صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی حماقت سے یہ راز فاش کردیا کہ
اسرائیل بھی ریاستہائے متحدہ امریکہ کی ایک ناجائز ریاست ہے ۔ اس حقیقت کی
منافقانہ پردہ پوشی عرصۂ دراز تک کی جاتی رہی لیکن اب یہ بلی تھیلے سے
باہر آگئی ہے۔ غزہ میں اسرائیلی فوجیوں نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا ہے اس
کی مذمت کے امریکی انتظامیہ کے پاس ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق‘ کے گھسے
پٹے الفاظ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حق صرف امریکہ اور
اسرائیل کے لیےمختص ہے؟ کیا فلسطینیوں کو اپنے جائز حقوق کی خاطر احتجاج کا
حق نہیں ہے ؟ کیادنیا بھر میں اپنے حقوق کی خاطر صدائے احتجاج بلند کرنے
والوں کے ساتھ اس طرح کا وحشیانہ سلوک کیا جاتا ہے؟ ایک طرف ساری مہذب دنیا
غزہ کی سرحد پر ہونے والی گولی بار پر احتجاج کررہی ہے اور دوسری جانب امن
کانام نہاد ٹھیکیدار خاموش ہے کیونکہ وہ خود اس ظلم میں شریک کار ہے۔ ترکی
نےاس حقیقت کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کےشانہ بشانہ
امریکہ بھی فلسطینیوں کے قتل عام میں برابر کا شریک ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نےاعلان کیاکہ سفارت خانے کی تل ابیب سے
مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کے بعد امریکہ مشرق وسطیٰ میں ثالث کی حیثیت کھو
چکا ہے۔اس نے مسئلے کا حل بننے کی بجائے مسئلے کا حصہ بننا پسندکیا ہے۔
مشرقی القدس فلسطین کا دارالحکومت ہے۔سعودی عرب نے بھی نہتے فلسطینی شہریوں
پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور حملوں کی شدید مذمت کی اور اس عزم کا اعادہ
کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی بحالی کے لیے ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
مصر اوراردن کی وزارت خارجہ نے اسرائیل فوج کی مذمت کی نیز چار روز کے لئے
رفاہ سرحد کھولنے کا اعلان کیا ۔عرب لیگ کے سربراہ احمد ابولغیث نے پیر کے
روز امریکی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے سفارتخانے کی منتقلی کے فیصلے کو غیر
قانونی قرار دیا ہے اور عرب لیگ کا فوری اجلاس طلب کرلیا ۔
ایران نے فلسطینیوں کےقتل عام کو تاریخ کا شرمناک دن قرار دیا ۔ ایران نے
شدید مذمت کرتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی پارلیمانی یونین
کا ہنگامی اجلاس کہا کہ امریکہ کی فلسطین مخالف کاروائیوں پر خاموش نہیں
رہا جائے گا۔اس اجلاس میں فلسطین کمیٹی کے مستقل ارکان نے صیہونی حکومت کے
ساتھ کسی بھی طرح کے تعلقات کی برقراری کو مسترد کرتے ہوئے غاصب اسرائیل کے
مقابلے میں استقامتی تحریکوں خاص طور پر فلسطینی عوام کی جد و جہد اور
استقامت کی حمایت کا اعلان کیا۔تنظیم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل
سےمطالبہ کیا کہ صیہونی فوجیوں کے ہاتھوں مظلوم اور نہتے فلسطینی عوام کے
قتل عام کی تحقیقات کرائی جائیں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق مجرموں
اور قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائےنیز غزہ کا زمینی، ہوائی
اور سمندری محاصرہ ختم کرکے وہاں جانے والی سبھی گذرگاہوں کو کھول دیاجائے۔
صویلنی حفاظتی دستوں نے سفارتخانے کی منتقلی کے خلاف احتجاج کرنے والے
پرامن مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کرکے ۵۵فلسطینیوں کوشہید کردیا تھا
اورتقریباًڈھائی ہزار لوگ زخمی ہوگئے تھےجن میں بیشتر کی عمر۱۶ تا ۳۵ سال
کے درمیان تھی۔ حماس نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام پر انتفادہ کا
اورالفتح نے اسرائیل غزہ سرحد پر ہونے والی ہلاکتوں کے سوگ میں عام ہڑتال
کا اعلان کیا۔ فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے تنبیہ کی کہ مقبوضہ بیت
المقدس میں امریکی سفارتخانہ کھولنے سے مشرقِ وسطیٰ مزید عدم استحکام کا
شکار ہوگا، انھوں نے کہا کہ ’اس اقدام سے امریکی انتظامیہ نے امن کے عمل
میں اپنا کردار منسوخ کر دیا ہے اور دنیا، فلسطینی عوام، اور عرب دنیا کی
بے عزتی کی ہے۔اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے نہتے مظاہرین پر
فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔اقوام متحدہ
کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید راد الحسین نے اسرائیل سرحد پر تشدد
کی مذمت کرتے ہوئےامریکی انتظامیہ پر طاقت کے زعم میں فلسطینیوں کے حقوق
پامال کرنے کا الزام عائد کیا۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے غزہ میں ہلاکتوں کی بڑھتی
تعداد پر شدید تشویش کا اظہار کیا ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیلی
فوج کی جانب سے مظاہرین پرطاقت کے استعمال کی مذمت کی ۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل
نے اسےبین الاقوامی قوانین کی گھناؤنی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ برطانوی
وزیر خارجہ بورس جانسن کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی جانوں کے ضیاع پر
انتہائی غمزدہ ہیں۔ بورس جانس نے کہا کہ برطانیہ القدس میں امریکی
سفارتخانے کو منتقل کرنے کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا ۔ امریکہ غلط وقت پر
غلط حکمت عملی اختیار کررہا ہے۔ جنوبی افریقہ نے ایک جرأتمندانہ اقدام
کرتے ہوئےغزہ میں جاری اسرائیلی فورسز کے تشدد کے خلاف اسرائیل سے اپنا
سفیر واپس بلالیا ہے ۔
امریکہ نے ۱۹۴۸ میں سب سے پہلے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کیا تھا اور ۱۹۹۵
میں امریکی کانگریس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے اور
امریکی سفارت خانہ کو وہاں منتقل کرنے کا عندیہ دیا ۔صدر کلنٹن، بش اور
اوباما اس موقف سے اتفاق کے باوجود عالمی دباو کے سبب اس پر عمل درآمد سے
گریز کرتے رہے۔ ۲۲ سال کے بعد ۶ دسمبر ۲۰۱۷ کوصدر ٹرمپ نے درفتر خارجہ کو
امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ امریکی
انتظامیہ نے اس وقت اقوام متحدہ میں صفائی پیش کی تھی کہ امریکہ نے سرحدوں
کے بارے میں کوئی پوزیشن نہیں لی۔ یروشلم پر حق کے حوالے سے خصوصی پہلوؤں
کا اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات میں فیصلہ ہونا ہے۔ امریکہ نے حرم
الشریف کے انتظامات میں کسی تبدیلی کی حمایت نہیں کی ہے۔ صدر نے مقدس
مقامات کی صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔ سوال یہ ہے
کہ امریکی انتظامیہاگر واقعی پائیدار امن کے حصول کی خاطردوریاستی حل کا
حامی ہے تو سفارتخانے کو منتقل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل کو بھی اپنا دارالحکومت متعین کرنے کا حق ہے
لیکن کیا کوئی ملک کسی دوسرے کے ملک پر غاصبانہ قبضہ کرکے وہاں اپنی
راجدھانی بناسکتا ہے۔ اسرائیل نے تمام بین الاقوامی پابندیوں کو پامال کرکے
یروشلم میں پارلیمنٹ اور عدالت عالیہ قائم کرلی ۔ صدر، وزیر اعظم اور
دیگروزرا کے غیر قانونی گھر بنالیے تو کیا ساری دنیا اس دھاندلی کے آگے
سرتسلیم خم کرلے ؟ اسلامی ممالک تو درکنار یوروپ بھی اس کی مذمت کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ افتتاح کی تقریب میں ۳۲ غیر معروف ممالک کے علاوہ کوئی قابل
ذکر مشرقی یا مغربی ملک کا نمائندہ موجود نہیں تھا ۔ امریکہ کا الزام ہے کہ
اقوام متحدہ اسرائیل کے حوالے سے منفی جذبات کا حامل رہا ہے۔ اقوام متحدہ
نے مشرق وسطیٰ کے امن کو آگے بڑھانے کے بجائے اسے تباہ کرنے کا کام کیا ہے۔
یہ تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا معاملہ ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ کی
قرارداد پر عمل کرنے کے بجائے اس پر اپنی مرضی تھوپنا چاہتا ہے اور ڈھٹائی
سے اعلان کرتا ہے کہ اسرائیل پر اقوام متحدہ میں ناجائز طور پر حملہ کیا
جائے گا تو ہم اس کا ساتھ نہیں دیں گے ۔ جس ملک کاترجمان اقوام متحدہ کے
اندر ان عزائم کا اظہار کرے اس سے کس خیر کی توقع کی جائے؟
امریکہ اور اسرائیل طاقت کے نشے میں من مانی تو کرتے ہیں لیکن حیرت کی بات
یہ ہے کہ اپنے خلاف چند ہزار نہتے مظاہرین سے خوفزدہ ہوکر بربریت پر اتر
آتے ہیں ۔ یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ عالمی طاقت کا تواز ن بدلتا رہتا ہے ۔
ایک زمانے تک روس کے مقابلے میں امریکہ مغربی یوروپ کے ساتھ ہوتا تھا لیکن
اب وہ اپنے پرانے حلیفوں کو چھوڑ کر روس کا ساتھ دے رہا ہے۔ اسرائیل کے
معاملے میں بھی یوروپ اور امریکہ آمنے سامنے ہیں ۔ مستقبل میں اگر یوروپ،
چین اور اسلامی ممالک کا محاذ امریکہ و روس سے نبردآزما ہوجاتا ہے تو دنیا
کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ وہ معرکہ صہیونیوں کو پھر وہیں
پہنچا دے کہ جہاں وہ در بدر ٹھوکریں کھارہے تھے۔ اس وقت وہ مسلم ممالک بھی
ان کے پرسانِ حال نہیں ہوں گے جو مشکل کی گھڑی میں کام آتے تھے۔ایک دن
شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والے غزہ کے جاں باز مجاہدین آزادی کا لہو
ضرور رنگ لائے گا اور اس نظام ظلم و جبر کو الٹ پلٹ کررکھ دے گا بقول مجید
میمن ؎
ظلم و ستم کی آگ میں جلتا رہا ہوں میں
یوں بھی نظام دہر بدلتا رہا ہوں میں
|