تقسیم کا المیہ،جناح کی تصویر اور مستقبل کی فکر

جناح کی تصویر کو مسئلہ بنا کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جو کچھ بھی ہوا وہ قابل افسوس ہی نہیں بلکہ ملک کے مستقبل کیلئے خطرناک اشارے بھی دیتا ہے۔ بات محض محمد علی جناح کے تصویر کی نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی بھگوا بریگیڈ اور اس کے کار پردازوں نے ملک کے سماجی تانے بانے توڑنے کیلئے اس قسم کی گھٹیا حرکتیں کی ہیں۔ اس معاملہ میں ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ خود کو سیکولر کہنے والی جماعت کانگریس بھی بی جے پی کے ساتھ ساتھ بہ اندازِدیگر شریک ہے۔ اس طرح کی اوچھی حرکتیں،تشدد، مارپیٹ اور فساد و بلوہ تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ اِن مفسدوں نے اپنے فکر و فلسفے اور جھوٹی و گڑھی ہوئی باتوں کے پروپیگنڈے کیلئے تعلیمی اداروں اور اکادمیوں کا بھی سہارا لیا ہے۔ اب تو جمہوریت کے چاروں ستونوں میں، جس میں پریس اور عدلیہ بھی شامل ہیں، ان کا عمل دخل خاصا بڑھ گیا ہے۔

حالیہ واقعہ صرف محمد علی جناح کے بانی پاکستان ہونے کی وجہ سے رونماہوا، ایسا نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس طبقیکو ہندوستان میں مسلمانوں کے وجود سے ہی چڑ ہے اور وہ ہر اس نشانی کو ملک سے کھرچ کر پھینک دینا چاہتاہیجس کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ ورنہ یہ بات کون نہیں جانتا کہ محمد علی جناح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی ممبران میں سے ہیں اور یہ کہ قیامِ پاکستان سے پہلے وہ ایک ہندوستانی اور متحدہ ہندوستان کے مجاہد آزادی ہیں۔ ہم یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ آزادی سے قبل بلا تفریق مذہب و ملت محمد علی جناح ایک عظیم، جلیل القدر اور درد مند دل رکھنے والے قائد کے طور پر شمار کئے گئے تھے۔ انھوں نے ہندوستان کو آزاد کرانے کیلئے جو کوششیں کیں،وہ ناقابل فراموش ہیں۔وہ ہندوستان میں ایسے چندلیڈروں میں سے ایک تھے جو آزادی سے پہلے ہندو مسلم اتحاد کی علامت کے طور پر جانے جاتے تھے، لیکن بٹوارے کے بعد جو کچھ بھی ہوا،اس کا بیان انتہائی تلخ، تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے۔

میں ماضی کے اوراق کو الٹ کرسب کو پریشان کرنا نہیں چاہتا۔ آپ ہندوستانی مورخین کے قلم کی لکھی ہوئی تاریخ پڑھیں،پاکستانی مورخین کی، برطانوی یا پھر یورپین کی۔ آپ کو سب کی کہانی الگ اور سب کا نظریہ جدا دکھائی دے گا۔ یہ تاریخ نویسوں کی ہی دین ہے کہ محمد علی جناح کو اگر پاکستانی عوام احتراماً ’قائد اعظم‘کے خطاب سے یاد کرتی ہے تو ہندوستانیوں کیلئے یہ نام ملک کی تقسیم کیلئے ذمہ دار گردانا جاتا ہے۔ہمارے یہاں محمد علی جناح کا مطلب ہی بٹوارہ ہوتا ہے اور چونکہ محمد علی جناح مسلمان تھے، اس لئے اس بٹوارہ کا مطلب بھی مسلمان ہوگیا اور راست طور پر تقسیم وطن کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دے دیا گیا۔ حالیہ واقعہ واحد نمونہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل ہندوستانی مسلمانوں کوتقسیم وطن کے حوالے سے بڑی قیمتیں چکانی پڑی ہیں۔70سال گذرجانے کے بعد بھی ہندوستانی مسلمانوں کوآج بھی جو قیمتیں چکانی پڑ رہی ہیں، اس کی داستان کربناک اور دلخراش ہے۔

تقسیم کا اصل ذمہ دار کون تھا، یہ حقیقت بہت حد تک صاف ہو چکی ہے۔ 1970 اور 1983 میں خفیہ اور سرکاری دستاویزات (secret and official documents) کی اشاعت (Transfer of Power 1942۔47)، جو اس وقت تک لندن کی انڈیاآفس لائبریری کی تحویل میں تھے، کی روشنی میں گاندھی جی، پنڈت نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل تقسیم کے اتنے ہی ذمہ دار تھے جتنا کہ محمد علی جناح۔ مولانا آزاد نے اپنی کتاب انڈیا ونز فریڈم میں اس کی پوری تفصیلات دی ہیں۔ مولانا کے بقول:’’یہ بات ریکارڈ پر آجانا ضروری ہے کہ جو شخص ماؤنٹ بیٹن کے منصوبے کا سب سے پہلے شکار ہوا، وہ سردار پٹیل تھے۔شاید اس وقت تک پاکستان جناح کیلئے اپنی بات منوانے اور سودے بازی کا ایک بہانہ تھا۔ مگر پاکستان کی مانگ میں وہ حدود سے تجاوز کر گئے تھے۔ ان کی اس حرکت سے سردار پٹیل اس قدعاجز آگئے تھے کہ اب وہ تقسیم پر یقین کرنے لگے تھے۔۔۔ویسے بھی ماؤنٹ بیٹن کے آنے سے پہلے بھی وہ 50% تقسیم کے حق میں تھے۔ ان کا یقین تھا کہ وہ مسلم لیگ کے ساتھ کام نہیں کر سکیں گے۔ وہ یہ بات کھل کر کہہ چکے تھے کہ اگر مسلم لیگ سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے تو اس کیلئے انہیں تقسیم بھی قبول ہو گی۔ شاید یہ کہنا نا مناسب نہ ہو گا کہ ولبھ بھائی پٹیل ہی تقسیم کے اصل معمار تھے‘‘۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر بتایا جاتا تھا۔ اور یہ خطاب کسی اور نے نہیں بلکہ سروجنی نائیڈو نے دیا تھا۔ 1910 میں جناح نے منٹو مارلے ریفارم کے تحت مسلمانوں کیلئے علیحدہ الیکٹوریٹ کی مذمت کی تھی باوجود اس کے کہ اس سے انہیں ذاتی طور پر فائدہ ہورہا تھا۔ انھوں نے گاندھی جی کو مشورہ دیاتھا کہ خلافت تحریک کاساتھ دے کر وہ مسلمانوں میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ نہ دیں اور گاندھی جی پر انھوں نے الزام لگایا تھا کہ ایسا کرنے سے انھوں نے نہ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بلکہ خود مسلمانوں، حتیٰ کہ باپ بیٹے میں بلکہ ہر ادارے میں اختلافات اور تقسیم پیدا کردی ہے۔اس کا جواب گاندھی جی نے یہ دیا کہ (مولانا) محمد علی اورخود ان کیلئے خلافت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ محمد علی کیلئے یہ ایک مذہبی فریضہ ہے اور میرے لئے یہ اس لئے مذہبی فریضہ ہے کیونکہ ایساکرنے سے میں گائے کومسلمانوں کے چھروں سے محفوظ کر سکتا ہوں۔ معروف صحافی مارک ٹلی نے اپنی کتاب(From Raj to Rajiv, (BBC Books. London 1988) میں مینو مسانی، جو 1945 میں قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے، کے حوالے سے لکھا ہے: ’’۔۔۔نہرو سمیت اکثر لوگ بے صبرے ہو گئے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ مسلمان یہاں سے جلد از جلد رخصت ہوں تاکہ وہ اپنے گھر کے خود مالک ہوں۔نہرو اور جناح کی ذاتی انا متحدہ جمہوری ہندوستان کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئی تھی‘‘۔

پھر میں اپنی بات کہاں سے شروع کروں؟ تاریخ کے طالب علم ہونے کے ناطے میں نے اِدھر کی بھی کہانی پڑھی ہے اور اْدھر کی بھی۔ اِدھر اْدھر سے پہلے اس وقت کی بھی داستان مجھے معلوم ہے جب نہ جناح تھے نہ گاندھی، نہ نہرو تھے نہ پٹیل، نہ آزاد تھے نہ امبیڈکراور بہت سارے وہ مجاہدین بھی نہیں تھیجنھوں نے ملک کو آزاد کرانے کیلئے اپنی لازوال قربانیاں پیش کرکے قوم کو آزادی کی سوغات دی۔ مجھے اس ہندوستان کی بھی کہانی معلوم ہے جب نہ تو پاکستان تھا نہ بنگلہ دیش، نہ افغانستان نہ بلوچستان بلکہ اس وقت صرف ایک ہندوستان تھا،پورا پورا ہندوستان۔ ہر طرح کے بھید بھاو اور اختلاف سے دور جب شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیا کرتے تھے۔پھر وہ زمانہ بھی آیا جب اس ملک میں انگریز داخل ہوئے۔وہ یہاں مسلمانوں کی طرح رہنے نہیں آئے تھے۔ مسلمان جب یہاں آئے تو وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ انھوں نے اس مٹی کو کندن بنانے میں اپنی زندگی لگا دی۔وہ لے کر کچھ بھی نہیں گئے لیکن دیا بہت کچھ۔ اس کے بر عکس انگریز اس ملک کو لوٹنے اور اس کیمعدنی ذخائرو وسائل سے پیٹ بھرنے آئے تھے۔انھوں نے اپنے مفاد کیلئے یہاں کے باشندوں میں پھوٹ ڈالو اور راج کرو کا رویہ اپنایا۔ بھولے بھالے اور سیدھے سادھے عوام کے دلوں میں اختلاف،نفرت،عداوت اور فرقہ پرستی کا بیج بویا۔ اْن نفرت کے پاسبانوں کو ملک بدر کرنے میں ہمارے بزرگ کامیاب تو ہو گئے، لیکن جو تلخ بیج انگریز بو کر گئے وہ ہند پاک بٹوارے کی شکل میں ظاہر ہوئے۔

1947ء میں تقسیم اورآزادی کا پروانہ ملنے کے ساتھ ہی خونریز حالات کاسامنا کرناپڑا جس نے پوری ہندوستانی مسلم آبادی کو بکھیر کر رکھ دیا اور اب تک یہ قوم دوبارہ اپنے پیروں پرکھڑی نہیں ہوسکی ہے۔تقسیم کے دوران خوف وہراس اور خاک وخون کے طوفان میں سرحد کے دونوں طرف اپنے چھ لاکھ بیٹوں اور بیٹیوں کو قتل ہوتے ہوئے اورتقریبا ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کو گھر سے بے گھر ہوتے ہوئے دیکھاگیا۔ان واقعات اور حالات کی روداد اتنی تکلیف دہ اور مضطرب کردینے والی ہے کہ ان کے خیال سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آزادی کے بعد بھی لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں اور 72 لاکھ مسلمان تقسیم کے وقت ہجرت کرکے پاکستان گئے جبکہ 1941ء سے 1951ء تک پاکستان کے علاقوں سے ہندوستان آنے والے ہندؤں اور سکھوں کی تعداد 45 لاکھ چالیس ہزار تھی۔تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ جس بحران سے ہندوستانی مسلمانوں کو1947ء میں گزرناپڑا،وہ چند باتوں کے لحاظ سے 1857ء کے بحران سے کم،مگرمجموعی طور سے اس سے کہیں زیادہ سخت تھا۔

تقسیم ہند کے بعد بظاہر مسلمانوں پر جو مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، وہ نقل مکانی کی شکل میں بہ طورخاص دہلی،پنجاب اور ایک حد تک بنگال میں کئی برسوں تک روا رہے۔ ہندوستان اورپاکستان کو آزادی کی دولت انہیں اِس شکل میں ملی۔ قتل و غارت کا کہیں بازار گرم ہوا تو کہیں نقل مکانی کا طویل سلسلہ تادیرقائم رہا۔ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو 1857ء سے کہیں زیادہ ابتلاو آزمائش کا سامنا1947ء کے بعد کے چند برسوں کے درمیان کرنا پڑا۔ یہ سب بہت سے مسلمانوں کیلئے روحانی اذیت کا سبب تھا جنہوں نے اپنے عزیزوں کو لٹتے اور مرتے ہی نہیں دیکھا بلکہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کا شیرازہ بھی منتشرہوتے ہوئے دیکھنا پڑا۔ المیہ در المیہ سے بھری پڑی تاریخ کی ایک لا متناہی داستان بکھری پڑی ہے۔یہ تاریخ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہیں پٹیل ونہرو کوتقسیم کے حوالے سے کٹہرے میں کھڑا کرتی ہے تو کہیں جناح کو موردالزام گردانتی ہے۔ ایسے میں محمد علی جناح کی اگر تنقید کرتا ہوں تو سرحد کے اْس پار والوں کی ایک بڑی تعداد کی دل آزاری ہوگی اور اگر تعریف کرتا ہوں تو سرحد کے اِس پار والے بہت سے لوگ ناراض ہوں گے۔

پھر میں کیا کہوں اور کیوں کہوں،عجیب کیفیت سے دو چار ہوں۔ آزادی کے بعد لٹریچر کی شکل میں سامنے آنے والا ایک بڑاذخیرہ ہمارے سامنے موجود ہے،جس میں دونوں طرف کی قصیدہ خوانیاں بھی ہیں اور مذمتی تحریریں بھی۔ آج یہ لٹریچر ہندو پاک کی لائبریریوں میں دھول چاٹ رہا ہے۔میں سوچ رہا ہوں کہ اِن تحریروں کا آخرکیا نتیجہ نکلا۔ شاید اس کے بل پر آج تک ہم کسی ایک نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔

کم از کم آزادی کے بعد دونوں طرف ہمارا کام پیچیدہ سماج کے تناظرمیں ایک جمہوری ڈھانچے کو منظم کرنے کاتھا۔ ہم نے یہ ذمہ داری بھی اطمینان بخش انداز میں ادا نہیں کی۔ کم از کم ابھی تک تو ہم یہ کام نہیں کر پائے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ ہم اکثر آسان راستوں کا سہارا لیتے ہیں جو محض کچھ وقت کیلئے خود کو مطمئن کرنے کاباعث بن جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ہی ہمارے اندر مقصدکے تئیں ایمانداری کا فقدان بھی ہے۔ اسی لئے ہم جو حل نکالتے ہیں یا نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، اس میں ضروری طاقت نہیں ہوتی اور سنجیدگی ودیانتداری کا فقدان مسائل کے حل کی راہ میں رخنہ بن جاتا ہے۔ یوں یہ سب نتائج کے طورپرکچھ دنوں کے بعد ہی غیر موثر ہوجاتا ہے اور پھر مزید نقصان کا سبب بنتاہے۔ کیونکہ یہ تمام طریقے سماجی تقسیم کے مطالبے کو تسلیم کرکے انہیں تاریک کوٹھریوں میں مضبوطی سے بند کردیتے ہیں۔ اس سے ہمارا سماج مستقل طور پر منقسم ہوجاتا ہے۔ ہمارے سامنے چیلنج بنیادی باتوں کو ایمانداری سے کہنے کاہے لیکن ہم اس سے بھی کتراتے ہیں۔ کیونکہ یہ بہت ہی خوفناک سچائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ہمارے ووٹوں کی ذہنیت سے چپکے ہوئے نظام حکومت کی سچائی پربھی کئی سوال اٹھا دیتاہے۔

ہم اور آپ چاہے جناح کو گالی دیں، یا گاندھی، آزاد اور نہرو کو برا بھلاکہہ لیں،مسئلہ کا حل یہ قطعی طور پر نہیں ہے کیوں کہ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔اب ہم نہ تو دونوں بلکہ تینوں ممالک کو ایک کر سکتے ہیں اور نہ ہی تاریخ کے اوراق کو کرید کر زخموں کو مندمل کر سکتے ہیں۔اس لئے اس کا حل یہی ہے کہ ہم دونوں جانب امن اور سکون کو فروغ دینے کیلئے کوشش کریں۔ اگر ہم یہ کوشش کرتے ہیں تو کوئی بعید نہیں کہ ہمیں اس میں کامیابی ملے گی۔ اب بھی بہت زیادہ وقت نہیں گذرا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ان تمام چیزوں سے پرے ہٹ کر اپنی آنے والی نسلوں کو امن ومحبت کی سوغات پیش کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ اس تقسیم نے ہمیں کوئی امن نہیں دیا اور نہ ہی ہم سے بچھڑنے والے حصے کو امن فراہم کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تقسیم کا بنیادی مسئلہ یعنی ہندو مسلم تعلقات بدستور بڑے مسئلے کی شکل میں قائم ہے۔ تقسیم نے دونوں قوموں کے درمیان ایک مستقل دراڑ پیدا کردی۔زمین کی تقسیم کے ساتھ ہم نے انسانی سوسائٹیوں کو بھی بانٹ دیا۔آخرہمارے پرکھوں نے ہماری آنے والی نسلوں کو یہ وراثت کیوں دی؟یہ کیسی بے شرمی اور کیسی وراثت تھی؟جو مسلمان یہا ں باقی رہ گئے یا چھوڑ دئے گئے، اب خود کو بے یار ومددگار پاتے ہیں اور اکثریت کے ساتھ خود کو ایک محسوس نہیں کرتے۔ اس وجہ سے وہ نفسیاتی سکون سے محروم ہیں۔ یہی احساس پاکستان اور بنگلہ دیش میں بچے ہوئے ہندوؤں کا ہے جن کو دھیرے دھیرے لیکن مستقل طورسے باہر دھکیلا جارہا ہے۔

آئیے ہم آج ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے یا کسی یا ٹریجڈی کوان حالات کیلئے ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے ایک پر سکون مستقبل کی پیش بندی کیلئے کھڑے ہوں، جو ہمارے بزرگ نہیں کر سکے۔ اگر ہم یہ کر لیتے ہیں تو یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ ورنہ پھر آپ تاریخ کے اوراق کو الٹتے رہیے، ایک دوسرے پر الزام در الزام لگاتے رہیے۔ مسئلے کا حل نہیں ہو سکے گا۔ نتیجے کے طور پر ہم بھی اپنے آنے والی نسلوں کو وہی سرزمین سونپ کر چلے جائیں گے جہاں خون ہوگا اوربد امنی ہوگی۔اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کونسی راہ اختیار کرتے ہیں۔

ALAMULLHA ISLAHI/محمد علم اللہ اصلاحی
About the Author: ALAMULLHA ISLAHI/محمد علم اللہ اصلاحی Read More Articles by ALAMULLHA ISLAHI/محمد علم اللہ اصلاحی : 60 Articles with 54203 views http://www.blogger.com/profile/14385453359413649425.. View More