قومی سلامتی اورمیاں محمد نواز شریف کا نیا بیانیہ

پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے پاکستان کو ممبئی اور بھارتی پارلیمنٹ پر حملوں میں ملوث ہونے کا ا عتراف کر لیا یہ اعتراف روزنامہ ڈان میں شائع ہوا ہے سابق وزیراعظم جو پانامہ کیس کی وجہ سے کسی بھی سرکاری عہدے کیلئے ساری عمر کے لئے نااہل قرار دیئے جا چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹر یعنی غیر ریاستی عناصر ممبئی 2008 کے حملوں میں ملوث تھے جس میں 150لوگ ہلاک ہوئے تھے میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی برادری میں اپنے منفی کرتوتوں کی وجہ سے اکیلا ہو چکا ہے اور اب اس کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں موصوف کے اس بیان سے بھارتی انتہاپسند حکومت خوشی سے با غ باغ ہوچکی ہے اس بیان کو لیتے ہوئے بین الاقومی دنیا میں پاکستان کے خلاف لابنگ کا آغاز کردیا ہے ایوان بالا میں ہوئے اجلاس موصوف کے بیان کی شدید مذمت کی گئی اوراسے قومی سلامت کے خلاف قرار دیا گیا بعض تجزیہ نگا ر اس بیانیہ کو انٹرنیشنل سازش سے تعبیر کررہے ہیں دوسری جانب مسلم لیگ ن کا اعتدال پسند طبقہ بھی اس بیانیہ سے متعلق مایوسی کا شکار ہے اس ماقبل موصوف کہہ چکے ہیں کہ ہمارا الیکشن میں مقابلہ نہ عمران خاں سے ہے نہ ہی زرداری سے بلکہ ہمارا مقابلہ نظر نہ آنے والی قوتوں سے ہے عامتہ الناس خلائی مخلوق کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں یقینا اہل علم میاں صاحب کے اس بیانیہ کو کافی حد تک سمجھ گئے ہیں چاہتا ہوں اس بیانیہ کے کچھ پہلو رقم کروں اور ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کا سابقہ نظریہ اورموجودہ نظریہ دونوں پر کچھ گزارشات پیش کروں تاکہ میاں صاحب کے موجودہ نظریہ کو سمجھنے میں آسانی ہوانٹرنیشنل سیکنڈل پانامہ لیکس کے ظہور کے فوراً بعد مسلم لیگ ن بالخصوص میاں محمد نواز شریف مسائل کے بھنور میں پھنستے چلے گئے وکلاء مشیران وزراء کی تمام ترتدبیریں الٹ ہوتی گئیں چوہدری نثار اس کا ذمہ وار خوشامدی ٹولے کو سمجھتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں میاں محمد نواز شریف کو نااہل قرار دیا اس غیر ممکنہ نااہلی نے میاں صاحب کو نظریاتی سیاست دان بنادیا بادی النظر میں اس قبل وہ غیرنظریاتی سیاست دان تھے مثلاً مسلم لیگ نواز کو دائیں بازو کی جماعت خیال کیا جاتا تھا جبکہ پی پی پی اورتحریک انصاف کو بائیں بازو کی جماعت تصور کیاجاتا ہے سادہ الفاظ میں دائیں بازو کی جماعتیں اسلام پسند اور بائیں بازو کی جماعتوں کو سیکولر سمجھا جاتا ہے 2013کے الیکشن میں فتح اورپھر وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد مسلم لیگ ن نے اپنے نظریے سے انحراف کیا اور وطن عزیز میں سیکولرازم کو فروغ دیا پاکستان 22کروڑ آبادی کا ملک ہے جس کی کثیر آبادی کا مذہب اسلام ہے مگر اسلامی روایات کو پروان چڑھانے کی بجائے عقیدہ ختم نبوت میں ترمیم اور پھر عوامی پریشر کے بعد اسے اصلی شکل میں بحال کردیا گیا موصوف نے اپنے دورِ اقتدار میں پارلیمان میں بہت کم وقت گزارا صرف چھ مرتبہ پارلیمنٹ کو اپنی حاضری کے ذریعے عزت بخشی پانامہ فیصلہ کے بعد میاں صاحب نے اعلیٰ عدلیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور ان دنوں افواج پاکستان اور نیب کے خلاف مہم کو جاری وساری رکھے ہوئے ہیں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن سے استدعا کی ہے کہ وہ ان کاساتھ دے تاکہ نیب کے قانون میں ترمیم کی جاسکے اور ارباب اقتدار کو نیب کے شر سے بچایا جاسکے اپوزیشن بالخصوص اسد عمر نے اس پیشکش کو یکسر مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ اداروں کومزید خود مختار اوربااختیار ہونا چاہیے اس سے فیڈریشن مضبوط ہوگی ۔

ان دنوں میاں صاحب مسلسل کہے جارہے ہیں اس طرح ملک نہیں چل سکتا موجودہ نظام وائرس زدہ ہوچکاہے ستر سال سے کسی وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اب وقت آگیا ہے کہ ووٹ کو عزت دی جائے وغیرہ وغیرہ میاں صاحب اپنا موقف ڈٹ کر عوام کے سامنے بیان کررہے ہیں اس بیانیہ کی حمائت اورمخالفت کرنے والے موجود ہیں خوشامد پسند ٹولہ اسے میاں صاحب کی بہادری اورشیر کی للکار قرار دے رہا ہے توسنجید ہ طبقہ اس بیانیہ کو پارٹی اورملکی مفاد کے خلاف تصور کررہا ہے ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو درمیانی راہ کی تلاش میں ہے جو سمجھتا ہے میاں صاحب کو اس انداز سے اداروں کے خلاف بیان بازی نہیں کرنی چاہیے نہ ہی اداروں کو جمہوری سسٹم کو سبوتاژ کرنے کے عمل میں شریک ہونا چاہیے ستر سالہ ملکی تاریخ میں جمہوریت کے نہ پنپنے کی وجہ اداروں کی جمہوری عمل میں بے جا مداخلت رہی ہے بلاشبہ کسی حکومت کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ،اس کی دوسری وجہ خود جمہوری قائدین ہیں جو سسٹم کو ڈی ریل کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں ۔

جناب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ سیاست دانوں کو بھی جج اورجرنیل جتنی عزت ملنی چاہیے درست فرمایا مگر یاد رکھنا چاہیے کہ عزت کا معیار اعلیٰ کردار اور فرض شناسی ہے وہ لوگ عزت اوروقار پاتے ہیں جو وطن پر اپنا تن من دھن قربان کردیتے ہیں مگر اہل سیاست میں ایسی قربانی دینے والا کہاں یاں تو اپنے من کی فراوانی اور تن کی خوشحالی اور دھن کی کثرت کے لیے غریبوں پر شب خون مارنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے چوری اورہشیاری جنابان پر ختم ہوجاتی ہے دنیا کے کئی ملکوں میں جائیددادیں اور ایئر لائنز کے مالک جج جرنیل جیسی عزت کا مطالبہ کررہے ہیں یہی نہیں نیب کے اختیارات کو محدود کرنے کی بازگشت ایوان میں پہنچ چکی ہے کوئی دانا ہمارے بھولے حکمرانوں کو کیوں نہیں سمجھاتا کہ اگر دامن پاک صاف ہوتو احتساب کا عمل شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے اورمعاشرے میں پاکیزگی کی نئی روح پیدا ہوتی ہے اگر دامن پر داغ ہو تو خوف ملامت کرتا رہتا ہے من میں چھپا چور انصاف کے عمل کو سازش سے تعبیر کررہا ہوتا ہے ندامت چھپائے نہیں چھپتی بلکہ پیشانی پر نمودار ہورہی ہوتی ہے الفاظ کے موتیوں سے بنایا ہوا جعلی کردار دھڑام تخت ہوجاتا ہے جب انصاف کے قلم سے کردار کی گتھیاں سلجھنا شروع ہوتی ہے تب ہرطر ف تعفن ہی تعفن نظر آتا ہے جب کردار کا چور چھپائے نہیں چھپتا تب انسان نظریاتی ہوجاتا ہے کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ خواہش نفس کی تکمیل میں منشور خیالات وافکار یکسر بدل جاتے ہیں اورلیڈر تمام چوروں کو اپنی کچھار میں بیٹھا لیتا ہے تاکہ اپنے اہداف حاصل کرسکے پھر زمانے میں دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ فضاؤں میں بلندہوتا نظرآتا ہے ہمارے عوام بھی بہت بھولے بھالے ہیں پرانی کرپٹ ٹیم کے ساتھ نیا پاکستان بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے جارہے ہیں ریاست کے تمام سٹیک ہولڈر کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان ہے تو جج جرنیل اورجمہوریت ہے پاکستان ہے توعزت ہے اورپاکستان کلمہ توحید کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے یہاں جو بھی کام ہونا چاہیے وہ آئین اورقانون کے مطابق ہونا چاہیے انصاف اوراحتساب کا عمل بلاتفریق چلتارہنا چاہیے اس میں نفرت اورذاتی انتقام کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے اداروں کے خلاف مہم کو ختم اور انصاف اوراحتساب کے اداروں کومضبوط ہونا چاہیے ایک دوسرے پر نوک جھوک الزام تراشی کی بجائے ملکی ترقی وخوشحالی کے لیے بہترین پلاننگ عوام کے سامنے رکھنی چاہیے ووٹ عوام کا حق ہے اورانہیں یہ حق انتہائی سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے ترقی یافتہ ملکوں میں عوام بہترین نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں جو اپنے عوام کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ایسی اقوام اورنمائندگان ترقی اورخوشحالی کا سبب بنتے ہیں داغ کا یہ مطلع موصوف کے نام
عدو بھی تنگ ہے ان کے ستم سے
اسے اپنی مجھے اپنی پڑی ہے

 

Rashid Sudais
About the Author: Rashid Sudais Read More Articles by Rashid Sudais: 56 Articles with 73607 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.