آسمان کے جسم پربے شمار ننھے منے بادل گُد گُدا رہےہیں
جسکی وجہ سے افق کے رخسار پر سُرخی مائل ہلکی ہلکی مسکراہٹ چھائی ہوئی ہے
کھمبوں کے مابین معلق تاروں سے لٹکے چمکادڑوں کے مردہ لاشے اس بات کا یقین
دلا رہے ہیں کہ یہ تاریں واقعی بجلی کی ہیں اور یہ کہ حکومت وقت بہر حال
اپنی عوام کو بجلی جیسی نایاب شے مہیا کر نے میں بالکل غفلت نہیں بھرت رہی
مگر صد افسوس کہ انکے اس عمل نے کائنات کے دوسرے جانداروں کے اسقدر اعتماد
کو ٹھیس پہنچائی نتیجتاً ایک بار پھر چرند پرند کا بشریت سے اعتبار اُٹھ
گیا۔
مگر واپڈا حُکام کے چند دقیانوسی دلائل و براہین کے باب میں آج سے ایک اور
دلیل ثبت ہو گئی کہ بجلی نے ان تاروں میں بہنے کا شُغل ابھی تک ترک نہیں
کیا ہے چنانچہ وہ ابھی بھی ماہوار بل وصولنے کاپورا پورا حق محفوظ رکھتے
ہیں۔
گلیوں کوُچوں میں آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے۔۔
خاکروب لمبے لمبے ڈنڈوں پر نصب اپنے جھاڑو کو بڑی بے دلی کے ساتھ گھما گھما
کر گزر گاہوں پر پڑی دھول اور گرد کو گھروں کے دالانوں کا حصہ بنانے میں
مصروف ہیں اور اکا دکا کوڑے کے ڈھیر بھی لگا رہے ہیں تاکہ سند رہے کہ وہ
بلا چون و چرا اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
کچھ ادھیڑ عمر نمازی ہاتھ میں تسبیح لیے مساجد سے سیدھا پارکوں اور کُھلی
جگہوں کا رخ کر رہے ہیں، واضع رہے کہ انکی تسبیح پھیرنے کی رفتار میں بالکل
بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی اگر وہ کھانس رہے ہوں ، جمائیاں لے رہے ہوں یا
کسی واقف کار کو چلتے میں سلام ٹھونک رہے ہوں۔۔
کچھ بھاری بھرکم خواتین بھی پارکوں کی طرف گامزن ہیں اور مجال ہے کہ ایک
ثانیے کو ہی ذرا چپ سادھ لیں، ٹر ٹر ٹر ٹر!!، ہاں شاید پیٹ ہی تو ہلکا کرنے
آتی ہیں۔۔
تمام لونڈے ابھی تک محو استراحت ہیں جنکی مائیں انکو یوں جھنجھوڑ جھنجھوڑ
کر جگا رہی ہیں کہ جیسے بارڈرپر جنگ اپنے عروج پر ہے اور موصوف اس جنگ کے
آخری سپاہی بچے ہیں جنہیں ملکی سلامتی اور استحکام کی خاطر اٹھنا ہی ہوگا
مگر یہ صاحب چونکہ فطری طور پر امن پسند واقع ہوئے ہیں چنانچہ وہ جواباً
ہُو ں ہاں کرنے کے علاوہ اور کوئی بھی عمل کرنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں
کررہے۔۔
ہاں چند ایک لونڈے جن کی مائیں انکو خواب غفلت سے جگانے میں کامیاب رہیں وہ
اب راستوں پر رواں دواں ہیں مگر مجال ہے کہ کسی کے بھی چہرے پر بشاشت نام
کی کوئی چیز ہو، حالت ایسی ہے کہ گویاقومے میں ہیں اور جمائیاں یوں لیتے
ہیں کہ گویا جبڑا ہی توڑ لیں گے،اور آنکھیں صرف اتنی ہی کھول رکھی ہیں کی
راستہ دکھتا رہے مگر نیند نا اکھڑ ے اور دہی گھر لے جا کر دوبارہ نیند کا
سلسلہ وہیں سے جوڑ ا جا سکے جہاں سے ابھی توڑ کر آئے ہیں مگر اس کے باوجود
سڑک پر یوں اترا کر چل رہے ہیں کہ گویا سویرے اٹھ کر مملکت پاکستان کی
تاریخ کا بہت ہی کوئی اچھُوتا کارنامہ سر انجام دے دیا ہو اور مُنڈی میں اس
قدر تناؤ پیدا کیا ہوا ہے ک جیسے کوئی صاحب بہادر اپنے حلقے کے نادارو
مساکین کے لیے امداد کا اعلان کرنے کو نکلے ہوں۔۔
ننھے منے بچے سپارہ پڑھنے کے بعد جمائیوں پہ جمائیاں لیتے ہوئے بوجھل قدموں
کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو رواں دواں ہیں اور راستے میں کہیں کوئی
اونگتاہوا بلُونگڑا نمودار ہو جائے تو اسکی شامتِ اعمال ان کے ہاتھوں تہہ
ہے اور جب تک وہ چونکڑیاں بھرتا ہوا روپوش نا ہو جائے تب تک اسکی جان بخشی
ممکن نہیں۔۔
مچھر میاں مکھیوں کو ڈیوٹی کی حوالگی کے بعد کونوں کھدروں میں گھسنے کی
تیاری کر رہے ہیں اور یہ محترمائیں بھی بھن بھن کرتی آبادی میں وارد ہو
چُکی ہیں اور گھروں کے چھجوں اور چوراہوں میں پڑے ابھی تک خواب خرگوش کے
مزے لوٹنے والوں کی نیند حرام کرنے میں مصروف ہوگئی ہیں اور جواباً اپنی
شان میں صلوٰتیں اور قصائید سننے کا فرض بھی کمال ڈھٹائی سے ادا کررہی ہیں۔
سورج میاں ابھی تک پڑے اونگھ رہے ہیں۔
بازار میں اکا دکا دوکانیں کھلی ہیں جہاں قوالوں نے دھونس جما رکھی ہے،
کہیں اُستاد نُصرت صاحب کا شکوہ گونج رہا ہے تو کہیں کوئی قوال 'چڑیاں بول
دیاں، بول دیاں ' کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔
ناشتے والوں نے اپنے دیگچے چولہوں پر چڑھا رکھے ہیں جن کے اوپر پڑی بڑی بڑی
ہڈیاں اپنے شاندار ماضی کی یاد دلارہی ہیں۔۔ اور چاولوں والے دیگچے میں سے
ایک تناسب تین کے حساب سے چاول پیالوں میں ڈال کر دیے جارہے ہیں مثلاً اگر
ایک چمچہ چاولوں کا ڈالنا مقصود ہو تو اسکے لیے دیگچے کو تین مرتبہ خالی
ضرب لگائی جائے اور چوتھی باری پر تھوڑے سے چاول چمچے پر سوار کرکے پیالے
کے ترسے ہوئے دہانے کی نذر کردیے جائیں۔
حلوہ پوری والے کی کڑاہی میں سے آنے والی شڑ ڑ ڑ شڑ ڑ ڑ کی آوازاور پوریوں
کی سوندی سوندی خوشبو کا پورے بازار میں دور دورہ ہے جوکہ متوالوں کی طبیعت
کو گُد گُدا رہے ہیں۔۔
شب بھر بے سُری اور سمع خراش محفل موسیقی لگانے والے کچھ ڈھیلے مزاج کے کتے
اور پِلّے اپنی نیند ہوری کر چُکنے کے بعد چھابڑی فروشوں کےپھٹوں اور
ریڑیوں کے نیچے سے برآمد ہورہے ہیں اور ہلکی ہلکی بخ کی آواز نکالتے ہوئے
خوب شانِ بے نیازی کے ساتھ اپنی اپنی مشق میں مصروفِ عمل نظر آرہے ہیں۔۔
ساری رات خرمستیاں اور ہوائی سفر کرنے والے کچھ بھنگی حضرات ابھی تک ٹھنڈی
سڑک کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔۔
گاؤں سے آنے والی پہلی لاری اپنی سواریوں کو اُتار رہی ہے جس میں سے نصف سے
زیادہ کے اندر صابری قوال کی روح مچل رہی ہے چنانچہ ہ حضرات بھی زیر لب اس
کی وہی دھن گُنگناتے جارہے ہیں جوکہ دورانِ سفر بس ڈرائیور کی طرف سے
زبرستی ان پر وارد کی گئی تھی۔
سورج میاں کی نیند میں مخمور آنکھ کھل رہی ہے، فلک کے دامن پر روشنی کی
کرنیں پھیلنے لگی ہیں، گلیوں میں روشنی کی لَو ایک سرے سے دوسرے سرے تک
پھیل گئی ہے۔۔ |