تکمیلِ تعلیم اور بعد کا مرحلہ

آج کی گفتگو ان طالب علم بھائیوں کے نام ہے،جومدارس وجامعات اورکالجز ویونیورسٹیز میں تکمیل کے مرحلہ میں ہیں۔

ہم میں سے بہت سے ساتھی اپنے طویل دورانیئہ تعلیم کے بعد بھی ون پؤانٹ پے رکے ہوئے ہوں گے۔کچھ کوحالات کی سنگینی کا شکوہ ہوگا۔بعض اپنے ضمیر کی عدالت میں مجرم ہوں گے۔کئیؤں کواب بھی فرصتِ احتساب نہیں۔کچھ ہیں جوبہت کچھ کرنے کاعزم رکھتے ھیں،لیکن مستقبل کے بھیانک خواب انہیں ہراساں کئے ہوئے ہیں۔آئیے آج کچھ تبادلئہ خیال کرتے ہیں۔

آج ہم جس امت کے فرد ہیں، اسے کسی درجہ میں ہم پر ناز ہے،قوم کی کچھ امیدیں ہم سے جڑی ہوئی ہیں۔کچھ ہمارے فرائض ہیں ۔ہم دنیا وما فیھا سے بے نیاز ہوکر نہیں پَل رہے۔ملک و ملت کا خطیر سرمایہ ہم پر کھپ رہا ہے۔صورتحال یہ ہے اس وقت امت مسلمہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ہر خطہ زمین میں مسلمان وہ واحد قوم ہیں جو غیروں کے ہاتھوں بازیچہ اطفال بنے ہوۓ ہیں۔اس نازک وقت میں آہنی جگر اور فولادی جسم والے افراد کی ضرورت ہے ۔

ملکی منظر نامہ سے عالمی تناظر تک ہماری صفوں کی قیادت چند بے ضمیروں کے ہاتھ میں ہے ۔الا ما شاء اللہ۔ہر شعبہ میں ہماری پستی اور ناکامی عیاں ہے ،جبکہ کسی قوم کے کایا پلٹ اس کے جوان ہوتے ہیں۔جوان ہی ہمیشہ تاریخ رقم کرتے ہیں ۔آج ہمیں ضرورت مثبت اقدام اور طویل منصوبہ بندی کی ہے۔وقتی طیش اور چند ساعتی غصہ کبھی ہماری تقدیر نہیں بدل سکتا۔ہماری بے پناہ صلاحیتیں اس لیے برباد ہورہی ہیں کہ ہمارا کوئی ویثرن واضح نہیں۔ہماری ترجیحات اچھی گاڑی،عمدہ بنگلہ اور بہترین جاب بن چکی ہیں...آہ ! ہمارا یہ رویہ ہی ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کافی ہے۔ہم انہی نیرنگیوں اور خواب و خیال میں الجھے رہے تو کبھی سر خرو نہ ہوں گے۔ معرکہ گرم ہے،وقت تھوڑا ہے اور منزل دور...

یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے ۔اللہ تعالٰی نے آپ کے اندر ضرور کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہے۔اپنے من میں تو ڈوبیے،غور تو کیجئے... ہزاروں سراغِ راہ ملیں گے ۔یاد رہے آپ زندگی کی راہ چلتے مسافر ہیں۔جو سرِ راہ سو جائے،غافل ہوجائے،گردِ راہ میں بھی اس کا نشان نہیں ملتا۔آپ حدیث سے وابستہ ہیں تو محدثین کی زندگیاں کھنگالیئے،تفسیر میں ہیں تو مفسرین کی آب بیتیاں پڑھیئے، فقہ سے لگاٶ ہے تو فقہاء کی زندگی کے پرت الٹیے،سیاست سے ہیں تو لیڈروں کی سوانح دیکھیئے...آپ دیکھیں گے ماٶں نے انہیں صرف عام انسان جنا تھا ، مستقبل کا دیا انہوں نے خود اپنی انتھک کوششوں اور خونِ جگر سے روشن کیا۔

آپ ہر دن اپنا عزم دہرائیے،محنت بڑھائیے۔اس بات کو بھول جائیے کل کیا ہوگا۔جو مخلوقِ خدا کا مستقبل سنوارنے کا خواہاں ہو خدا اس کا مستقبل ضرور چمکا دیتا ہے۔ہمیں یہ کیسے بھول جاتا ہے کہ بحیثیتِ قوم ہم ہر شعبہ کی صف اول کے سپاہی تھے۔آج کیسے اور کیونکر آخری صفوں میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں؟؟ ہمیں اپنی کھوئی ہوئ عظمتِ رفتہ پھر سے بحال کرانے کے لیے کئی سارے دریا عبور کرنے ہوں گے،لق و دق صحرا پاٹنے ہوں گے ،زمانہ کی جل تھل سے گزرنا ہوگااور پہاڑوں کی کوہِ پیمائی کرنی ہوگی۔آج ہم ایک جذبہ،نظریہ اور کڑہن سے اپنے اپنے شعبہ میں لگ جائیں تو پچاس سوسال بعد ضرور ہماری محنت رنگ لاۓ گی۔کیا ہم اپنی زندگی کھپاکر امتِ مرحومہ میں پھرسے حیاتِ نوپیدا کرنے کا عزم رکھتے ہیں؟؟

یہ فیصلہ کن مرحلہ ہے۔یہاں آپ کو فیصلہ کرنا ہے۔آپ استخارہ و استشارہ سے ایک میدان چنیئے۔یہ رنگارنگی اور فتنہ سامانی کا زمانہ ہے۔اپنی ساری توجہ کو ایک نکتہ پر مرکوز کرنا جوکھوں کا کام ہے۔تاہم آپ کو یہ کام کرنا ناگزیر ہے۔یہاں سے فرصت پاتے ساتھ ہی اپنے مطلوبہ شعبہ کے متخصصین اور ماہرین سے جڑئیے۔آپ کا میدان ،تفسیر،حدیث،فقہ،قانون،فلسفہ،سائنس،تعلیم،اکانومی،سیاست اوردعوت و ابلاغ...کچھ بھی ہوسکتا ہے۔اب آپ کواپنے ہدف تک پہنچنے کی ہر امکانی صورت اپنانی ہوگی۔اپنے آپ کو اور اپنے اوقات کو منظم کرنا ہوگا۔انتھک محنت سے اپنی منزلوں تک پہنچنا ہی مردانِ کار کا شیوہ ہے۔تھامس ایلوا ایڈیسن نے کہا تھا: ”ترقی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا“۔ آپ ایک جست میں نہیں ایک وقت کے بعد کچھ بن پائیں گے.....آخر:
معجزہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود

عمران کلیم
About the Author: عمران کلیم Read More Articles by عمران کلیم: 2 Articles with 1362 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.