خوش آمدید ماہِ صیام

اﷲ رب العالمین کا بہت شکر ہے جس نے ہمیں زندگی میں ایک بار پھر موقع عطا کیا کہ ہم اس سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگ سکیں اور رمضان المبارک جس کو اس نے بہت فضیلت عطا کی اس مہینے میں اس سے فضل اور رحمت کا سوال کرسکیں اسکی قربت طلب کرسکیں۔رمضان المبارک آنے میں کچھ ہی دن باقی رہ گئے ہیں۔مسلمان رمضان المبارک کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔افطاری کا سامان اور بہتر سے بہتر افطاری کرنے کی تگ ودو میں ہیں۔اسی کے ساتھ رمضان میں نئے نئے ملبوسات کی ضرورت بھی اہم سمجھتے ہیں۔لیکن جب بات روزے رکھنے کی آتی ہے تو بے بسی کا ایسا مظاہر کرتے ہیں کہ اپنے لیے کوئی بھی حجت سامنے رکھ کر روزے سے رخصت حاصل کرلیتے ہیں۔کمزور ایمان والے ہم آج کے مسلمان گیارہ بارہ گھنٹے بھوکا رہنے کا سوچتے ہی لمبی آہ لیتے ہیں اور اپنی بے بسی کو مزید بڑھاتے رہتے ہیں۔ہائے ہم کیسے اتنے گھنٹے بھوکا رہ پائے گا۔افسوس اس بات کا ہے اچھی سی اچھی افطاری اور بڑھ چڑھ کر افطاری کی دعوت پہ جانے کے لیے نئے ملبوسات کی خریدوفروخت کو ہی ہم مخض رمضان المبارک سمجھ بیٹھے۔اور المیہ یہ ہے ہم اس مبارک ماہ کی اتنی قدر کرتے ہیں کہ ہمارے کسی بھی عمل یا ادا سے ظاہر نہیں ہوتا کہ ہم روزدار ہیں۔اس معاشرے میں دو گروہ ہیں ایک گروہ وہ ہے جو حجتوں کو آڑ بنا کے سرے سے ہی روزے کی ادائیگی نہیں کرتا۔چھوٹے چھوٹے مسائل کو مدنظر رکھ کر روزے کو پس وپشت ڈال دیتا ہے۔کسی کامسئلہ بیماری ہے کسی کا مسئلہ مزدوری ہے کسی کا مسئلہ بچوں کی پرورش ہے اور کسی کا مسئلہ کسبِ حلال ہے۔تقریبا اسّی فیصد مسلمان بے ضرر مسائل کو حجت بنا کر بہت آسانی سے روزے جیسے اہم رکن کو فراموش کرتے جارہے ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ اپنی اس محرومی پہ انہیں کوئی افسوس ہی نہیں۔روزہ دین اسلام کا دوسرا اہم رکن ہے۔ جب بھی کوئی شخص اﷲ اور اسکے نبیﷺ پہ ایمان لاتا تو اﷲ کے پیارے حبیبﷺ توحید،رسالت اور نماز کے بعد ہمیشہ روزے کی ادائیگی کا درس دیتے۔کسی بھی تنظیم کا حصہ بننا ہو تو اسکے کچھ اہم قوانین ہوتے ہیں جن کو فراموش کرنے پہ ہمیں اس سے خارج کردیا جاتا ہے۔دین اسلام ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک ضابطہ حیات ہے اس کے بھی پانچ اہم رکن ہیں جن پہ ایمان لانا اور انکی ادائیگی لازم و ملزوم ہے۔ان کی ادائیگی نہ کرنے والے شخص کے ایمان کی مثال اس چھت کی مانند ہوجاتی ہے جس کے ستون کو گرا دیا جائے تو پورا مکاں گرنے کا اندیشہ لاحق ہوجاتاہے۔یہ ایک ایسا رکن ہے جس کی ادائیگی کو بہت اہم قرار دیا گیا سوائے بیماری سے لاچار شخص کے کسی کو بھی رخصت نہیں دی گئی اور ہم اسی اہم رکن کو اپنے خودساختہ مسائل کی نظر کرتے جارہے ہیں اور اپنے پیارے محبوب جن کے لیے ہم اپنی جان تک قربان کرنے کے دعوے کرتے ہیں انکی لعنت کے مستحق بنتے جا رہے ہیں۔کیا ہمیں ناگوار نہیں گزرے گا کہ جس ذات سے ہم محبت کرتے ہوں اسی کی لعنت ہمارا مقدر بن جائے۔ ہمارے رسولﷺ نے واضح الفاظ میں روزہ نہ رکھنے والوں پہ لعنت بھیجی اور رمضان جیسے بابرکت مہینے کی قدر نہ کرنے والے کو بد نصیب ٹھہرایا۔اس معاشریکا دوسرا گروہ وہ ہے جو روزہ تو رکھتا مگر مخض بھوکا پیاسا رہتا ہے یعنی اﷲ کے کہنے پہ پاک چیزوں کو روزے کی حالت میں خود پہ حرام تو کرلیتا ہے لیکن جو حرام چیزیں اسکی عادت کا حصہ بن چکی ہوتی ہیں ان کو روزے کی حالت میں بھی اپنیپہ حرام نہیں کرتا۔حالانکہ پیارے نبی کریم آقائے دوجہاں سرورِکائنات جناب ِ محمدﷺ فرماتے ہیں۔

’’جو انسان روزہ رکھنے کے باوجود جھوٹ ترک نہیں کرتا، اور شرع کے خلاف باتیں اور کام نہیں چھوڑتا ، اﷲ تعالٰی کواسکی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دیں‘‘۔ صحیح بخاری

ماہِ صیام مسلمانوں کے لیے ایمان کوبڑھانے کے لیے مشق کامہینہ ہے۔جس میں حلال چیزوں کو بھی ایک ماہ کے لیے حرام ٹھہرا دیاگیا۔تاکہ مسلمانوں عام دنوں میں حرام کے نزدیک نہ جاسکیں۔کیا حلال کو حرام ٹھہرا نے کے باوجود ہم حرام اشیاء سے پرہیز نہ کرے تو کیسے ہم اﷲ کے فضل کو تلاش کر پائے گے؟کیونکہ آج المیہ یہ ہے ہم روزیدار تو بن گئے لیکن صادق نہ بن سکے ہم روزیدار تو بن گئے لیکن امانت دار نہ بن سکے۔ہم روزیدار تو بن گئے لیکن نمازی نہ بنے۔ہم روزے دار تو بن گئے لیکن حیادار نہ بن سکے ہم روزیدار تو بن گئے لیکن رحمدل نہ بن سکے ہم روزے دار تو بن گئے لیکن عاجز نہ بن سکے ہم روزے دار تو بن گئے لیکن زبان کی حفاظت نہ کر سکے۔ہمارا روزہ ہے لیکن ہماری زبان مسلسل گالیاں بکتی جارہی ہے۔ہمارا روزہ ہے لیکن ہماری زبان دوسروں کی دل آزاری سے نہیں رکتی۔ہمارا روزہ ہے لیکن حرام کھانا نہیں چھوڑا۔افسوس کہ ہم روزہ رکھ کر بھی زبان کو ذکر الہی میں مصروف رکھنے کی بجائے عیبت اور چغلی سے باز نہ رکھ سکے۔المختصر ہم روزہ دار تو بن گئے ہیں لیکن متقی نہیں بن سکے۔حالانکہ اﷲ رب العالمین قرآن مجید میں فرماتے ہیں۔’’اے ایمان والوں تم پہ روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلی قوموں پہ فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘سور ۃ البقرہ

متقی کون ہے ؟ روزہ مسلمان کو متقی کیسے بناتاہے ؟تقوی اﷲ رب العزت کا خاص تخفہ جو وہ اپنے خاص بندوں کو نصیب کرتا ہے۔اور ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرے تو ہمیں اس تقوی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوسکتا ہے کہ اﷲ نے اکثر وعدے متقین سے ہی کیے ہیں۔کہیں وہ فرماتا ہے
’’اچھا انجام صرف متقین کا ہوگا ‘‘ کہیں اس نے فرمایا
’’کامیاب صرف متقین ہیں‘‘ کہیں اس نے فرمایا
’’جنت میں نعمتوں کی فروانی متقین کوملے گی‘‘
’’بہشتوں اور نہروں میں متقین ہونگے‘‘

جاننا چاہیے اور ہمیں سوچنا بھی چاہیے آخر یہ تقوی ہے کیا؟ جو اتنا قیمتی تخفہ ہے کہ اس کائنات کا خالق متقی کوکہیں کامیاب کہہ رہا ہے کہیں بہشتوں کا مالک بنا رہا ہے۔ہمیں اس کی تعریف اور پہچان کرنی چاہیے۔قربان جاؤ اس زمانے پہ جب نبیﷺآیت پڑھتے اور صحابہ غوروفکر میں مشغول ہوجاتے اور اپنا اوڑھنا بچھونا احکامات کی بنا پہ گزارتے۔یہ تقوی جو مومن کے دل میں پیدا ہوتا ہے یہ صرف ڈر ہی نہیں عام طور پہ ہم اسکا ترجمہ ڈر ہی کرتے ہیں لیکن یہ ٹھیک ہونے کے ساتھ ساتھ پورا ترجمہ نہیں ہے۔کیونکہ ڈر بھی دو طرح کا ہوتا ہے۔ایک محبوب کی ناراضگی کا ڈر اور دوسرا سزا کا ڈر۔متقی کا ڈر سزا سے زیادہ اپنے مالک کی ناراضگی ہوتا ہے۔مومن کے دل میں جب اﷲ تعالٰی کی محبت جگہ پکڑ لیتی ہے تو اسکا ڈر بھی آجاتا ہے اسکی ذات اور بات کا احترام بھی ہوتا ہے ان ساری چیزوں کا نام تقوی ہے جب مومن تقوی اختیار کرتا ہے جسکی بنیاد محبت احترام اور ڈر پر ہے پھر اﷲ تعالٰی کی بات ماننا اور اسکی نافرمانی سے بچنا مومن کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔دعا ہے اﷲ ہمیں روزے کی ادائیگی ایسے کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم تقوی کے مقام کوپاسکے۔آمین۔

Areeba Fatima
About the Author: Areeba Fatima Read More Articles by Areeba Fatima: 51 Articles with 47256 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.