ہم پانچویں جماعت کا امتحان پاس کر کے کلاس روم کے
باہر جماعت ششم لکھنے کے حقدار ہو چکے تھے اب ایک ہی ماسٹر صاحب کے درشن کے
بجائے ہر پینتیس منٹ بعد نیا چہرھ دیکھنے لگے تھے. پانی پینے کبھی دھوپ میں
پڑے ڈرم کے پاس جاتے تو چھوٹی کلاس والوں کو بڑے رعب سے کہتے یرا تساں بعد
وچ پئ کینے ساڑا پریڈ شروع ہون آلا اے. یا پھر بول بزاز کرنے ساتھ والی
باڑی میں جاتے تو دوسروں کو سنانے کے لیے بڑے نخرے بڈہیار سے کہتے اوے
سائنس ناں پریڈ شروع ہو گئیا ہوسی بہل کر . گویا ہم جماعت ششم میں پہنچنے
کو کوہ پیما سر کرنے والوں میں سمجھتے تھے، یا یوں لگتا تھا ہم ہی پہلے اور
آخری طالب علم ہیں جو جماعت ششم میں ہیں، شاید ہمارے بعد ایسا نہ ہو سکے.
ہمارے پینتیس منٹ پچیس منٹ میں ختم ہو جاتے وہ ایسے کہ ہر آنے والا ٹیچر
پانچ منٹ بعد آتا اور اتنے ہی منٹ پہلے چلا جاتا. ہمارے سائنس ٹیچر منیر
احمد تھے جو دراصل سائنس کے بجائے سیاسیات پڑھے ہوئے تھے، انہوں نے ایک
ایسی پالیسی بنائی ہوئی تھی کہ آتے ہی ایک دو لڑکوں کو دو تین پٹکار مار
دیتے اور پھر پیچیس منٹ نہ کوئی ہلتا نہ کوئی سولکتا. ان کی یہ سیاست بیس
سائنسدانوں پر بھاری پڑتی. آخر ہم بھی انہی کے شاگرد تھے جیسے سقراط کے آگے
افلاطون،آخر کار ہم نے ان کے خلاف کدورتوں کے بم بنانے شروع کر دیے. سردیوں
کے دن تھے ہمارے بینچ باہر لگے ہوئے تھے جہاں آج کل پلے گروپ والوں کے
جھولے لگے ہوئے ہیں،یہاں سکول کے میدان کا آخری کونا تھا جس کی حد ایک آڑہ
تھا وہ اونچا سا تھا اس لیے اسے اوٹا بھی کہا جاتا تھا. ہمارے بینچ اسی
اوٹے پر لگے ہوتے تھے. ایک دن اسی اوٹے پر بینچوں کے وچکہار نفرتوں سے بنا
بم اس وقت بلاسٹ ہوا جب منیر صاحب کلاس میں آئے . ہم ان کی سیاست سے تنگ
پڑے ہوئے تھے اس لیے بالکل جمہوری نظام کے مطابق پوری کلاس نے ایک ایسے
لڑکے کا انتخاب کیا جو اکثر کٹا بٹا رہتا تھا، ہم نے اسے منت ترلے سے
سمجھایا کہ دیکھو اس امر کی امریت سے چھٹکارا صرف تمہی دلوا سکتے ہو . (
قابل ذکر بات کہ ہم نے دو تین دن پہلے سے شوشہ چھوڑ رکھا تھا کہ شبیر کو
کہوٹ"جن کا سایہ" پڑتی ہے). آج جب منیر صاحب آئے تو شبیر کو چھوڑ کر باقی
ہم سب کھڑے ہو گے. ماسٹر جی کی مذید توجہ دلوانے کے لئے ہم نے شبیر کو
سرگوشیوں میں کہنا شروع کر دیا اٹھ اوے . ہماری سرگوشیاں رنگ لائی کہ منیر
صاحب کی ساری توجہ ہی ادھر ہو گئی. شبیر جب نہ کھڑا ہوا تو منیر صاحب اس کے
پاس جا کر کہنے لگے اسٹینڈ اپ، یہ حکم انہوں نے تیسری بار ہاتھ میں پکڑی
چھڑی گماتے ہوئے دھرایا تو شبیر یکدم اٹھا اور وہ کچھ کر گیا جو اس کو پڑنے
والا جن بھی نہیں کر سکتا تھا . ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن کیا کرتے
امریت کا خاتمہ ناگزیر ہو چکا تھا. امریت کا بس وہ آخری دن ہی تھا تاہم
تعزیرات محکمہ تعلیم کے دفعاجات سے شبیر کو بچانے اس کی کہوٹ کام آ گئی.
منیر صاحب اس کے بعد سیری اسکول میں نہیں دیکھے. ہماری انگریزی بھی چھٹی
کلاس سے شروع ہوتی تھی یہ پریڈ بہت ہی ہینڈ سم ٹیچر زبیر پڑھاتے تھے، ان کی
شاید نئی نئی تقری تھی کہ بڑے چلبلے سے تھے کلاس میں آتے تو پورا ماحول ہی
گرما کر رکھ دیتے. نئی نئی انگریزی نئے نئے ہم اور نئے نئے ٹیچر تھے، اس
لیے خوف کے ساتھ ساتھ مزا بھی تھا. انگریزی ابھی ابتدائی مراحل میں تھی اس
لیے سنڈے منڈے ہی یاد کرائے جاتے تھے، جو ہم نے بڑی مشکل سے سیکھ تو لیے
لیکن ترتیب پھر بھی آگے پیچھے ہو جاتی، زبیر صاحب بڑے حربوں سے سیکھلا پڑھا
رہے تھے لیکن ہم بالکل کاٹھ کے گھوڑے تھے ، آخر ایک دن انہوں نے وارننگ دی
کہ کل جسے سنڈے منڈے( آج کے نرسری کے بچے بھی نیم آف ڈیز کہتے ہیں)نہ آئے
تو دیکھنا میں کیسے یاد کراتا ہوں. دوسرے دن زبیر صاحب نے آتے ہی کہا جن کو
سنڈے منڈے یاد ہیں وہ بیٹھے رہیں اور باقی کہ ادھر کھڑے ہو جائیں . اب
بیٹھنے والے گنتی کے ہی کچھ تھے اور باقی کلاس کھڑی تھی . زبیر صاحب نے جب
یہ حالت دیکھی تو پہلے سے بھی زیادہ سرخ ہو گئے لیکن پھر بھی خود پر کنٹرول
کیا اور ماحول بدلنے کے لیے کہنے لگے یہ جو کھڑے ہیں ان میں سے کوئی یہ بتا
سکتا ہے کہ"میں تم سے پیار کرتا ہوں" کی انگریزی کیا ہے، ابھی انہوں نے یہی
کہا تھا قطار میں کھڑے پہلے لڑکے(راجہ غفار) نے ہاتھ کھڑا کیا اور کہنے لگا
میں دساں، زبیر صاحب نے کہا ہاں توں ہی دس . آئی آئی (وہ عادتاًپہلا لفظ دو
بار بولا کرتا تھا) لو یو . ابھی اس نے اتنا کہا ہی تھا کہ زبیر صاحب نے
ایک زناٹے دار تھپڑ اسے رسید کرتے ہوئے کہا ، دو ہفتے سے میں انگریزی پڑھا
رہا ہوں اور وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے یہ ایک دن بھی نہیں پڑھایا اور
یہ ساری کلاس کو آتا ہے جب کہ سنڈے منڈے دو ہفتے سے پڑھائے جا ریے ہیں تو
وہ صرف چار پانچ لڑکوں کو آتے ہیں. اس دن کا پریڈ تو ختم ہو گیا لیکن غفار
سے ہر روز ہی پوچھا جاتا غفار اوے میں تم سے پیار کرتا ہوں کی انگریزی کیہ
آ.
ہمارے دو اور ٹیچر ایک ہی نام کے تھے تاہم خود کو یا پھر دوسروں کو جھنجھٹ
سے بچانے کے لیے ایک بشیر احمد لکھتے اور دوسرے بشیر ناز لکھا کرتے تھے.
دونوں نہایت ہی ذمہ دار قسم کے معلم تھے . بشیر ناز صاحب اردو پڑھایا کرتے
گرائمر پر انہیں مکمل عبور حاصل تھا یا ہمیں ایسا لگتا تھا کیوں کہ نیا نیا
ہمارا واسطہ پڑا تھا جو انگلش میں وٹ از دس کہہ دیتا ہم اسے بھی ویلم
شکسپیئر مان لیتے تھے. تاہم یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بشیر ناز صاحب اپنا
پریڈ پوری ذمہ داری سے پڑھاتے تھے. بشیر احمد صاحب کا شاید کوئی خالی پریڈ
ہوتا تھا کے وہ ہماری کلاس کے سرہانے اس وقت آ کر کھڑے ہو جاتے تھے جب اگلا
پریڈ چل رہا ہوتا. جوں ہی پہلے ماسٹر جی کلاس چھوڑتے یہ پتلی سی آواز میں
یہ کہتے ہوئے وارد ہوتے مطالعہ پاکستان نکالیے. ان کی آواز کی کاپی صد فیصد
راجہ زاہد ( زاہد جنرل اسٹور چتر) کیا کرتا تھا . لیکن یہ سن کر کچھ تسکین
سی ہوتی کے پاکستان کا مطالعہ ہو یا نہ ہو البتہ مولوی محمد حسین صاحب کی
چونڈیوں( چٹکی کاٹا) سے تو جان چھوٹے گئی، جو عربی کی تنوین ہونٹوں سے کم
اور ہاتھوں سے زیادہ پڑھواتے تھے. بشیر احمد صاحب کلاس کے لڑکوں کا بغور
معائنہ کرتے پھر ان کے مستقبل کی پیشن گوئیوں کرتے (جو حرف با حرف درست
ہوئیں). آپ اخبار کا بھی بھرپور مطالعہ کرتے تھے شاید اسی لیے آپ کو اپنے
سبجیکٹ سے دلچسپی تھی آپ کتاب سے کم اور تجربات سے زیادہ پڑھایا کرتے تھے.
پاکستان کے جغرافیائی خدوخال یوں بیان کرتے جیسے آپ پاکستان کے کریہ کریہ
سے واقف ہیں. اچھے فرض شناس استاد تھے آپ کی کوشش ہوتی کہ پورے پینتیس منٹ
کلاس کے لئے وقف کیے جائیں. اگر کوئی انگلی اٹھا کر (یہ اس وقت پیشاب جانے
کی اجازت چاہنے کا سمبل ہوتا تھا ) کھڑا ہو جاتا تو آپ کہتے ایں او خدا نیا
بندیا موتر فیر وی ہوئی جاسی اے سبق فیر توہی کن پڑھاسی. ہماری کلاس کے
پہلے بینچوں پر وہی لڑکے بیٹھا کرتے تھے جو کچھ لائق ہوتے تھے. کیا زمانہ
تھا کہ خود بخود ہی طالب علم اپنے لیول میں آ جاتا تھا . ہم میں سے اقبال
محفوظ محضود اور نعیم ملک(اب کرنل کے عہدے پر فائز ہیں) پہلے بینچ پر اور
باقی قابلیت کے لحاظ سے بلترتیب پیچھے آتے جاتے تھے، یوں یہ ترتیب ہم( سیری
والوں) پر آ کر ختم ہوتی. بشیر احمد صاحب جب ہمیں یوں کلاس کے آخری کونے پر
دیکھتے تو بڑے کڑتے. سب سیری والوں کا مشاہدہ کرتے پھر مجھے کہتے، اوے گل
زیب اے تہوڑے سنگی ساتھی سارے کامیاب اے ہن تے کامیاب ہی رہسن پر توں ماریا
جاسیں . اگلی قطار میں بیٹھا راجہ محفوظ جو ہمارے ساتھ بنڈلی یا کسی دوسرے
اسکول سے آ کر داخل ہوا تھا بہت کم گو تھا وہ لائقوں میں شامل ضرور تھا
لیکن سنانے والے سبق میں اکثر اپنی کم گوئی کی وجہ سے مار کھا جاتا تھا.
بشیر احمد صاحب کہتے جے بولسیں نہ تے کہہ پتہ لغسی توہی کہہ ہشنا اے. وہ
کھڑا ہوتا کچھ سوچتا پھر سنانا شروع کر دیتا. نہایت فرمانبردار قسم کا یہ
شاگرد تقریباً سب کو ہی اچھا لگتا. اس کا ہر اسٹائل ہی وکھرا تھا، وہ بینچ
پر یوں بیٹھا کرتا تھا جیسے بینچ نہیں پارلیمنٹ کی کرسی پر بیٹھا ہو، ماتھے
پر ہمہ وقت دو تین شکنیں ڈالے بلیک بورڈ کو یوں تکتا جیسے بورڈ کے پیچھے
کچھ دیکھنےکی جستجو رکھتا ہو . وہ دیکھتے دیکھتے تھک جاتا تو گردن کو ٹیڑھا
کر کے کندھے کے ساتھ یوں لگاتا کے کڑ کڑ کی آوازیں نکلتی . ماسٹر جی کی ہر
ہر ایکٹیویٹی کو یوں دیکھتا جیسے اگلا پریڈ اسی کا ہو، اس کے دائیں بائیں
دیکھنے یا ہنسنے کا اسٹائل ہیڈ ماسٹر اقبال صاحب(جو بعد میں ڈائریکٹر جنرل
ریٹائرڈ ہوئے) والا تھا ہنسنا کم اور منہ کچھ دیر یوں بنائے رکھنا جیسے
ابھی ہنس ریا ہو . اسی طرح گردن کے ساتھ باڈی کو بھی تھوڑا گھما کر دیکھتا
. بشیر احمد صاحب اس کی یہ حرکتیں نوٹ کرتے رہتے . ایک دن بشیر احمد صاحب
اس کو یوں پلکیں جھپکائے بغیر آنکھیں بورڈ میں مرکوز دیکھتے ہوئے کہنے لگے
برخوردار لغنا اے کج عرصے بعد ضرور مہاڑی کرسی اپر توں ہوسیں . ہم سوچتے
شاید اسے سزا ملنے والی ہے ، دوراندیش لوگوں کی باتیں کب ہمیں سمجھ آتی
تھیں البتہ ہم تصور میں وہ پوزیشن ضرور دیکھ رہے ہوتے جو بینچ پر ایک ٹانگ
کے سہارے کھڑا ہو کر بنائی جاتی تھی. آپ کلاس کو متوجہ کر کے محفوظ کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے کہتے ایسے لوگوں کی زندگی سنگھرش ہوتی ہے وہ ہر وقت کچھ کر
گزرنے کی سوچتے رہتے ہیں. ہم محفوظ کی ڈھلی ڈھالی سی طبیعت اور باڈی کو
تکتے اور سوچتے آ اے وی کج کرسی. دو تین سال مہینوں کی طرح گزر گے راجہ
محفوظ آٹھویں کے بعد کھوئیرٹہ ہائی اسکول میں داخل ہو گیا پھر اس سے ملاقات
بھی بہت کم ہوتی کب دسویں پاس کی، آگے کیا کیا ان تمام حالات سے ہم بے خبر
رہے. ہم سوزوکیوں کے اڈے پر کھڑے ہوتے تو وہ انٹر کالج کے باہر سے گزرتے
کبھی کبھار دیکھا بھی تو یہی سوچا شاید ابھی پڑھ رہا ہے . کافی عرصہ گزر
چکا تھا میل ملاپ بھی ختم ہو گیا تھا جب ہم نے محفوظ نام کے ساتھ ماسٹر کا
لفظ سنا ،
ہوا یوں کہ سالانہ امتحان ہو رہے تھے اور ہمارے ایک کزن کا بیٹا جو سپلی کے
چانس بھی مکمل کر چکا تھا، وہ بھی امتحان دے رہا تھا، کزن خود ٹیچر تھا اور
اسی سنٹر میں نگرانی کے فرائض بھی انجام دے رہا تھا، سب کہنے لگے اب تو
مشکل نہیں . لیکن،،،،، یہ ایسی لیکن تھی جس نے سب کو متوجہ کر لیا، یہ لیکن
کہنے والے ہمارے کزن ہی تھے جن کی "لیکن" کو ایک ساتھ ہی تقریباً سات افراد
نے ادا کیا ،اب اپنی لیکن پر کزن بھی نادم تھا لیکن اس نے سلسلہ کلام چند
ہی الفاظ میں مکمل کر دیا . وہ کہنے لگے مشکل واقعہ نہ ہوتی اگر مولوی
محفوظ نہ ہوتا. کسی نے کہا کیا مولوی بندے کھاتا ہے تو کزن نے کہا بندے
کھاناں نہی اے بندے کڈھناں اے. ہم نے نام پھر مولوی سنا تو دفعتاً سوچوں کی
سوئی راجہ محفوظ پر جا اٹکی کچھ حلیہ بیان کرتے ہوئے پوچھا وہ والا محفوظ
تو نہیں،کزن کہنے لگا بالکل بالکل وہی ہے. پوچھا کیا اس کے اختیارات آپ سے
زیادہ ہیں کہنے لگے کیہ آخنے او جی او سنیئر ٹیچر اے،.،، نہ وی ہووے تے فیر
وی بڈا سخت ہے کہہ مجال اے قانون توں ہٹی تے کوئی گل کری جائے یا کرن دہے.
جان کر خوشی ہوئی اور کہا ہمیں اس کا کلاس فیلو ہونے کا شرف حاصل ہے . سب
کہنے لگے وہ تو یہی کھوئیرٹہ پڑھتا رہا ہے . ہم نے کہا آپ بجا کہتے ہیں
لیکن غلط ہم بھی نہیں ، ہم نے مڈل حصہ ایک ہی اسکول میں پڑھا ہے . وقت
گزرتا گیا راجہ محفوظ سینئر سے سینئر تر ہوتا گیا.
بھلا ہو انٹرنیٹ کا جس نے جہاں بہت ہی قریبی رشتے دور کر دیے ہیں وہی اس نے
زمین کو سمیٹ کر ایک طشت میں رکھ دیا ہے. وہ بات جو پڑوسی کو معلوم نہیں
ہوتی امریکی ریاستوں میں پہلے پہنچ چکی ہوتی ہے. گزشتہ برس کی بات ہے کہ
شاعر و پولیس سب انسپکٹر ذوالفقار عارش کی دادی وفات پا گئیں. میں گھر
والوں کی خیر خبر لے رہا تھا جس کا بھی پوچھا وہ گھر ہی ملا، ناراضی کا
اظہار کرتے ہوئے کہا بھئی بہت افسوس کی بات ہے محلے میں فوتگی ہو گئی ہے
اور تم لوگ گھر میں گھسے بیٹھے ہو. نیک بخت کہنے لگی ہمارے محلے میں تو
کوئی فوت نہیں ہوا اور نہ ہی مسجد میں کوئی اعلان ہوا ہے.کہا اللہ تمہارے
نصیب اچھے کرے بےجی شیخنی(محلے بھر کی معمر خاتون تھیں نام بہت کم لوگ
جانتے ہیں بس بےجی شیخنی ہی سارے کہتے تھے) فوت ہو گئیں ہیں. سن کر ہائے یہ
کیا کہتے ہیں، کہتے ہوئے تعجب کا اظہار کرنے لگی . کہ دس گھروں کے بعد ہی
تو ان کا گھر ہے اور ہمیں پتہ تک نہیں. آپ کو کب پتہ چلا؟ ہم نے کہا ہمیں
آدھا گھنٹہ ہو چکا ہے پتہ چلے ہوئے. یہ بے جان انٹرنیٹ کا کمال اور اور
زندہ انسانوں کی بے حسی ہی کہہ لیں کہ بغل میں بچے کا پتہ نہیں اور ستاروں
پر کمندیں. اس دن ہم سوچ رہے تھے کے واقع جدت آ گئی ہے.
انٹر نیٹ ہی کا دور ہے سارا کچھ تو ایک چھوٹی سی کلک میں آ گیا ہے . یوں ہی
ایک دن ماسٹر شفیق کی فیس بک پر اپلوڈ کی ہوئی فوٹو ہماری کلک میں آگئی اور
دیکھا کہ اسکول کے گراونڈ میں پھولوں کی کیاری کے ساتھ بنی پگڈنڈی پر کوئی
ٹیم گھوم رہی ہے جو غالباً معائنہ ٹیم ہی تھیر11 ساتھ چھوٹی سی تحریر میں
لکھا تھا کہ صدر معلم مہمانوں کے ساتھ ----، فوٹو ذوم کر کے دیکھی تو صدر
معلم کوئی دھندلے سے نظر آئے ایکسٹرا ذوم لیا لیکن کچھ خاص فائدہ حاصل نہ
ہوا تو انبکس میں ماسٹر شفیق سے پوچھ لیا کہ صدر معلم کون ییں . ان کی
ریپلائی سے نام کا تو پتہ چلا لیکن کچھ ابہام باقی رہا. فیس بک والی فوٹو
پر ہزاروں کمنٹس تھے لیکن ان کے جواب میں بھی شفیق ہی کچھ شفقت سے تو کچھ
خلوص سے لکھتے رہے، کہیں بھی صدر معلم کی طرف سے کچھ پڑھنے سننے کو نہ ملا
. البتہ تصاویر سے اسکول کی حالت روز بروز بدلتی نظر آتی رہی . تجزیہ کار
بھائیوں نے دل کھول کر لکھا، تنقید پہ تنقید کی غریب بچوں سے جبراً چندہ
لینے کی باتیں لکھی تو کہیں فنڈز میں خورد برد کرنے کا حوالہ دیا گیا. لیکن
سانچ کو آنچ نہیں کہ مصداق کسی کو جواباً کچھ نہیں کہا گیا . سرکاری
اسکولوں سے تعلیم یافتہ سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی نہ جانے کب سے دیکھ
رہا تھا لیکن کچھ کر گزرنے کو اختیار نہ تھے . اس کے اندر کتنی قابلیت ہے
آج کے گروپ بندی برادری ازم اور میل ملاپ کے دور میں کون دیکھتا . لیکن ایک
ذات ایسی ضرور ہے جو صرف قابلیت نیت اور عزم دیکھتی ہے . آخر اسی مالک
الملک نے وہ اختیار سونپ دیے جن کی وجہ سے انسان کچھ کر سکتا ہے. ماسٹر
بشیر احمد صاحب کی وہ پیشن گوئی سامنے آئی کہ کل مہاڑی اس کرسی اپر توں
ہوسیں. بلکہ اس سے اوپر والی کرسی ملی انتظامی صلاحیتوں سے بھرپور راجہ
محفوظ آج اس بےترتیب سے سکول لان کو ہموار کرا کے پھولوں بھری راہداریوں سے
آراستہ کر رہا تھا .
اپنی باریک بینی میں مشہور راجہ محفوظ میں دور اندیشی بھی انگ انگ میں بھری
پڑی تھی. اپنی اسی دور اندیشی کی بنا پر انہوں نے اپنی معاونت کے لیے
صاحبزادہ مطیع الرحمٰن جیسے پارسا رفیق کا انتخاب کیا.
کہا جاتا ہے نیت صاف ہو تو منزل آسان ہوتی ہے بس اللہ نے زبان میں تاثیر
بخش کر منزل کی طرف گامزن راہیں آسان کر دی . یہ آپ کی زبان اور عمل کا ہی
درا و مدار تھا کہ آٹھ گھنٹے کی مسلسل محنت کے بعد رات تک مستری یونس (
مہاجر کالونی والے) فی سبیل اللہ کے تحت کام کرتے دن اور رات کی شفٹ میں
کام کرنے والے چپڑاسی بھائیوں نے اپنی آفیشل ذمداریاں نبھا کر اس کار خیر
میں بغیر کسی اجرت کے حصہ لیا . جس سے جتنا ہو سکا اس نے کیا. خود راجہ
محفوظ کا یہ حال تھا جب سے صدر معلم بن کر آئے تھے دفتری ٹائم سے ایک گھنٹہ
ایڈوانس آنے کا معمول بنا لیا تھا، جب کہ واپسی کا وقت سورج ڈوبنے کے بعد
کا کبھی بھی ہو سکتا تھا . آپ کی دن ڈھلے واپسی پر آپ کے اہل خانہ بھی
نالاں تھے، دبی زبان میں کہتے چنگا عہدہ لبھا کہ کہر ہشنا ہی پلہی گے ہن .
پہاڑ جیسے بڑے پروجیکٹ پر کام کرنے کے باوجود کبھی تھکن یا کوفت کو قریب سے
پھٹکنے بھی نہ دیا . اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں بھی ساتھ ساتھ تھیں . پہلا
پریڈ ختم ہونے سے پہلے پورے اسکول کا معائنہ تو روزانہ کا معمول تھا ساتھ
ہی اساتذہ کی کار کردگی بھی یقینی چیک ہوتی تھی.
بہت سے لوگ کاغذی کاروائی میں سرکاری نوکری کر رہے ہوتے ہیں. ان میں سے کچھ
ایسے بھی ہوتے ہیں جھنوں نے پوری مدت ملازمت کے دوران اپنا ادارہ تک نہیں
دیکھا ہوتا اور ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں . ایسے ہی ایک گریڈ فور کے آدمی سے آپ
کا واسطہ پڑا تو آپ نے اسے صبح ڈیوٹی پر حاضر ہونے کا کہا ، اس نے کسی وزیر
کا ریفرنس دیا . آپ نے کہا کل وقت پر آ جانا نہیں تو اس سے پہلے کی لی ہوئی
تنخواہیں بھی اسی منسٹر کے حکم سے تمہیں واپس جمع کروانی پڑھیں گی. بس اتنی
سی بات تھی کہ دوسرے دن وہ آپ سے بھی پہلے پہنچ چکا تھا . راجہ محفوظ یوں
تو سیدھے سادے سے آدمی ہیں لیکن بندوں کو گرویدہ بنانے کا گر نہ جانے کس سے
اور کہاں سے سیکھ چکے تھے، جس آدمی (چودھری ولایت گوڑھے والآ) سے سریا سمنٹ
لیتے تھے وہ بھی اتنا فدا ہو چکا تھا کہ ریت بجری کی کچھ ٹرالیاں زاد راہ
کے طور پر دیتا تھا. ہوٹل والا کسی دن کہتا آج دوپہر کا کھانا میری طرف سے
یعنی فری ہو گا.
بندہ خاکم فارغ التحصیل ہونے کے بعد صرف کسی جنازے کے ساتھ ہی اسکول کے
گراونڈ تک جاتا رہا، اس دن بھی نماز جنازہ کی ادائیگی کے لئے ہی اسکول جانا
ہوا تھا جس دن راجہ محفوظ ملے .سوچا بڑے افسر ہیں شاید مصافحہ پر ہی اکتفا
کریں لیکن یہ میری بھول تھی انہوں نے بغلگیر کر لیا بھلے میرے گلے لگنے کے
لیے انہیں چھوٹا ہونا پڑا(کیونکہ میری ہائیٹ ان سے کم تھی) لیکن گلے لگا ہی
لیا. پھر دو تین اور دوستوں سے ملنے کے بعد مجھے ہاتھ سے پکڑے ہوئے آفس میں
لے گے جہاں قریب کی نشست عطا کی. موجودہ دور کا پہلا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ
میزبان سے پوچھا جائے سام سانگ یا نوکیا کا چارجز ہے، تریہہ سچا( تھری پین
ایکسٹینشن)اے آ، یا فیر تساں ناں واٹس اپ (واٹس ایپ) نمبر کہہ آ. سو ہم نے
بھی ریت برقرار رکھتے ہوئے پوچھ ہی لیا آپ کس نمبر سے واٹس ایپ یوز کرتے
ہیں یا فیس بُک اکونٹ کیا ہے، کہنے لگے " جی میغی انہاں گلاں ناں کوئی پتا
نہے، البتہ مطیع صاب اسنے بارے وچ کج باہنے رہنے ہس". کہا ان سے کچھ بنوا
لینا تھا،جواباً کہنے لگے ٹیم کدوں ہس. انہوں نے ہماری تواضع کے لیے چائے
پانی کا چپڑاسی سے کہا اور خود کچھ کاغذات کو ڈراور سے نکالنے میں مصروف ہو
گئے. اسی لمحے ہم نے پوچھ لیا آپ چھٹی کب کرتے ہیں، وہ ابھی بولے نہیں تھے
کہ چپڑاسی نے دبی زبان کہا کوفتاں( عشاء) آلے . پھر وہ خود کہنے لگا اگر
کھٹ(کھاٹ) ہوتی تو کہہ پتہ رات وی اتھے ہی گزارتے. چپڑاسی کی بات پر ہم سب
تو ہنس ہنس لیے لیکن آپ نے عینک کے اوپر سے دیکھنے پر ہی اکتفا کیا. وہ
معلمین کی صدارت والی کرسی پر براجمان تھے میری نظریں آفس میں لگے اس بورڈ
پر تھی جس پر اس کرسی سے سبکدوش یا ٹرانسفر ہونے والوں کے اسماء کندہ تھے
لیکن ابھی تک آپ کا نام وہاں مرصع نہیں ہوا تھا. راجہ محفوظ نے چپڑاسی سے
ایک دو کلاس روم کھولنے کو کہا پھر ہمیں ساتھ لے کر وہاں گے. کلاس رومز میں
جانے کے لیے بہترین راہداری بنی ہوئی تھی. اسکول گراونڈ جہاں کبھی بے ترتیب
سے پتھر روہڑے پڑے ہوتے تھے سرسبز گھاس سے آراستہ تھا . مور پنکھ کی قطاروں
میں سیمنٹی بینچ بنائے گے تھے . پھولوں بھری کیاریوں کی آب پاشی کے لیے نل
لگوا کر زیر زمین پانی کے پائپ ڈالوا رکھے تھے. آبیاری کے لیے چپڑاسیوں کو
گرونڈ کے چاروں کونے بانٹ رکھے تھے. بڑی کلاسز کے بعد ایک روم وہ بھی
دیکھایا جو پلے گروپ والوں کے لیے تیار ہو رہا تھا. ہمارے علاوہ سبھی ساتھی
اسی پیشہ سے منسلک تھے لیکن پھر بھی سیٹنگ پلان آپ نے ہم ہی سے ڈسکس کیا .
ہم نے ایک رونڈ ٹیبل کے ساتھ چار چیئرز لگا کر عملی نمونہ پیش کیا جسے سب
نے پسند کیا. کلاس روم سے نکل کر چلتے چلتے وہاں آئے جہاں بچوں کے لیے
جھولے لگے تھے. ساتھ ہی ایک سلائیڈز بنانے کا عمل شروع تھا جہاں مستری یونس
ایک مزدور(غالباً وہ بھی چپڑاسی تھا)کے ساتھ مصروف تھا. یہ وہی جگہ تھی
جہاں اوٹا ہوا کرتا تھا، وہاں پونچنا ہی تھا کہ ہمیں پینتیس سال پہلے والی
وہ کلاس یاد آگئی جس میں آتے ہی بشیر احمد صاحب کہا کرتے تھے "مطالعہ
پاکستان نکالیے". یہی وہ جگہ تھی جہاں کھڑے درویش منش ماسٹر جی نے راجہ
محفوظ سے کہا تھا "کل مہاڑی اس کرسی اپر توں ہوسیں". ساتھ ہی ہمیں ان کا
مخاطب کر کے کہنا کہ ایسے لوگوں کی زندگی سنگھرش ہوتی ہے یاد آیا. محفوظ
صاحب کو میں دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ محفوظ آپ کو باتیں تو یاد نہیں لیکن
عملی جامہ پہنا رہے ہو . کیونکہ انہوں نے زمانہ طالب علمی کی کوئی بات نہیں
دھرائی ماسوائے اس کے کہ انہوں نے دوسرے ساتھیوں سے کہا کہ ہم دونوں کلاس
فیلو ہیں. دو تین دن بعد ہمارا پروگرام تھا کہ ایک ملاقات کی جائے جس میں
کچھ پرانی باتیں بھی شامل ہوں، اس سوچ سے گھر سے نکلے لیکن رستے میں ہی خبر
ملی کہ راجہ صاحب کی ٹرانسفر کھوئیرٹہ ہو گئی ہے، یوں ایک زندگی سنگھرش ہے
کی داستان ادھوری رہ گئی. |