کسان فریاد کناں ہیں!

 کس کا دسترخوان ہے جس کی ایک ایک چیز کسان کی مہیا کردہ نہیں؟ غریب اگر ہاتھ پر روٹی رکھ کر چٹنی یا اچار کے ساتھ کھاتا ہے یا امیر کے دستر خوان پر انواع واقسام کی نعمتیں سجی ہوئی ہوتی ہیں ، روٹی، چاول، سلاد، اچارسمیت چائے اور لسّی کا ایک ایک گھونٹ بھی کسان کی پیداوار کا حصہ ہوتا ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں پر تعیش دعوتوں میں اڑایا جانے والا ایک ایک لقمہ کسان کے خون پسینے کی محنت کا ثمر ہوتا ہے۔ ہمارے لباس سے لے کر جوتی تک کا خام مال کسان کی پیدا وار سے حاصل کیا جاتا ہے۔ دیگر ضروریات کے ذکر کو اگر کچھ دیر کے لئے موخر بھی کر دیا جائے تو ہماری زندگی کے تسلسل کو قائم رکھنے والی خوراک کے تمام اجزاء کسان ہی کی مدد سے حاصل ہوتے ہیں۔ گندم انسانی خوراک کا سب سے اہم عنصر ہے، آجکل گندم کی برداشت آخری مراحل طے کر چکی ہے۔ سال بھر کے کھانے کی گندم ذخیرہ کرنے کے بعد کسان فطری طور پر اضافی گندم فروخت کرکے اپنے دوسرے اخراجات پورے کرنے کی امید رکھتا ہے۔ مگر حالت یہ ہے کہ وہ فصل فروخت کرکے اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے خوشی حاصل کرنے کی بجائے احتجاج کرنے پر مجبور ہے، کسان بے حس اور کرپٹ محکمہ خوراک کی خوراک بن کر رہ گیا ہے۔

گندم کی پیدا وار کسی زمانے میں ساٹھ من فی ایکڑ تک ہوا کرتی تھی، مگر اب وہ کم ہو کر پچیس تیس من تک آگئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو پانی کی کمی ہے، خاص طور پر رواں برس پانی کی ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔ دریا جو چند برس قبل تک پانی سے لبریز ہوتے تھے، شہروں کے قریب سیر گاہیں تھیں، لوگ خوبصورت ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لئے دریاؤں کی سیر کیا کرتے تھے، دریا تو اب بھی موجود ہیں، مگر ان میں پانی کی جگہ ریت نے لے لی ہے، وہی دریائی سیر گاہیں اب ویرانی اور اداسی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ پاکستان میں بدقسمتی سے ہر سال بہت زیادہ پانی دریاؤں سے گزر کر سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے، مگر وہ اس سفر میں سیلابِ بلا بن کر کروڑوں کی فصلیں تباہ کرتا ہے، انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ بہت سے مال مویشی بھی سیلاب کی نذر ہو جاتے ہیں، کتنے گھر ڈوب کر زمین بوس ہو جاتے ہیں اور نہ جانے کتنے ہی ارمان بھی سیلاب اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے، پہلے سیلاب کا انتظار ہوتا ہے اور اس کے گزر جانے کے بعد حکومتیں سیلاب زدگان کی مدد کے لئے کمر کس کر نکل کھڑی ہوتی ہیں اور مخیر حضرات بھی اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرتے ہیں۔ رہی پانی کو محفوظ کرنے کی کہانی تو اسے طوطا کہانی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ کوئی کالاباغ ڈیم تو نہ بن سکا کہ کہا جاتا ہے کہ اس کے لئے بہت سی لاشوں پر سے گزرنا پڑے گا، تاہم’’ سبز باغ ڈیم‘‘ بنائے(یا دکھائے) جانے میں ہماری حکومتوں نے کبھی بخل یا تاخیر سے کام نہیں لیا۔ اُدھر بھارت ڈیم پر ڈیم بناکر ہمیں خشک سالی کا شکار کر رہا ہے۔ پاکستانی واویلے کے باوجود متنازع ڈیم بن رہے ہیں اور اب نیلم پر کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے یہ وادی پانی کی بوند بوند کو ترسے گی اور پانج لاکھ کی آبادی خشک سالی کا شکار ہو جائے گی۔ اس سے ہمارا ’جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ ‘ بھی صفر ہو کر رہ جائے گا۔یوں بھارت پاکستان کے خلاف دو اہم ہتھیار ہمہ وقت استعمال کر سکتا ہے، پانی روک کر خشک سالی اور پانی چھوڑ کر سیلاب کی صورت میں۔
 
کسان کو صرف پانی کی کمی کا سامنا ہی نہیں، اسے نہری پانی کی بجائے خرید کر لگانا پڑتا ہے، کھاداور سپرے بھی اس کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تمام مسائل سے ہوتے ہوئے جو کچھ فصل تیار ہو کر سامنے آتی ہے، تو سب سے مشکل مرحلہ اس کی فروخت کا ہے۔ حکومت ہر سال بہت دعوے کرتی ہے اور آنیوں جانیوں سے اپنی کارکردگی ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے، مگر کسان تک اس کے حقیقی ثمرات نہیں پہنچ پاتے۔ باردانہ کی تقسیم معاشرے میں کرپشن کی علامت ’’پٹواری‘‘ کے ذمے ہے، اس کے بعد باردانہ صرف مالک کو دیئے جانے کا قانون ہے، یعنی مزارع اس سے محروم ہی رہے گا، جبکہ اپنے ہاں زیادہ زمین مزراعین ہی کاشت کرتے ہیں، فطری طور پر وہ اپنی فصل مڈل مین یا بیوپاری وغیرہ کے ہاتھ فروخت کرنے پر مجبور ہیں، جو کہ کم از کم ڈیڑھ سو روپے فی من کم قیمت پر خریدتے ہیں۔ ہر کسان کو فی ایکڑ آٹھ بوری باردانہ دیا جاتا ہے، اور زیادہ سے زیادہ دس ایکڑ کے لئے۔ ظاہر ہے آٹھ بوری میں ایکڑ کی گندم نہیں آتی، دوسرا یہ کہ دس ایکڑ سے زیادہ والے کاشتکار بھی اپنی فصل سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگرچہ باردانہ کی تقسیم میں مال بٹورنے کا عام رواج ہے، اس کے بعد جن کو باردانہ مل جاتا ہے، ان کے لئے بھی عشق کے امتحان ختم نہیں ہوتے بلکہ انہیں گندم فروخت کے سرکاری مرکز پر جاکر مختلف کٹوتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کچرا کٹوتی، نمی کٹوتی اور خوامخواہ کٹوتی وغیرہ کے ضمن میں تین چار کلو گندم کی قیمت سینٹر والوں کی جیب میں پہنچ جاتا ہے۔ جہاں لاکھوں ٹن گندم خریدنے کا ٹارگٹ ہوتا ہے، وہاں فی بوری کٹوتی کا حساب کہاں تک پہنچتا ہوگا۔
 
کسان کو قرضہ جات اور سبسڈی دیئے جانے کے بھی بہت سے دعوے ہوتے ہیں، مگر وہ کسان جو زمین کا ٹھیکہ بھی دے گا، اس میں ٹریکٹر سے ہل بھی چلوائے گا، قیمتاً پانی دے گا، کچھ سپرے بھی کرے گا، اس کی فصل اخراجات بھی پورے نہ کر پائے تو پوری قوم کے دسترخوانوں کی رونق بڑھانے والا خود کیا کھائے گا؟ قرضوں کا عالم یہ ہے کہ انہیں سرکاری بینک کے علاوہ دیگر نجی بینک 35فیصد سود پر قرضے دیتے ہیں، اس ظلم پر احتجاج کیا جاتا ہے تو بتایا جاتا ہے کہ بیس فیصد پر تو ہم قرضہ لیتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ شاید ایک فیصد کسان ہی ایسا ہو جو قرضوں کے عذاب سے محفوظ ہو، ورنہ ہر کسان کی گردن کسی نہ کسی صورت میں قرضے کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔ کسی بھی قسم کی پیداوار دینے والا کوئی بھی فرد اس قدر بے بس، خوار، پریشان بلکہ ذلیل نہیں ہوتا جس قدر کسان کو ہونا پڑتا ہے۔ اس کی فصل تیار ہو جاتی ہے مگر اسے کوئی مناسب قیمت پر خریدار نہیں ملتا، حکومت کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ کسانوں سے ایک ایک دانہ خریدنے کا دعویٰ کرنے والوں کا خرید کا فارمولا ہی مضحکہ خیز ہے ۔ بے بس کسان سراپا احتجاج ہے کہ اس سے گندم خریدی جائے ، وہ بھی سرکاری قیمت پر، کٹوتیوں سے جان خلاصی کروائی جائے، قرضہ جات میں سود کی شرح ختم کی جائے ، یا کم سے کم سطح پر لائی جائے۔ ظاہر ہے مطالبات کے تسلیم ہونے کے امکانات صفر ہیں، اگر کسان کا یہی حال رہا تو آنے والے سالوں میں پیداوار میں مزید کمی واقع ہوگی، کسان کے ساتھ ملک بھی خوراک کے معاملات میں مسائل کا شکار ہونے کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں۔ حکومتوں کو یہ معاملہ ہنگامی بنیادوں پر دیکھنا ہوگا۔ گزشتہ تین برس کا سٹاک بھی مٹی میں مل رہا ہے، حکومتیں اپنی نااہلی کی بنا پر گندم کی عالمی مارکیٹوں تک نہیں پہنچ سکیں۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472261 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.