گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے عفریت نے پاکستان کو
شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ افواج پاکستان کی جرات و
دلیری ، حکمت عملی اور مسلسل قربانیوں کی بدولت اس پر کافی حد تک قابو پایا
جاچکا ہے۔دہشت گردوں نے افواج پاکستان، شہریوں، ہر عقیدے اور مذہب کے افراد
کو نشانہ بنایا۔ ان کا مقصد صرف اور صرف ریاست پاکستان کو کمزور کرنا تھا
اور یقینا غیرملکی طاقتیں اپنے اسی مذموم ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ان کی پشت
پناہی کرتی چلی آ رہی ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ
دنوں کوئٹہ میں نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے اسی نقطے پر روشنی
ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب، فرقہ یا قومیت نہیں ہوتی۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بلا امتیاز جنگ لڑی ہے اور اسے جڑ سے اکھاڑ
پھینکنا پوری قوم کا عزم ہے۔ انہوں نے مستقبل کے چیلنجز اورخطرات سے نمٹنے
کے لیے جامع قومی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔ اس سے قبل بھی جنرل قمر
جاوید باجوہ متعدد مواقع پرقوم کو پاکستان کے خلاف دشمن کے خفیہ ہتھکنڈوں،
سازشوں اور حربوں سے متعلق آگاہ کرچکے ہیں۔ 14 اپریل 2018ء کو پاکستان
ملٹری اکیڈمی میں اپنے خطاب میں انہوں نے جہاں مختلف قومی و بین الاقوامی
ایشوز پر بات کی وہاں انہوں نے ’’ہائبرڈ جنگ‘‘کابھی ذکر کیا۔ ان کا کہنا
تھا کہ پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لیے ’’ہائبرڈ جنگ‘‘ شروع
کی جاچکی ہے۔ تاہم دشمن ہمیں نسلی اور دیگر شناختوں میں تقسیم کرنے میں بری
طرح ناکام ہوا ہے۔ ہمارا دشمن جانتا ہے کہ وہ ہمیں جنگی محاذ پر شکست نہیں
دے سکتا اس لیے وہ ہمارے خلا ف ہائبرڈ وارکر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے
دشمنوں کی ہر چال کو شکست دی اور آئندہ بھی شکست دیں گے کیونکہ ہمیں قوم کی
بھرپور اور مکمل حمایت حاصل ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تواتر سے قوم کو مستقبل میں پیش آنے والے
ممکنہ غیرروایتی چیلنجز سے خبردار کررہے ہیں۔ وہ واضح طور پر ان خطرات کی
نشاندہی کے ساتھ ساتھ اس سے نمٹنے کے لیے جامع قومی حکمت عملی اپنانے پر
بھی زور دے رہے ہیں۔ ان خطرات کو انہوں نے "ہائبرڈ جنگ" قراردیا ہے۔عام
قارئین کے لئے شاید یہ اصطلاح نئی اور اجنبی ہو لیکن دفاع پاکستان کا فریضہ
ادا کرنے والوں کے لئے یہ نئی نہیں ہے۔ وہ جنگ کی ہر جہت سے پوری طرح آگاہ
اور دشمن کی ہر چال سے واقف ہیں۔عام قارئین کے لیے بتاتا چلوں کہ ہائبرڈ کا
لفظی مطلب پیوندکاری ہے۔ ماہرین حیاتیات کے نزدیک جانوروں یا پودوں کی
مختلف نسلوں کو ملا کر نئی قسم تیار کرنے کے عمل کو ہائبرڈ کہا جاتا ہے۔
مختلف عناصر کے مرکبات سے اخذ کردہ شے بھی ہائبرڈ کے زمرے میں آتی ہے۔آج کے
دور میں مختلف ٹیکنالوجیز کے امتزاج سے بننے والی نئی چیز کو بھی ہائبرڈ
کہتے ہیں۔ہائبرڈ کمپیوٹرز، ہائبرڈ کارز اس کی مثالیں ہیں۔ اس طرح عسکری اور
دفاعی لحاظ سے دیکھا جائے تو 'ہائبرڈ جنگ' ان مختلف طریقوں اور حربوں کو
کہا جاسکتا ہے جن کے ذریعے کسی ملک پربراہ راست حملے کی بجائے بالواستہ طور
پر عدم استحکام سے دوچارکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دہشت گردی، فرقہ
واریت،صوبائیت اور لسانیت کی تفریقیں، سیاسی عدم استحکام، افواج کے خلاف
پراپیگنڈہ، عسکری و دفاعی تعاون میں کمی و بیشی اور معیشت پر دباؤ ان سب کا
استعمال ہائبرڈ وار کے زمرے میں آتا ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم پاکستان کے
حالات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ جنگ تو عرصہ دراز سے ہمارے خلاف
شروع کی جاچکی ہے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور دفاع وطن سے سرشار جدید
ترین مسلح افواج کی موجودگی میں ہمارے دشمن براہ راست حملے کا سوچ بھی نہیں
سکتے۔ لہذا انہوں نے ہمارے خلاف بہت سے اندرونی محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ ان
میں دہشت گردی سب سے نمایاں رہی ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف اسلام بلکہ پاکستان
کے امیج کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔مختلف ممالک نے دہشت گردوں کو
پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرکے ہماری شہری و دفاعی املاک کو
نقصان پہنچایاہے ۔ہماری افواج اور ایٹمی اثاثوں کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کیا
گیا، فرقہ واریت اور لسانیت کو ہوا دی گئی۔ نسلی تقسیم کے بیج بو کر ہمیں
آپس میں لڑانے کی سازش کی گئی۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیویہ اقرار کر چکا
ہے کہ بھارت بلوچستان اور دیگر علاقوں میں تخریب کاری کے لئے دہشت گردوں کو
مالی و اسلحی سپورٹ فراہم کر رہا ہے۔بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول اور
ورکنگ باؤنڈری پر اچانک فائرنگ کا بلا اشتعال اور لا محدود سلسلہ، سرحدوں
پر فوجوں کا اچانک اجتماع، افغان حکومت کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی، اسی
طرح دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے اور نقصانات اٹھانے کے
باوجود امریکہ اور مغربی طاقتوں کا پاکستان سے "ڈومور" کا مطالبہ ،ڈرون
حملوں کی یلغار،الزامات کی بوچھاڑ اور اقتصادی و دفاعی پابندیاں۔ یقینا یہ
سب 'ہائبرڈ وار ' کے مختلف حربے اور طریقے ہیں جنہیں وقتاََ فوقتاََہمارے
خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس جنگ کا سب سے خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ
دشمن ان مذموم مقاصد کے حصول کے لئے ہمارے بعض عاقبت نااندیش افراد کو ہی
استعمال کرتا ہے۔وہ انہیں آلہ کار بنا کر کبھی دہشت گردی کرواتا ہے تو کبھی
صوبائیت، فرقہ واریت، لسانیت کو ہوا دیتا ہے۔پاکستان کے معاشی مرکز کراچی
میں ایک منصوبے کے تحت بدامنی پھیلائی جاتی رہی۔ اسی طرح بلوچستان میں
بلوچوں کے حقوق کے نام پر منفی پراپیگنڈہ کرکے لسانی اور نسلی منافرت کو
ہوا دی گئی۔ گزشتہ دنوں فاٹا اور خیبرپختونخوا میں کچھ افراد نے اچانک
پشتونوں کے حقوق کے نام پر احتجاج شروع کردیئے۔ اسی طرح بعض سیاستدانوں اور
افراد کی افواج پاکستان اور دیگر ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور
بیان بازی کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ وہ اپنی نالائقیوں اور
کوتاہیوں کا ذمہ دار قومی اداروں کو قرار دے کر خود بری الزمہ ہونے کی کوشش
کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ
کہیں ہم بھی جانے یاانجانے اپنے ہی وطن کے خلاف دشمن کے کسی حربے یا چال کا
حصہ تو نہیں بن رہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جس اہم نقطے کی طرف اشارہ کیا
ہے اس کے لیے تمام ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کو ایک جامع حکمت عملی
ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں پاکستان کو درپیش ہونے والے کسی
بھی چیلنج سے موثر طور پر نمٹا جاسکے۔
|