بقول عمران خان سیاست کرنا بھی ایک سائنس ہے۔ پاکستان میں
سیاست کو ایک بڑی صنعت کا درجہ حاصل ہے۔ پاور شو کے لیے بڑی سیاسی جماعتوں
کی جانب سے ڈیجیٹل جلسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ علاقائی و صوبائی سیاست کی
حامل چھوٹی سیاسی جماعتوں و تنظیموں کے لیے نئے دور سے ہم آہنگ ہوکر جدید
ٹیکنالوجی سے مزین مہنگے جلسے کرانا اس لیے ممکن نہیں رہا، کیونکہ اس کے
لیے بڑے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا اعتراف چھوٹی جماعتوں کے سربراہ
بھی برملا کرتے نظر آتے ہیں۔ سیاست میں عوام کو متحرک اور جلسے میں شرکت
پر آمادہ کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی ‘‘ایش ٹیگ ٹرین’’ مہم
بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سیاسی جلسوں کو فیسٹیول بنانے کی روش نے سنجیدہ
سیاست و تدبر پر مبنی بیانیے کو کونے کھدرے میں دھکیل دیا ہے۔ الزامات اور
جھوٹے بلند بانگ دعوے اور تقریر کے دوران چلایا جانے والا ہیجان خیز میوزک
و ترانے کے تڑکے شرکائے جلسہ کے لیے تفریح کا ماحول بنادیتے ہیں۔ اس ہیجان
خیزی کو سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا میں بار بار دکھانے سے بعض کارکنان
میں سفلی جذبات کا غالب آجانا معمول کی بات بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی
سیاسی جماعتوں نے بداخلاقی کی حدود و قیود کو کنٹرول کرنے کے لیے جلسہ
گاہوں میں باقاعدہ خاردار تار لگانے شروع کردیے ہیں۔ یہ تار پہلے ملکی
سرحدوں کی حفاظت کے لیے لگتے تھے، پھر اہم سرکاری و نجی اداروں کو محفوظ
بنانے اور اب سیاسی جماعتوں کے قائدین کی حفاظت کے لیے لگائے جاتے ہیں،
تاہم خواتین سے بڑھتے بدتمیزی کے واقعات کے بعد حرمت کے لیے بھی خاردار تار
لگانا ناگزیر ہوگیا ہے۔ جلسوں میں خواتین کے ساتھ بدتمیزی کے واقعات کی روک
تھام اور ڈیجیٹل جلسے سے بڑی سیاسی جماعتوں کے جلسہ اخراجات میں کئی سوگنا
اضافہ ہوگیا ہے۔سیاسی جماعتیں اپنا جلسہ بڑے سے بڑا دکھانے اور پاور شو
کرنے کی روش سے مجبور ہیں کہ وہ اُس شہر کے عوام کے علاوہ بھی قریبی علاقوں
بلکہ ملک کے کونے کونے سے کارکنان و سپورٹرز کو لائیں، جس کے لیے لاکھوں،
کروڑوں روپے صرف ٹرانسپورٹ و تفریح پیکیج ( نقد رقوم) کی مد میں خرچ ہوجاتے
ہیں۔ سیاسی جلسوں میں کروڑوں روپے کے اخراجات کہاں اور کیسے ہورہے ہیں، اس
کا کوئی چیک بیلنس نہیں۔ کوئی ادارہ اس حوالے سے موثر کردار ادا نہیں کررہا۔
جلسہ منعقد کرنے والی جماعتیں یہ کہہ کر بری الزمہ ہوجاتی ہیں کہ یہ اپنی
مدد آپ کے تحت کارکنان خود کرتے ہیں۔ ذاتی طور پر یہ تجربہ ہے کہ کسی
سپورٹر کو جلسہ گاہ لانا ہی جوئے شِیر لانے کے مترادف ہوتا ہے، اوپر سے
کروڑوں روپے کے اخراجات اپنی مدد آپ کے تحت کرنا ایک لغو بیان اور آنکھوں
میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے۔ پارلیمانی کرپشن کا پہلا
زینہ جلسہ گاہ میں کیے جانے والے کروڑوں روپے کے اخراجات ہیں۔ اقتدار میں
آنے یا سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لیے غیر قانونی بلیک منی کا بے دریغ
استعمال کیا جاتا ہے۔ مخصوص کردار مہنگے ترین جلسوں میں اخراجات کا بار
اٹھاکر اقتدار میں آنے کے بعد بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کے لیے کروڑوں روپے
پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ اگر اقتدار میں صاحب اختیار بننے میں ناکام بھی
رہتے ہیں تو اپنا اثررسوخ کئی مقتدر اداروں پر قائم کرچکے ہوتے ہیں۔ سیاسی
جلسوں میں کیے جانے والے کروڑوں، جو اربوں روپے کے اخراجات بن جاتے ہیں، ان
کا نوٹس نہ لینا حیران کن عمل ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے صرف ایک مہینے
میں کیے گئے جلسوں کے اخراجات کا میزانیہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ
کالا پیسہ کس طرح خرچ ہورہا ہے۔
موجودہ دور میں بڑے جلسے منعقدکرانے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔
سیاسی جماعتیں اپنے کارکنان و سپورٹرز کو جلسے کے مقام پر لانے کے لیے ملک
گیر سطح پر مہنگی تشہیری مہم چلاتی ہیں، ذرائع ابلاغ میں لاکھوں روپے کے
اشتہارات، شرکاء کو دوردراز و نزدیکی مقامات سے لانے کے لیے ٹرانسپورٹ،
جلسہ گاہ میں شرکاء کو بٹھانے کے انتظامات، اسٹیج بنانے کی خاطر خصوصی
انتظامات، بجلی کی فراہمی کے لیے کرایے پر حاصل کیے جانے والے بڑے جنریٹرز
اور ان کا فیول، اسٹیج پر بڑی اسکرین سمیت جلسہ گاہ کے اندر اور باہر لگائی
جانے والی اسکرین و ہائی فائی ڈی جے میوزک و سائونڈ سسٹم اور میڈیا کوریج
کی خاطر خصوصی اور جدید ترین ‘‘او بی’’ سہولتوں سمیت جلسے کی تیاری میں
مصروف کارکنان، عہدے داروں و سیکیورٹی پر مامور افراد کے لیے پُرتکلف کھانے،
چائے اور منرل واٹر سمیت شرکاء کی خاطر خصوصی طور پر بنائے گئے مفت اسٹال،
سب سے بڑھ کر الیکٹرونک میڈیا کا پرائم ٹائم حاصل کرنا، یوں ایک جلسے کے
انعقاد پر کروڑوں روپے کے اخراجات آرہے ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتیں یہ سب
اپنے‘‘فنڈز’’ سے کرتی ہیں، یا پھر اِس کے لیے ‘‘فنڈز’’ لیتی ہیں۔یہ بات کسی
سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایک کارنر میٹنگ کے لیے کم ازکم خرچہ پچاس ہزار روپے سے
پانچ لاکھ روپے تک آتا ہے، جس میں شرکاء کی تعداد پچاس افراد سے لے کر
پانچ سوسے زائد نہیں ہوتی۔ لیکن جب ہزاروں افراد کے لیے صرف ایک جلسے کا
اہتمام کیا جائے تو کم ازکم ایک سے دس کروڑ روپے بلکہ کروڑوں روپے کے
اخراجات کا تخمینہ آجاتا ہے۔ صرف جلسے کا اسٹیج بنانے کا خرچہ کم ازکم دس
لاکھ روپے سے لے کر پچاس لاکھ روپے تک ہوتا ہے۔ ڈی جے میوزک و سائونڈ سسٹم
کے لیے باقاعدہ معاہدوں پر کنٹریکٹرز رکھے جاتے ہیں، جن کے واجبات کا بل
کئی جلسوں میں کروڑوں روپے بن جاتا ہے۔ برقی انتظامات میں لاکھوں روپے صرف
دو دن کی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ قائدین کے لیے پُرتکلف عصرانے یا عشائیے
کے لیے لاکھوں روپے کا خرچہ اور جلسے میں آتش بازی کے اخراجات اس کے علاوہ
ہیں۔ تشہیر کے لیے جہاں مطبوعہ کی مد میں لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں تو
الیکٹرونک میڈیا میں دیے جانے والے اشتہارات کے نرخ کے حساب سے جلسوں کی
تشہیر کی مد میں کروڑوں روپے خرچ کرنا غیر معمولی اخراجات ہیں۔ کیا ہم نے
کبھی اس بات پر غور کیا کہ یہ کروڑوں اور اربوں روپے کہاں سے آتے ہیں،
انہیں کون دیتا ہے، کیا اس کا علم مالیاتی اداروں کو ہے، کیا قانونی طور پر
ان جلسوں میں اربوں روپے کے اخراجات کا حساب کتاب اور ٹیکس دیے جاتے
ہیں۔کسی بھی سیاسی جماعت کا ایک کارکن ایک رکنیت کارڈ کی مد میں کم ازکم دس
روپے سے لے کر پچاس روپے سال میں ایک مرتبہ پارٹی فنڈ میں جمع کراتا ہے۔
کونسل اراکین ہزار روپے سے دس ہزار روپے تک سالانہ دیتے ہیں۔ سینٹرل ورکنگ
کمیٹی کے اراکین کی فنڈنگ ‘‘پھٹیک’’ کہلائی جاتی ہے، جو لاکھوں سے شروع
ہوکر کروڑوں روپےپر ختم ہوتی ہے۔ پارٹی لیڈر یا ٹکٹ ہولڈر تو اپنی اے ٹی
ایم مشین میں پاس ورڈ بھی نہیں لگاتے۔ ان کا درِ دولت ہر وقت کھلا ہوتا ہے
اور ‘‘کسی’’ کی جھولی خالی نہیں جاتی۔ راقم نے صرف جلسوں کی مد میں خرچ کی
جانے والی رقوم کی صورت حال کا اجمالی تذکرہ کیا ہے۔ انتخابات میں ٹکٹ
ہولڈر کے اخراجات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ یہ دید و شنید ہے کہ منعقد کیے
جانے والے جلسوں کے لیے جبری چندہ بھی اکٹھا کیا جاتا ہے، غیر قانونی
ہتھکنڈوں کو استعمال کرکے چھوٹے بڑے دُکان دار و سرمایہ کاروں سے بھتہ لیا
جاتا ہے، جن سے نقد رقم نہیں لی جاتی، اُن پر مختلف مد میں ‘‘تعاون’’ رکھ
دیے جاتے ہیں۔ اسٹیج، ٹرانسپورٹ، کھانے پینے کے اخراجات، وغیرہ جو جبراً یا
مصلحت کے تحت تعاون کاروں کوچار و ناچار جلسوں کے انعقاد کے لیے دینے پڑتے
ہیں۔اس قسم کے اخراجات کو بھتے کی دوسری شکل قرار دیا جاتا ہے۔ جس میں نقد
رقوم کے بجائے ذرائع و سامان کے اخراجات متعلقہ کنٹریکٹرز کو بالواسطہ ملتے
ہیں۔ یہ ہمار ے سیاسی جلسوں کا عام چلن ہے، اس سے کوئی بھی ناواقف نہیں۔
اگر کسی نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں تو وہ کرپشن کے خلاف کردار ادا کرنے
والے ادارے ہیں، جو کھلے عام جلسوں میں بلیک منی کی فراوانی کو دیکھ کر بھی
خاموش ہیں۔ بڑے جلسوں میں حکمراں جماعتیں سرکاری وسائل کا بھی بے دریغ
استعمال کرتی ہیں۔ سرکاری ملازمین اور مقامی انتظامیہ کو جلسے کے انتظامات
کے لیے سیاسی مقاصد کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے۔ جلسوں کی سیکیورٹی کے لیے
سرکاری خزانوں سے کروڑوں روپے بھی خرچ ہوتے ہیں، جو عوام ان جلسوں میں شرکت
نہیں کرتے، انہیں نقل و حرکت میں شدید دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔ اہم
شاہراہوں پر ٹریفک جام کی وجہ سے لاکھوں روپوں کا فیول ضائع ہوجاتا ہے۔
شدید کوفت اس کے علاوہ ہے۔ ان حالات میں عوام کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ
صرف جلسوں کی مد میں اربوں روپے کے اخراجات عوام کی خدمت کے لیے ہیں یا پھر
سیاسی انڈسٹری میں منافع حاصل کرنے کے لیے۔ اگر ہم یہ سوچ لیں تو یہ ہمارے
حق میں بہتر ہے۔ |