ماسٹر ولایت حسین

سیری نالا بان سے کیا گیا اقتباس (یاداں)

جس طرح ابن آدم کو ذات پات کے امتیاز نے کنمبے قبیلے میں بانٹ کر رکھ دیا ہے اسی طرح زمین پر بہتے دریاؤں سمندروں نے نہ صرف زمین کو براعظموں میں بانٹ دیا بلکہ چھوٹے چھوٹے ندی نالوں نے بڑے بڑے علاقوں کو گاؤں محلوں اور قصبوں میں تقسیم کر کے مختلف ناموں سے پہچان دے دی. یہی ندیاں نالے گاؤں قصبوں کی سرحدیں بن گئے لیکن ان سرحدوں پر بسنے والے بھی کیاکمال کے لوگ تھے کہ ہر گام اپنی داستانیں رقم کر گے .
سیری اور گائیں کے بیچ میں سے گزرنے والی کسی(ندی) کو گیائیں والی کسی کہا جاتا ہے یہ کسی نہایت ہی مختصر سفر کے بعد نالا بان میں مل جاتی ہے لیکن تعجب کی بات ہے کہ اس کا آغاز سیری والے کھوکھروں کے جبر میں ماجود ایک ڈبہورے سے ہوتا تھا . یہ ڈبہورا کبھی اپنے ہی اندر سے پھوٹنے والے پانی سے لبریز تھا.
جب سے حضرت انسان کی پوٹلیاں گناہوں کی گانٹھوں میں بدلنے لگیں تو پانی جیسی نعمتیں ہم سے روٹھ گئی. ایسی ہی ناراضی کے باعث رفتہ رفتہ ڈبہورا یوں سوکھا کہ اٹھارہ بیس سال کی عمر والے بچے اس ڈبہورے کو قصہ پارینہ سمجھنے لگے. جب منبع سوکھا تو ندی بھی سیری اور گیائیں کے درمیان کھنچی ایک لکیر بن گئی. اس کسی(ندی) کی جہاں سے شروعات ہوتی ہے اس سے کچھ ہی فاصلے پر ایک کنواں بھی تھا یہ کنواں دانے پسائی والی چکی کے لیے کام آتا تھا اس کاپانی نہایت ٹھنڈا تھا لیکن کبھی کسی کو پیتے نہیں دیکھا؛ بس اسی چکی کے لیے یا پھر گرمیوں میں نہانے کے کام آتا تھا . خدا کی قدرت سمجھ لیں کہ اس کنواں میں آج بھی پانی اتنا ہی ہے جتنا کہ تیس چالیس سال پہلے تھا. اب وہاں چکی ہے اور نہ ہی چکی کا نام و نشان باقی البتہ کنواں کچھ خود رو جھاڑیوں کے ساتھ آج بھی موجود ہے. یہاں سے کچھ نیچے اسی سیدھ میں ایک چشمہ تھا جس کو ماسٹر ولایت ہوراں نا چوا کہا جاتا تھا اس سے گیائیں والے ہی پانی بھرا کرتے تھے کیوں کہ اسی کے بلمقابل اس سے قدرے بڑا سیری والوں کا چوا بھی تھا اس کو کبھی کبھار رکڑی والا چوا بھی کہا جاتا تھا لیکن زیادہ تر یہ بغیر کسی نسبت کے ہی رہا . دونوں چوے آب شیریں سمجھے جاتے تھے . آر سیری اور پار گیائیں کی نسوانی روحیں چوے پر اترتی تو دیکھنے والوں کو جھیل سیف الملوک کی پریاں محسوس ہونے لگتیں. گرمیوں کے دنوں میں جب چوے کی طرف بعد از عصر جایا جاتا تو چوے کے اوپر والی پیلی(میدان) رنگ برنگ گھڑوں گھڑونچویوں ڈولے گڈووں سے بھری ایسی لگتی رہتی تھی. آب رسانی انہی دو چوووں سے ان دو محلوں کو ہوتی تھی روپیہ پیسہ آیا تو لوگ سہل ہو گئے گھر گھر ہینڈ پمپ لگے تو یہ قدرتی سر چشمے بے توجہی کے باعث گڑھوں میں بدل گے ماسٹر ہوراں کا چوا تو نہیں دیکھا لیکن سیری والوں کے چوے کا دید درشن کرنے جب وہاں جانا ہوا تو کوئی نشان باقی نہ پا کر انتہائی صدمہ ہوا پوچھنے پر پتہ چلا کہ سیری میں بسنے والے خاندان مغلیہ کے کچھ لوگوں نے یہ زمین خرید کر چوا بھر دیا ہے کہ زیادہ نہیں تو کلو دو کلو تل تو یہاں پر بھی کاشت ہو ہی جائیں گے. یوں ہندوؤں سکھوں کے دور کے بنائے گے قدرتی پانی کے ذخائر مسلمانوں کے ہاتھوں بند ہو گئے. جس چوے کو ماسٹر ولایت ہوراں نا چوا کہا جاتا تھا اس سے کچھ اوپر ہی ماسٹر جی کا گھر تھا جس وجہ سے اس چوے کو ان کی نسبت حاصل تھی .
ماسٹر جی نہ صرف محلے برادری کے سرکردہ شخص تھے بلکہ پوری وادی بناہ میں جانے پہچانے والی شخصیت کے مالک تھے . آپ کے فن تدریس سے بے شمار لوگ مستفید ہوئے آپ نے یہ شمع کم و بیش چالیس سال تک جلائی آپ کو مسٹر چیپس کی طرح یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ آپ سے آپ کے شاگردوں کے پوتے بھی زیور تعلیم سے آراستہ ہوئے آپ پوتے سے دادا اور دادا سے پوتا کا نام لے کر حال احوال پوچھ لیتے. آپ کے بہت سے شاگرد بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے لیکن خودداری کا یہ عالم رہا کہ کبھی کسی سے ملنے اس کے گھر یا دفتر نہیں گے . لیکن ان کی کامیابیکی وہ خوشی جو باپ کو ہوتی ہے ضرور محسوس کرتے. آپ نوے سال کی عمر میں تھے جب مصنف کو آپ سے ملنے آپ کے دولت کدے پر جانے کا اتفاق ہوا، جاتے ہوئے انہی سوچوں میں غلطاں رہا کہ پتہ نہیں تعارف کے کن کن مراحل سے گزرنا پڑے گا لیکن استاد محترم کے دانست پہ قربان جونہی ان کے سامنے ہوا قومیت کے ساتھ جی کا اضافی لگاتے ہوئے کہنے لگے"آو جی" فیملی کے جھرمٹ سے اٹھ کر مردان خانے کے برآمدے میں آئے جہاں ایک چارپائی اور ایک میز کے ساتھ چار کرسیاں پڑی تھیں، وسط مارچ کا دن تھا آسماں ابر الود ہونے کے باوجود موسم میں سرما والی خنکی نہ تھی تاہم آپ نے خیس نما ایک کالی سے ردا اوڑھ رکھی تھی. چارپائی کے سرہانے دو تکیے اور درمیان میں ایک موٹا سا لحاف کچھ ایسے انداز میں پڑا تھا جیسے اس میں کوئی آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا . آپ بھی اسی چارپائی پر بیٹھ گے جو غالباً آپ ہی کی تھی. کرسیوں اور چارپائی کے درمیان رکھی میز پر جگ اور دو گلاس پڑے تھے. آپ نے حال احوال پوچھتے ہوئے جیب سے سگریٹ کی ڈبیہ نکالی اور کھنکیوں سے مجھے
دیکھتے ہوئے سگریٹ سلگائی . سلسلہ کلام کا آغاز اس بات سے کیا کہ آپ کو سیری بازار گئے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہو گا، دھواں چھوڑتے ہوئے کہنے لگے دو سال سے نہیں گیا . پوچھا اتنے طویل عرصے سے چپہ بھر دور سیری سے کیسے ناتا ٹوٹا کہنے لگے ہائی بلڈ پریشر، ہائی شوگر اور گھٹنوں کا درد ہی اڑے آئے ورنہ ہم کب رہنے والے تھے. ماسٹر جی کی بیماریوں کا سن کر چہرے کو غور سے دیکھا یقین کیجئے کہیں بھی بیماری کا شائبہ تک نہ تھا. آپ کے پر اطمینان چہرے کو دیکھ کر سوچا پروردگار تو جیسے چاہے کر سکتا ہے یہ طویل العمری یہ بیماریاں اور یہ پر اطمینانی. سبحان اللہ، پوچھا اب کیا صورتحال ہے کہنے لگے اللہ نے اپنے کرم سے دو بیماریوں سے چھٹکارا دے دیا بس مصلحت کی بنا پر یہ ( گھٹنوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے) درد باقی رہنے دیا . اللہ اس درد سے بھی نجات دے میں نے کہا تو ممنونیت بھرے انداز میں انہوں نے آمین کہا. پوتا( شہزاد) چائے لے آیا تو کپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہوئے کہنے لگے چاہ پی کینو ٹھنڈی ہوئ جاسی. آپ نے بھی چائے پی اور کپ رکھتے ہی سگریٹ کی ڈبیہ اٹھائی جسے بنا دیکھے ہی کھول کر سگریٹ نکالنے لگے ایک دو بار اس میں سے سگریٹ نکالنے کی کوشش کی جب ہاتھ ناکام لوٹا تب ڈبیہ سامنے کر کے دیکھی جو خالی ہو چکی تھی آپ نے شہزاد سے کہا یرا اوتھے تکیاں ڈبی پئی ہوسی، شہزاد نے فوراً وہاں سے سگریٹ کی ڈبیہ اٹھا دی اب کی بار سگریٹ سلگانے لگے تو آز راہ مہمان نوازی صرف اتنا پوچھا تساں تے نہی چھکنے. جس کے جواب میں میں نےبالکل اسی انداز میں گردن دائیں بائیں ہلاتے ہوئےانکار کیا جس طرح سکول میں کیا جاتا تھا. باتوں کا سلسلہ آپ کے رتبے اور مزاج کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جاری رہا چائے کا گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے پوچھا کوئی ایسا شاگرد جو آپ کو یاد آتا ہو، کہنے لگے یوں تو سبھی یاد آتے ہیں کیوں کہ اب نیند بہت کم آتی ہے اور رات کو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تمام جان پہچان والے آنکھوں کے سامنے جاتے ہیں لیکن ایک ایسا ہے کہ جو سب سے الگ تھلگ ہے ، وہ کیسے ؟ میں نے پوچھا . کہنے لگے اس لیے کہ باقی جاگتے میں یاد آتے ہیں اور وہ مجھے اکثر جگا کر یاد آتا ہے، کوئی خاص ہو گا ! ہاں وہ اس وجہ سے خاص ہے کہ اس کے ساتھ مجھ سے زیادتی ہوئی تھی. وہ یوں کہ میں جب بھی سیکڑوں کے حساب سے رقم بولتا وہ دو صفر لگا کر ہزاروں میں لکھ دیتا . وہ دو سو چھ کو دو صفروں کے ساتھ( یعنی دو ہزار چھ) لکھتا تھا ایک دو بار سمجھایا جب دوسرے دن پھر اس نے ایسا ہی کیا تو میں معلم کی صبر اور درگزر والی خوبی کو بھول کر اسکی ٹائی کیندا( نیچے گرا لیا) بہت مارا یہاں تک کہ ہاتھوں کے نشان اس کے چہرے پر نقش ہو گئے. دانتوں سے خون بھی نکلا لیکن وہ تھا کہ آداب شاگردی کو اپنائے ہوئے آگے سے ہلا بھی نہیں .......( ایک لمبی سانس چھوڑنے کے بعد) اس بات کا زیادہ دکھ دوسرے دن چھٹی کے وقت ہوا جب اس کے گھر سے کوئی شکایت کرنے سکول تک نہ آیا ،آواز دے کر اسے پاس بلایا
اور پوچھا تم نے گھر والوں کو نہیں بتایا تھا کہنے لگا نہیں. کیوں میرے کیوں پر کہنے لگا تساں استاد ہو تساں صحیح ہی ماریا ہوسی . بس جی اس کے یہ الفاظ آج بھی جگا دیتے ہیں. کیونکہ اس نے استاد کہہ کر میرے فرائض مجھے یاد کرا دیے تھے، میرا کام اس کی بار بار اصلاح کرنا تھا لیکن میں نے اس کے الٹ کر دیا بس اس کی یاد آج بھی انہی الفاظ کے ساتھ آتی ہے کہ تساں استاد ہو. میں نے عرض کی کیا میں اس شاگرد کا نام پوچھ سکتا ہوں کہنے لگے وہ قاضی پذیر ( مصنف کا ماموں) تھا. میں آج بھی جب اسے دیکھتا ہو تو اس کی وہ بات بلکہ وہ وقت بھی یاد بن کر آ جاتی ہے اور میں سوئے ہوئے بھی جاگ جاتا ہوں. ماسٹر جی نے چائے کا گھونٹ اس انداز میں لیا جیسے ماضی کو ہونٹوں میں سمو لیا ہو. ان کا یوں یہ واقعہ بیان کرنا ان کا مقام کتنا بلند کر گیا اتنا بلند کہ جس کی بلندی چشم مصنف سے بہت بلند تھی . ان کی اس یاد سے پتہ چلا کہ وہ کتنے فرض شناس انسان رہے ہیں کہ اپنی چھوٹی سی کوتاہی کو ساٹھ سال گزرنے کے باوجود بھی نہ بہلا سکے .
آپ کا تعلق جاگیر دارانہ گھرانے سے تھا اب تک آپ ایک سو پچاس کنال اراضی کے مالک تھے لیکن انکساری انگ انگ میں رچی بسی تھی. آپ کے ظروف طعام ابھی تک پرانی طرز کے تھے جنھیں طواخ( طباق) اور رکاوی (رکابی) کہا جاتا ہے. آپ کی غذا نہایت سادہ اور غذائیت سے بھرپور ہوتی. آپ کھانا تناول فرمانے کہ لیے چارپائی کے اوپر ہو کر بیٹھ جاتے اور آپ کے سامنے ایک چوکی( لکڑی سے بنی ایک چھوٹی سی بغیر ٹانگوں کے میز ) ہوتی اس چوکی پر ایک گلاس لسی یا دودھ کا رکھتے گندم کے تنکوں سے بنی چنگیر میں مکئی کی روٹی جس پر دیسی گھی یا مکھن لگا، بلکہ پڑا ہوتا سالن کی جگہ اچار یا سل پر پیسی ہری مرچ اور پودینے کی چٹنی ہوتی جسے آپ نہایت نفیس طریقے سے استعمال کرتے. نوالہ اتنا لیتے کے اگر چباتے ہوئے کوئی بات کرنی پڑے تو باآسانی کر لیتے. یہی دیسی خوراک ہی تھی کہ آپ نوے سال میں بھی تندرست و توانا نظر آتے تھے.
آپ کے سر کے بال نہ تو گرے اور نہ ہی مکمل سفید ہوئے، چہرے کے سانوالے رنگ میں سرخ چمک بھی تھی. آپ درمیانی جسامت کے ساتھ با رعب اور پر وقار شخصیت کے مالک تھے. آنکھیں بنوائی کے مرحلے سے گزر چکی تھیں اور مسوڑھے دانتوں کی رفاقت سے نہ جانے کب سے محروم ہو چکے تھے. لیکن دیکھنے میں ایسا لگتا نہیں تھا . کیپسٹن کے سگریٹ کے آخری مراحل تھے جب آپ کے بڑے صاحبزادہ مقصود پاس آ کر کھڑے ہوئے گردن کے اشارے سے ہماری خیریت دریافت کی اور لبوں کے تبسم سے اپنی بتا کر دیوار کے ساتھ جا کر کھڑے ہو گے.
ماسٹر جی ہم سے ہمارے بھائیوں کے روزگار کا پوچھ رہے تھے کمال کی یادداشت تھی کہ ہماری بڑی دو ہمشران جو دوہتے پوتوں والی بھی ہو چکی ہیں ان کے گھر والوں کا مکمل اتا پتا یاد رکھے تھے بلکہ ایک بہن کے سسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہنے لگے وہ ہمارے ہم پیشہ تھے اور ہم انہیں پہاپا یوسف کہہ کر پکارا کرتے تھے.
ابھی یہی باتیں ہو رہی تھی کہ آپ کا چھوٹا نور چشم ظفر آ گیا جو کہیں ٹرانسفارمر کے سلسلے میں کچھ ہی دور لگے پول کے پاس کھڑے لوگوں سے محو گفتگو تھا . گرمجوشی سے مصافحہ کرکے پاس ہی دوسری کرسی پر بیٹھ گیا. اس کے آ جانے سے ماسٹر جی کو کچھ ہماری مہمان نوازی سے فرصت ملی تقریباً دو گھنٹوں سے مہمان نوازی کے تقاضے نبا رہے تھے. ظفر سے باتیں کرتے ہوئے اپنے کلاس فیلو منظور کا بھی پوچھا جو ماسٹر جی کا منجلہ لختِ جگر تھا اس کا نام سنتے ہی ماسٹر جی نے گھڑی پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا وہ پہلے تو اس وقت تک آ جاتا تھا آج کچھ لیٹ ہے .
ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ انگلینڈ سے ایک دوست ( چودھری اعجاز بن جمروز) کا فون آ گیا کال پک کرنے سے پہلے میں نے اجازت لینی مناسب سمجھی جو بہت ہی مشفقانہ انداز میں مل گئی. دوست نے حسب معمول پوچھا کہاں ہو عرض کیا بہت اونچے مقام پر ہوں ہنستے ہوئے کہنے لگا وہ تو ہے ہی آج کوئی نیا ہے. میں نے کہا یہ آج ہی ملا ہے سوال ہوا پھر نئے مقام کا اتا پتا بتا دیں؛ میں نے ماسٹر جی کے پاوں پر نظر رکھے ہوئے کہا استاد محترم کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا ہے، سن کر پوچھنے لگا ہم ان مشخیت مآب کا نام جان سکتے ہے کہا کیوں نہیں، پھر ہم نے ماسٹر جی کے متعلق بتایا تو کہنے لگا واقعہ آج آپ نے بہت اچھا مقام تلاش کر لیا میری طرف سے بھی اسلام عرض کرنا وعلیکم اسلام کے ساتھ ضرور ضرور کہا اور فون بند ہو گیا . ماسٹر جی کو نام کے ساتھ سلام عرض کیا تو وعلیکم سلام کہتے ہوئے کہنے لگے اچھا اچھا چودھری جمروز ہوراں ناں صاحبزادہ، میں نے کہا جی جی، کہنے لگے بڑا نیک اور فرمانبردار بچہ ہے. ظفر نے ساتھ اضافہ کیا کہ باقی بھائیوں سے بہت مختلف ہے ماسٹر جی نے بھی اقرار میں گردن کو جنبش دی. ماسٹر جی کی محلے بستی کے ہر بچے جوان اور بوڑھوں سے کے متعلق جانکاری دیکھ کر یہ کہنا بےجا نہ ہو گا ماسٹر جی واقعی ہمارے دور کے مسٹر چیپس ہیں، جنہیں شاگردوں کے علاوہ ان کے بہن بھائی اور دادا چاچا بھی یاد تھے .
ظفر کو کسی کام سے اٹھنا پڑا تو میں نے ماسٹر جی سے اس دور کی بات پوچھ لی جب آپ کی تقری بطور ماسٹر ہوئی. ماسٹر جی ایک بار پھر سے ماضی کو حال میں لاتے ہوئے اپنی نظروں کو سگریٹ سے نکلتے دھوئیں پر فوکس کیا اور اپنی زندگی کی پہلی کامیابی کا ذکر کرنے لگے . یہ پارٹیشن سے پہلے کا واقعہ تھا جو کہ تجس سے خالی نہ تھا.
ماسٹر صاحب عہد ڈوگرا کے ماسٹر تھے جب
ہمیں یہ پتہ چلا تو سوچوں میں مبتلا ہو گے کہ نا جانے اس وقت اس نوکری کے لیے کتنے بیلن بیلے ہونگے ، ہم انہی سوچوں کے زینے سر کرتے ہوئے آخر پوچھ ہی بیٹھے کے اصول روزگار کے لئے جہاں سفارشات کی ضرورت پڑی ہو گی وہی مٹھی گرم کرنا بھی ضروری ہوا ہو گا، میری بات سننے کے بعد گویا ہوئے، نہیں تب ایسے نہیں تھا بلکہ اس وقت درخواستگذار کی قابلیت کو دیکھا جاتا تھا اگر وہ اس نوکری کے قابل ہوتا تو پھر کسی سفارش اثر رسوخ یا نقدی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اور اگر قابلیت ہی نہ ہوتی تو پھر مذکورہ بالا تمام رسوخ دھرے کے دھرے رہ جاتے تھے. ماسٹر جی ڈوگرا دور کی باتیں سنا ریے تھے جنھیں سن کر نہ جانے کیوں ندامت سی ہو ریی تھی ندامت کی وجہ شاید زمانہ عصر کی بد اعتدالی انصافا کا فقدان برادری ازم کی بھر مار تھی ، ، یا پھر اپنے دین سے دوری تھی. ماسٹر جی ایک ایک لفظ پر مشدد(ہ) لگا کر ادا کر رہے جس کا مقصد زمانے کی سچائی کو باور کرانا تھا. ماسٹر جی سے اساتذۂ کے متعلق جب پوچھا گیا تو کہنے لگے اس سلسلے میں کبھی دھرم اڑے نہیں آیا بس ایک ہی رشتہ تھا استاد اور شاگرد کا جو فطین شاگرد تھے وہ اساتذۂ کی نگاہ میں بلا مذہبی و لسانی امتیاز ک مقام رکھتے تھے اور جو گنوار تھے وہ اپنے مقام پر تھے . اعادہ کرتے ہوئے عرض کی کوئی مسلم استاد بھی آپ کے اساتذۂ اکرام میں تھا کہنے لگے نہیں بلکہ میرے اساتذہ میں ہرجیت سنگھ جگجیت سنگھ اور بابو ہرپال ریے ہیں . سیری گاوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے یہ جو صوفی اللہ دتہ دھپری والے تھے ان سے بائیں غیر مسلم اور دائیں مسلم ہوا کرتے تھے ہمارا ایسے ہی بھائی چارہ تھا جیسے آج ایک پڑوسی یا گاوں والے سے ہوتا ہے دکھ سکھ میں شریک ہوا کرتے تھے. یہاں پہنچ کر کچھ سکوت فرمایا تو میں نے پوچھ لیا آپ کے محلے داروں یا ہم جماعتوں میں سے کسی نے آپ سے رابطہ کیا ہو . پوتے (شہزاد) کی طرف دیکھتے ہوئے،(جیسے کہ اب جو بات کہنے لگے ہیں اس کا علم پوتے کو بھی ہو) کہنے لگے ہاں آج سے تقریباً چار سال پہلے تک میرا ایک سنگی سے خط و کتابت کا سلسلہ رہا، "خط و کتابت کا سن کر میں نے چونکنے کے انداز میں پوچھا آپ کا دوست کس زبان میں خط لکھا کرتا تھا میرے اس مہمل سے سوال پر تبسم فرماتے ہوئے کہنے لگے جس میں میں لکھتا تھا یعنی اردو". میرے اس استفسار پر کہ کیا موضوع سخن رہا تو کہنے لگے بس وہ آج تک سیری کو ساون کے اندھے کی طرح دیکھتا اور سمجھتا رہا مکدے کی بانڈی سے لے کر کٹیا تک وہی تصویر کشی کرتا رہا جو آج سے بہتر سال پہلے دیکھ کر گیا تھا سیری والے مندرکے پاس ہڑے بلغوندروں کو اٹھانے والے بلونت سنگھ کے لنگوٹ سے لے کر ذیلدار محمد خان کے چینے چھمبے ٹہگوں( بیلوں) تک کی باتیں اس کے خط کا موضوع بنی ریتی کبھی نیرو تیلی(نذر) کی وہ لڑائی لکھ کر ہنسنے والی شکل کی خط کشائی :) کرتا ( یہ لڑائی گائے کے ذبح کرنے پر ہوئی تھی . لڑائی میں اس نے کبڈی والے انداز میں ہاتھ مار کر
نیرو کی دہوتی کھول دی تھی جس پر دیکھنے والوں کو غشیں پڑ گئی تھیں) . وہ ماضی کو.یوں ذہن نیشن کیے ہوا تھا کہ پرانے مکانوں کے کھومبے پچھوکڑ میں لگے ٹین لکڑی کے پرنالے بھی اسے یاد تھے. شاید وہ یہی سوچتا ہو گا کہ ہمارے چلے آنے کے بعد سیری میں کوئی تعمیر نو نہیں کی ہو گی. کمال کا حافظہ تھا اس کا، کہ اسے ماسٹر جی کی وہ چوکی بھی یاد تھی جس پر ماسٹر جی روٹی رکھ کر کھایا کرتے تھے. اس نے ایک خط میں یوں لکھ رہا تھا کہ " پہا ولایت میرے پتر لکھن دا اور تمہارے ٹکڑ کھان کا ایک ہی ویلا ہے کج تو ہمارے دل تے کھچی اس لکیر دا قصور ہے جس کو آج اسی باڈر کہتے ہیں کج ہی کوہ دے فاصلے تے کھڑیاں ٹیم وکھرا وکھرا دیکھاہندیاں ہن بات کردے سی پتر لکھن کی تو میں اکھر کی پان شروع کیتے کے تیرے کھر دے پسار تے ویڈے ویڈے بوہے آکھاں ہگے آ گے ہن . یار مینوں تے تیرا چوکڑی مار کے بیٹھنا اینج ہی نجر آ ریا ہے جیویں تو بڑے جے منجے تے بیٹھ گیا ایں تے پہابو نے لکڑ دی چوکی تیرے ہگے رکھ کے ویڈے جے چھنے وچ لسی رکھ رہی اے، مکی دی روٹیاں تے مکھن دا تازہ پیڑا تے نال ساویاں مرچاں دی چٹنی . یار سو ں(قسم) تیری سنگت دی ساریاں چیجاں ہی تے مجھے نجر آ رہی ہیں. کھت ( خط) کی لکھنا سی سب کج ہی تے تیریاں یاداں وچ کھو گئیا اے، تیری پہابو وی کج آکھدی سی چیتا ہی وہسر گیا، چل تیرے جواب تیکر یاد آ ہی جائو فیر لکھ دیاں گا". ماسٹر جی کا دوست بھی جیدار قسم کا تھا جسے صدیوں پر محیط زمانے کی باتیں یاد تھی. دراصل ایک پیار تھا، دو نظریے سے پہلے کے مخلص ناتے تھے، ایک ہی بھائی چارے کے نظریے پر قائم یہ لوگ ان لنگوٹیے یاروں کی بھی قدر کرتے تھے جو ابھی لنگوٹ باندھتے ہی نہیں تھے. ماسٹر جی اپنے لنگوٹیے کی باتیں سنا رہے تھے باتوں سے جدائی کا درد بھی جھلک رہا تھا اور درد میں پنہاں سارے لفظ زمانہ ماضی کی منظر کشی بھی کر ریے تھے، لیکن جو بات باتوں ہی باتوں میں محسوس کی وہ دل و دماغ پر بلاکا ضبط تھا،
جس کی وجہ سے نہ ہی تو کوئی بات بھولی اور نہ ہی فرط جذبات کے نذر ہوئی. ماسٹر جی کا طویل عرصے تک یہ خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا لیکن موضوعات خط میں جدت کے بجائے وہی سادگی رہی وہی اردو پنجابی کے ساتھ پہاڑی کی آمیزش رہی، نہ جانے کیا ہوا کہ خط سرحد پھلانگنے سے قاصر ہو گے، اور یوں ماسٹر جی اپنی حیات طویل کے آخری مختصر سے حصے میں خلوص بھرے خطوں سے لنگوٹیے یار کی جیداریوں سے محروم ہو گئے.
باتیں ہو ریی تھی کے آپ کا بیٹا منظور آ گیا جس نے بڑی فرمانبردای سے ماسٹر جی سے مصافحہ کیا پھر مجھ سے ملا اپنی تاخیری کے متعلق کچھ عذر پیش کیا جو میری نسیان کے نذر ہو گیا. موسم ابر آلود ہو چکا تھا اجازت چاہی تو ماسٹر جی اور ظفر دونوں کہنے لگے بارش آ گئی ہے اس کو دیکھ لو ( برس جانے دو) پھر چلے جانا بلکہ ظفر نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ابھی تو روٹی کا وقت بھی ہو گیا ہے وہ کھائے بغیر جانا تو مناسب نہیں، میں نے عرض کی ہمارا وقت تو ظہر کے بعد ہی ہوتا ہے بس ابھی یہی کچھ کہہ رہے تھے کہ ابر کرم برسا جس کا دورانیہ تقریباً پندرہ بیس منٹ تک رہا . اس دوران سیری کی طرف دیکھتے ہوئے ماسٹر جی سے از راہِ مزاح پوچھ لیا آپ نے کشمیر میں سیری سے زیادہ خوبصورت کوئی وادی دیکھی ہو تبسم سجاتے ہوئے کہنے لگے نہیں، اس جیسی کوئی نہیں دیکھی. یہ سن کر ظفر نے کہا اپنا گھر تو سبھی کو اچھا لگتا ہے، سگریٹ کی راکھ جھاڑتے ہوئے کہنے لگے نہیں ایسا نہیں یہ حقیقت ہے کہ ہماری سیری بہت خوب صورت ہے. بارش کی جو کن من سنائی دے رہی تھی یکدم رکی تو سکوت سا چھا گیا اسی سکوت میں ماسٹر جی سے اجازت چاہی جو تقریباً اس شکوے کے ساتھ ملی کہ ویلا تے نہی سی ہن اسطرح( کھانا کھائے بغیر)جانے ناں . میں نے گھٹنے چھو کر ہاتھ آنکھوں کے ساتھ لگایا اور الٹے پاؤں ایسے کچھ قدم چلا جیسے کسی ولی کے مزار سے نکلا جاتا ہے. شہزاد اور ظفر وداع کرنے چند گام ساتھ آئے جنھیں شکریہ کے ساتھ واپس کر دیا.
اب میرا ارادہ زراعت کے ریٹائرڈ آفیسر مطلوب صاحب سے ملنے کا تھا. جب اسی ارادے کے ساتھ ان کے آہنی گیٹ پر پہنچا تو اطلاعی گھنٹی نہ پاکر ہاتھوں سے کٹھکٹانا شروع کر دیا ایک بیکار سے آدمی کے ہاتھ میں کب اتنی کھنکناہٹ تھی جو پندرہ گز کا فاصلہ طے کر کے کمروں تک جاتی بس پھر ہم نے اپنی عقل کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک پتھر اٹھایا اور اسی سے زنگ آلود گیٹ کو پیٹنا شروع کر دیا. پتھر کے لگنے سے گیٹ میں جو ارتعاش پیدا ہوئی تو خاتون خانہ کچھ کہتے ہوئے گیٹ کے پاس پہنچی تو کہنے لگی یہ تو کھلا ہی تھا آپ نے دیکھا نہیں. عرض کیا ایک تو گیٹ کی اہمیت کو ہم جانتے ہیں دوسرا یہ کہ ہمیں مطلوب صاحب مطلوب ہیں کیا ممکن ہے. کہنے لگی وہ تو آرائش مکان کے سلسلے میں راولپنڈی گئے ہوئے ہیں. یہ سن کر بارش کی ہلکی ہلکی سی بوندوں میں بھیگے ہوئے ارمان لے کر واپس لوٹ آئے. اب ہمارا رخ اپنے ماموں کے گھر کی طرف تھا کچھ ہی دیر میں وہاں پہنچ گئے. اب تو کھانے کھائے بغیر لوٹنا ممکن نہ تھا کیوں کہ دن کے بارہ بج چکے تھے. کھانے کے بعد ہمارے پسندیدہ مشروب یعنی چائے (ہماری ایسی کمزوری رہی کہ اگر کوئی ماہ رمضان میں بھی آفر کرے تو انکار مناسب نہیں لگتا ) کے لیے ماموں نے گھر والوں سے کہا تو کچھ دیر کے لیے بیٹھ جانا غنیمت جانا. جب گھر کے دودھ سے اور کوالیفائیڈ ہاتھوں کی بنی چائے مل جائے تو پھر ہم تشکر کے طور پر کچھ دیر اور بیٹھ جانا اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہیں. وہاں سے اجازت پا کر ہم نے اپنے بہت پرانے دوست( ڈرائیور ملک صابر جو آج کل فالج کے ارضے میں مبتلا ہیں) سے ملنے کی سوچی تو اپنے ماموں سے ان کی ملاقات کا کہا. ماموں اور وہ پڑوسی ہیں اس لیے ہم دونوں ہی ان کے گھر گئے. وہاں سے علیک سلیک کے بعد اجازت چاہی اور چل دیے . اب ہم اکیلے تھے سوچا کیوں نہ حریت کے متوالے محب وطن وقار ملک سے مل لیں . یہی سوچ لیے وہاں پہنچے گیٹ وہاں بھی تھا جس کا ایک پٹ وا تھا . آنگن میں کھیلتے بچوں نے ہمیں دستک دینے سے پہلے ہی دیکھ کر اپنی بڑی بہن کو ہماری آمد کی اطلاع دے دی . بچی نے آدھ کھلے گیٹ کی اوٹ سے ہماری آمد کا مقصد جانا ہمارا مدعا سننے کے بعد کہا کہ بھائی کسی کام سے بازار گئے ہیں . ہم نے یہ سنا تو وقار کے لیے اسلام چھوڑنے ہوئے واپس چل دیے. رستے میں ایک دو دوستوں ( ہومیو ڈاکٹر ملک شفیق اور ٹیلر ماسٹر اسد عادی ) سے ملے اور گھر آ گئے لیکن اس دن باوجہ استاد محترم کی ملاقات سے دن کیا رات تک مسرور رہے. چودہ پندرہ دن ہی گزرے تھے کہ ان کے صاحبزادے ظفر کو چوکی کہوٹہ ایک جنازے کے اجتماع میں اس وقت دیکھا جب مولانا( ڈاکٹر مولوی مسعود) صاحب والدین کے ساتھ حسن سلوک پر تقریر فرما رہے تھے. نظروں سے ہی ایک دوسرے کو سلام کیا. ادائیگی نماز کے بعد مصافحہ کرتے ہوئے ماسٹر جی کی عافیت چاہی ابھی وہ خیریت ہی بتا رہا تھا کہ ماسٹر جی کے ایک درینہ شاگرد ( محمد خان بٹ جن کی عمر تقریباً ستر برس ہو گی) اپنے بھائی خادم حسین کی نشاندہی پر ظفر سے ملنے آئے ان کے ملنے کے انداز سے معلوم ہوا کہ استاد کا احترام ان کے دل میں کتنا ہے ، وہ اپنے بیٹے کی عمر کے صاحبزادہ استاد سے اس طرح مل ریے تھے جیسے استاد سے مل رہے ہوں . ملتے ہوئے استاد محترم کی صحت کے متعلق پوچھا جس کا جواب ظفر نے "اب ٹھیک ہیں" کے مختصر الفاظ میں دیا. بٹ صاحب نے مسکراتے چہرے سے استاد محترم کے لیے اسلام نذرانہ کیا اور کہا آج تو ممکن نہیں البتہ پھر کبھی آیا تو انشاءاللہ حاضری دوں گا. یہ وقت ساڑھے تین یا چار بجے کا تھا جنازے کی اختتامی دعا کے بعد کچھ لوگ قبر پر گے اور کچھ گھروں کو چل دیے . اسی روز شام چھ سوا چھ بجے مجھے گیائیں جانا ہوا تو کچھ لوگوں کو دو دو تین تین کی ٹولیوں میں ماسٹر جی کے گھر کی طرف جاتے دیکھا تو تشویش لاحق ہوئی خیر اتنی دیر میں میں اپنے ماموں کے گھر پہنچ چکا تھا وہاں پہنچتے ہی پہلی خبر یہی ملی کے ماسٹر جی راہی عدم ہو گئے ہیں. اچانک یہ خبر پا کر وہی کچھ ہوا جو ایک عقیدت مند کو ہوتا ہے لیکن دھیان فوراً دو اڑھائی گھنٹے پہلے والے اس آدمی کی طرف چلا گیا جو نہایت ملتجیانہ لہجے میں اسلام نزرانہ کرتے ہوئے پھر آنے کا کہہ گیا تھا .
پندرہ دن پہلے بلڈ پریشر نارمل کا بتانے والے ماسٹر جی پوتے کے ساتھ موٹر بائیک پر بیٹھ کر اپنے معالج اسحاق کے پاس بلڈ پریشر چیک کرانے کھوئیرٹہ پہنچ گئے. لیکن آج معالج کے کچھ بولنے سے پہلے ہی بول پڑے. بولے بھی تو کیا خوب
بولے کہ ڈاکٹر صاحب کلمہ پڑھیں ، پاس بیٹھی بیٹی اور پوتے سے کہا کلمہ پڑھو . شاید کہیں آپ نے مشاہدہ کیا ہو کہ جب بھی اچانک کوئی یہ کہے کلمہ پڑھو تو سننے والے بجائے پڑھنے کے اس کہنے والے کو حیرت سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں. حالانکہ یہ حیرت ہونی نہیں چاہیے کلمہ ہمارے دین کا پہلا رکن ہے اسے ہر وقت ہی پڑھنا چاہیے نہیں تو اس وقت بلاجھجک پڑھ لینا چاہیے جب کوئی کہے . یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا بشمول ڈاکٹر سبھی ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھ رہے تھے بیٹی نے جب دیکھا کہ قبلہ و کعبہ منہ کی طرف دیکھ رہے ہیں تو فوراً ہونٹ ہلانے شروع کر دیے ماسٹر جی کے پاس اعادہ کرنے کے لیے وقت کہاں تھا اس لیے خود ہی بلند آواز میں اللہ کی وحدانیت اور نبی کریم کی رسالت کا اقرار کرتے ہوئے آنکھیں موند لی. ڈاکٹر جس نے کلمہ پڑھنے کا حکم سب سے پہلے سنا تھا ہاتھ میں پکڑے وینٹی لیٹر ماسک کو سائیڈ پر رکھ کر سب سے آخر پر منہ سے پھونک چھوڑتے ہوئے رک رک کر لا الہ الا اللہ_____ محمد رسول اللہ پڑھ رہا تھا .
خاموشی سے جانے والے سب کو رلاتے ہوئے واپس آ رہے تھے. پانچ اپریل بیس سو اٹھارہ کی صبح تک کانوں کان خبر پوری دنیا میں پھیلے جان پہچان والوں تک پہنچ چکی تھی پھر بھی رسم علاقہ نھباتے ہوئے مساجد کے لوڈ سپیکر چیخ چیخ کر ماسٹر جی کے سفر آخرت کی اطلاع دے ریے تھے. کل ایک مولانا ایسے ہی اجتماع سے والدین سے حسن سلوک پر تقریر فرما رہے تھے اور آج دن دو بجے ماسٹر جی کی چارپائی کے پاس کھڑے ایک مولوی(پروفیسر مقبول اسد)صاحب معلم کی شان و منزلت بیان کر رہے تھے.
فاتحہ خوانی کے بعد ظفر سے ہوچھا وہ اسلام جو بٹ صاحب نے دیا تھا کیا ماسٹر جی تک پہنچا تھا ؟ کہنے لگا میں ابھی وہی ( جنازے والے مقام پر) تھا جب یہ سیری بان سے آگے جا چکے تھے شہزاد نے پڑاٹی سدھناں پہنچ کر مجھے فون کیا تھا میں نے اپنے تہی بہت جلدی کی لیکن اس وقت اسپتال پہنچا جب نفی اثبات کے مراحل جاری تھے.
 

Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 62107 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.