولمنٹ 9 فیصد ہے جوکبھی 2.6 فیصد تھی۔ اگر یونیورسٹوں کی تعداد بڑھانے میں ترکی اس وقت ہم سے زیادہ آگے ہے طیعب اردون سے پہلے ترکی میں یونیورسٹوں کی تعداد 98 تھی جبکہ اب یہ تعداد 190 تک پہنچ چکی ہے اور ان کا تعلیمی بجٹ 7.5 ارب ویرا سے بڑھا کر 35 ارب ویرا کر دیا گیا، جبکہ ترکی میں سکول سے لے کر یونیورسٹی تک مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے 2023 تک ترکی میں 3 لاکھ محقیق تیار کیے جائیں گے۔ دوسری طرف ہمارے ہاں خواندگی میں کمی ہورہی ہے وہیں یونیورسٹیوں میں بھی معیاری تعلیمی کی کمی واقع ہورہی ہے یونیورسٹیوں آئے روز جھگڑے فساد اور منشیات کے استعمال کی وجہ سے یونیورسٹی کے طلباء کی کارکردگی بھی کم ہورہی ہے۔

معیار تعلیم کی گراوٹ کا اندازہ اس سے لگا جا سکتا ہے کہ ملک میں ہونے والے اعلی سول امتحان ، سی ایس ایس میں پاس ہونے والوں کی شرح میں مسلسل کمی ہورہی ہے امیدوار امتحان بڑی تعداد میں فیل ہو تے ہیں جس کی وجہ سے ہر سال بہت ساری آسامیاں خالی رہے جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال ساڑھے چار لاکھ گریجویٹس ملک بھر میں اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں اس تناظر میں2016 میں سی ایس ایس کے امتحانات کے تحت199 اسامیوں کے لئے 9643 امیدواروں نے مقابلے کے امتحان میں شرکت کی جس میں سے صرف202 امیدواروں کا کامیاب ہوئے جبکہ 1990 میں سی ایس ایس کے امتحان میں 126 اسامیوں کے لئے 10ہزار امیدواروں میں سے ایک ہزار کامیاب ہوئے تھے۔

اگر ملک کو ترقی کی شاہرا پر لے آنا ہے تو شعبہ تعلیمی پر توجہ دینی ہوگی ، جس کے بجٹ میں خاطر خواہ آضافے کرنا ہوگا ، ساتھ ہی ملک میں یکساں تعلیمی نظام رائج کیا جانا چاہیے تاکہ قومی سطح کی تقسیم سوچ کو مزید تقسیم ہونے سے بچایا جا سکے۔ اور قوم کو ایک قوم بنایا جائے -

Adnan Ahmad jan
About the Author: Adnan Ahmad jan Read More Articles by Adnan Ahmad jan: 2 Articles with 1550 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.