رمضان کی مبارک ساعتیں شروع ہوچکی ہیں۔ ہر اچھے، اورباعمل
مسلمان کا یہ دینی فریضہ ہے کہ جب یہ مبارک مہینہ آجائے تو روزمرہ کی دیگر
عبادات کی طرح رمضان کے مہینے کے ساتھ مخصوص کی جانے والی عبادات کو بھی
پوری پابندی کے ساتھ انجام دے کر جہنم کی آگ سے خلاصی کا پروانہ حاصل کر لے۔
پورا سال انسان دنیاوی جھمیلوں میں پڑا رہتا ہے، لیکن سال کے بارہ مہینوں
میں سے کم سے کم اس رمضان کے ایک مہینے میں تو ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ
اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اﷲ تعالی ٰ کی عبادت اور تلاوت قرآن میں گزارے۔
سارا سال تو ہم روزی روٹی اور اہل وعیال کیلئے محنت کرتے ہیں تو کیا صرف اس
ایک مہینے کو صرف اﷲ تعالی ٰ کی عبادت کیلئے مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔
دنیاوی کام دھندوں کے ساتھ اﷲ تعالی ٰ کی عبادت یو ں تو عام دنوں میں بھی
فرض ہے اور ہر مسلمان کو یہ فرض ادا کرنا چاہئے، لیکن ماہ رمضان میں تو ہر
مسلمان کی ہر ممکن کوشش یہی ہونی چاہئے کہ وہ گناہوں سے بچے اور اپنا زیادہ
تر وقت عبادت میں گزارے۔ رمضان کے3 عشرے ہوتے ہیں۔ پہلا عشرہ ’’عشرہ رحمت‘‘،
دوسرا عشرہ ’’عشرہ مغفرت‘‘، تیسرا اور آخری عشرہ ’’ عشرہ نجات ‘‘ ہے اور
رمضان کا پہلا عشرہ رحمت بن کر آرہا ہے۔
حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے کہ: ’’رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے کہ اس کا
پہلا عشرہ رحمت ہے، یعنی پہلے دس دنوں میں رحمتوں کا نزول ہوتا ہے، دوسر ا
عشرہ اس کا مغفرت ہے، جس میں اﷲ تعالی روزہ دارکے گناہ معاف فرماتے ہیں اور
تیسرا اور آخری عشرہ، عشرہ نجات ہے جو جہنم سے چھٹکارے کا ہے‘‘۔ قرآن پاک
میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا جو کہ
ہدایت ہے لوگوں کیلئے اور جس میں واضح نشانیاں ہیں ہدایت کی اور جو حق کو
باطل سے جدا کرنے والا ہے‘‘۔
اﷲ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی گئیں نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں سے لبریز ’’رمضان‘‘
کا مبارک مہینہ، درحقیقت مسلمانوں کیلئے ایک بہترین موقع ہے کہ وہ اس مہینے
میں تھوڑی سی توجہ اور محنت کے ساتھ عبادت کر کے خالق دوجہاں سے اپنے
گناہوں کی بخشش کروا لیں، کیونکہ اس ماہ مبارک میں اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کی
طرف خصوصی توجہ کرتا ہے اور چھوٹے چھوٹے اعمال پر بھی بے حساب اجر و ثواب
سے نوازتا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ: ’’رمضان وہ
مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کیلئے سراسر ہدایت ہے اور
ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا
فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔ (البقرہ:185)
سال کے 12 مہینے ہم دنیاوی کاموں میں گزار دیتے ہیں، نمازیں توپڑھ لیتے ہیں،
لیکن ساتھ ہی ڈرامے، فلمیں اور گانے وغیرہ دیکھنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا
ہے۔ گھر سے باہر جاتے ہیں تو بد نظری سے خود کو بچا نہیں پاتے یا تو ہماری
نظر کسی نامحرم عورت پر پڑ جاتی ہے یا ہم خود کسی کی بد نظری کا شکار ہو
جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ عام دنوں میں ہماری زبان سے دوسروں کیلئے غلط سلط
الفاظ یا گالیاں بھی نکل جاتی ہیں، جب کہ ہم میں سے کچھ لوگ مختلف نشہ آور
چیزوں کے بھی عادی ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے رمضان کے مہینے میں بھی یہ نشے
کی عادت بہت تنگ کرتی ہے اور نشہ کئے بغیر روزہ بھاری لگتا ہے۔ عام دنوں
میں ہم کسی کی ذرا سی بات پر غصے میں آکر جھگڑا کر بیٹھتے ہیں اور مرنے
مارنے پر تل جاتے ہیں، لیکن رمضان کے بابرکت مہینے میں مسلمانوں کو یہ تمام
بری عادتیں چھوڑ دینے کا حکم ہے اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں کم سے کم
اس بات کی پابندی ضرور کرنی چاہئے کہ ہم روزے کی حالت میں ہر بری عادت سے
دور رہیں۔
روزے کا مقصد محض بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے، اس حوالے سے رسول اکرم ﷺ کا
ارشاد گرامی ہے کہ: ’’جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو
اﷲ کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑدے‘‘۔ (صحیح بخاری) اسی طرح
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ’’جو شخص
(روزے کی حالت میں) ناجائز کلام کرنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اﷲ
تعالیٰ کو اس کے کھانے پینے کو چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ (مشکوٰات)
ایک اور حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اﷲﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ: ’’تم میں سے جس کسی کا روزہ ہو تو نہ وہ بے حیائی کی بات کرے،
نہ جہالت کا ثبوت دے اور اگر کوئی اس پر جاہلانہ طور پر چڑھ آئے تو اسے یہ
جوب دے کہ میں روزے سے ہوں‘‘۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت محمدﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ:’’جو شخص رمضان کا روزہ رکھے اور اس کی حدود کی رعایت رکھے اور
جن چیزوں کی نگہداشت کرنی چاہئے ان کی نگرانی کرے تو یہ اس کے گزشتہ گناہوں
کا کفارہ ہوگا‘‘۔ ایک اور موقع پر رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ: ’’کتنے ہی روزے
دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔
(مشکوات)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ: ’’جو لوگ رمضان کے
روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھیں گے، ان کے پچھلے تمام گناہ معاف کر
دیئے جائیں گے‘‘۔ (بخاری و مسلم)
رمضان ہمدردی اور ایثارکا مہینہ ہے، جس میں سب مسلمانوں کو آپس میں حسن
سلوک اور بھائی چارگی کا رویہ رکھنا چاہئے۔ اس مہینے میں ہمیں اپنی جان کا
صدقہ اور مال کی زکوٰۃ دل کھول کر نکالنی چاہئے اور اگر ہم افسر یا مالک
ہیں تو ہمیں اپنے ملازمین سے نرمی کا رویہ رکھنا چاہئے اور ان کے کام میں
ان کیلئے آسانی پیدا کرنی چاہئے۔ روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں
ہے، بلکہ روزہ تو تمام جسمانی اعضا کا ہوتا ہے۔ دماغ، آنکھ،کان، ناک، منہ،
زبان، ہاتھوں، پیروں اور شرمگاہوں کا بھی روزہ ہوتا ہے، تاکہ انسان
پرہیزگار اور متقی بن سکے اور فحش باتوں اور برے کاموں سے دور رہنے کی وجہ
سے اس پر رحم کیا جائے اور آتش دوزخ سے نجات دے کر اس کا مستقل ٹہکانہ جنت
الفردوس میں بنا دیا جائے۔ رمضان کے مہینے میں مسلمانوں کو خوب دل لگا کر
اﷲ سے دعائیں مانگنی چاہیئں، کیونکہ اس ماہ مبارک میں اﷲ تعالی ٰ اپنے
بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ’’میں مانگنے
والے کی دعا قبول کرتا ہوں، جب وہ مجھ سے مانگے‘‘۔ رمضان کے مہینے میں اﷲ
تعالیٰ مومنوں کا رزق بھی بڑھا دیتے ہیں۔ حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے کہ :
’’رمضان ایک ایسا مہینہ ہے، جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے‘‘۔ آپ
مشاہدہ کریں کہ اس مہینے میں غریب سے غریب آدمی کا دسترخوان بھی کشادہ ہو
جاتا ہے اور رمضان میں اﷲ تعالیٰ اپنی نعمتوں کی بارش سے کسی تخصیص کے بغیر
چھوٹے بڑے، امیر اور غریب سب کو سیراب کر دیتا ہے۔
رمضان کے مہینے کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی روحانی او رجسمانی تربیت اور
اصلاح کا ذریعہ اور ان کے گناہوں کو بخشنے کا ایک بہانہ بنا دیا ہے، لیکن
اس ماہ رمضان کی آمد اور اسے گزارنے کی حدود اور طریقہ کار بھی اﷲ تعالیٰ
نے خود ہی مقرر فرما دیئے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں
کو رمضان المبارک گزارنے کے کیا کیا آداب اور طریقے سکھائے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایاکہ:
’’چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ چھوڑو اور اگر 29 تاریخ کو
چاند دکھائی نہ دے تو شعبان کی 30 کی گنتی پوری کرو۔ (صحیح بخاری و مسلم،
معارف الحدیث) حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا
کہ: روزہ رکھا کرو تندرست رہوگے۔ (طبرانی)
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت محمدﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: روزے
دار کی ایک بھی دعا افطار کے وقت مسترد نہیں ہوگی۔‘‘ (ابن ماجہ، معارف
الحدیث)
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
’’جو آدمی سفر وغیرہ کی شرعی رخصت کے بغیر اور بیماری جیسے عذر کے بغیر
رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑے گا، وہ اگر اس کی بجائے عمر بھر بھی روزے رکھے
تو جو چیز فوت ہو گئی، وہ پوری نہیں ہو سکتی‘‘۔ (مسند احمد، معارف الحدیث)
رسول اﷲ ﷺ کا ارشادگرامی ہے کہ سحری میں برکت ہے، اسے ہرگز نہ چھوڑو، اگر
کچھ نہیں تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے، کیونکہ سحری میں
کھانے پینے والوں پر اﷲ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے ان کیلئے دعائے
خیر کرتے ہیں۔ (مسند احمد، معارف الحدیث)
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ: اﷲ تعالیٰ کا
ارشاد ہے کہ اپنے بندوں میں مجھے وہ بندہ زیادہ محبوب ہے جو روزے کے افطار
میں جلدی کرے، یعنی غروب آفتاب کے بعد بالکل دیر نہ کرے۔ (جامع ترمذی،
معارف الحدیث)
حضرت سمان بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا :
جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ کھجور سے افطار کرے اور اگر کھجور نہ
پائے تو پھر پانی ہی سے افطار کرے، اس لئے کہ پانی اﷲ تعالیٰ نے طہور بنایا
ہے۔ (مسند احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، جامع ترمذی، معارف الحدیث)
اسی طرح حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ مغرب کی نماز سے
پہلے چند تر کھجوروں سے افطار فرماتے تھے اور اگر خشک کھجوریں نہ بھی ہوتیں
تو چند گھونٹ پانی پی لیتے تھے۔ (جامع ترمذی، معارف الحدیث)
رمضان المبارک کے تین عشرے ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر عشرہ دس دنوں پر
مشتمل ہوتا ہے۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ
نجات کہلاتا ہے۔ رمضان المبارک کی قیمتی ساعتوں سے لبریز ان تین عشروں میں
عبادات اور تذکیہ نفس کے ذریعے دین و دنیا کی فلاح اور کامیابی حاصل کی جا
سکتی ہے۔
مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان تینوں عشروں میں اﷲ تعالیٰ سے اپنے
گناہوں کی کثرت کے ساتھ معافی مانگیں اور توبہ و استغفار کرتے رہیں اور اﷲ
تعالیٰ سے خلوص دل کے ساتھ زیادہ سے زیادہ استغفار کریں اور سچی توبہ اور
گناہوں سے باز رہنے کے پختہ عزم کے ساتھ ر اپنے دل و جسم کے امراض کی دوا
حاصل کرنے کی جستجو کریں۔ زندگی کے ہر شعبے کی طرح ہمارا دین رمضان المبارک
کے بابرکت مہینے کے حوالے سے قرآن پاک اور احادیث کے ذریعے ہمیں مغفرت طلب
کرنے کے بہت سے طریقے بتاتا ہے، جن پر عمل کر کے ہم دونوں جہاں میں کامیاب
اور سرخ رو ہو سکتے ہیں۔
اﷲ کے رسولﷺ نے فرمایا کہحدیث قدسی میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: ’’جس شخص
نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے تو اﷲ تعالیٰ اس کے ان
تمام گناہوں کو معاف کردے گا جو پہلے ہو چکے ہیں‘‘۔ (مسلم)
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ: جس شخص نے رمضان کی راتوں کو ایمانی کیفیت اور اجر
آخرت کی نیت کے ساتھ نماز (تراویح) پڑھی تو اﷲ تعالیٰ اس کے ان گناہوں کو
معاف کر دے گا جو پہلے ہو چکے ہیں‘‘۔ (مسلم)
رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ: ’’اﷲ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جس نے اچھی
طرح وضو کیا اور وقت پر نمازیں ادا کیں خشوع و خضوع کے ساتھ، ان کے رکوع و
سجود پورے کئے، اﷲ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اسے معاف کر دے گا‘‘۔
(ابوداؤد)
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’جس نے اچھی طرح وضو کیا، پھر جمعہ کی نماز کیلئے
مسجد میں آیا اور خاموشی سے بیٹھ کر امام کا خطبہ سنتا رہا تو گزشتہ جمعے
اور اس جمعے کے درمیان اس نے جتنے گناہ کئے ہیں، وہ سب معاف کر دیئے جائیں
گے‘‘۔ (مسلم)
فرمان نبیﷺ ہے کہ: ’’اﷲ تعالیٰ ہر رات کو جس وقت آخری تہائی رات باقی رہ
جاتی ہے، آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے، میں
بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں، کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا
قبول کروں۔ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اس کو عطا کروں۔ کون ہے جو مجھ سے
مغفرت اور بخشش چاہے، میں اس کو بخش دوں۔ یہاں تک کہ فجر روشن ہو جاتی
ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)
اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ: ’’دو مسلمان جب آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ
کرتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ان دونوں کے گناہ معاف کر دیئے جاتے
ہیں‘‘۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: ’’آدمی کسی راستے پر جا رہا ہو اور اس دوران اسے
کوئی خار دار ٹہنی نظر آئی اور اس نے اسے ہٹا دیا اور اﷲ کا شکر ادا کیا تو
اس کی مغفرت کر دی گئی‘‘۔
رسول اﷲ حضرت محمدﷺ کا فرمان ہے کہ سب سے عمدہ استغفار کی دعا یہ ہے کہ تم
کہو: ’’اے اﷲ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا کئی اور معبود نہیں ہے، تو نے مجھے
پیدا کیا، میں تیرا بندہ ہوں، میں نے تجھ سے بندگی اور اطاعت کا جو قول و
اقرار کیا ہے، اس پر میں امکان بھر قائم رہوں گا، جو گناہ میں نے کئے ہیں،
ان کے برے نتائج سے بچنے کیلئے میں تیری پناہ کا طلبگار ہوں، تو نے مجھ پر
جتنے احسانات کئے ہیں، ان کا مجھے اقرار ہے اور میں اس کا اعتراف کرتا ہوں
کہ میں نے گناہ کئے ہیں، پس اے میرے رب! میرے جرم کو معاف کر دے، تیرے سوا
گناہوں کو اور کون معاف کرنے والا ہے‘‘۔
استغفار کرنے والوں کو اﷲ تعالیٰ اپنے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے۔ فرمان الٰہی
ہے کہ: ’’اس وقت تو اﷲ تعالیٰ ان پر عذاب کرنے والا نہ تھا، جب کہ تو ان کے
درمیان موجود تھا اور نہ اﷲ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور
وہ ان کو عذاب دے‘‘۔ (الانفال 33:9)
اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ: ’’اگر کوئی شخص بر ا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر
ظلم کر جائے اور اس کے بعد اﷲ سے درگزر کی درخواست کرے تو وہ اﷲ کو در گزر
کرنے والا اور رحیم پائے گا‘‘۔ (النسا 10:4)
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا ارشاد ہے کہ: ’’تعجب ہے اس شخص پر جس کے پاس ذریعہ
نجات بھی ہو اور پھر بھی وہ ہلاک ہو جائے‘‘۔ پوچھا گیا کہ: ذریعہ نجات کیا
ہے؟ آپ نے فرمایا ’’استغفار‘‘۔ حضر ت محمد ﷺ نے بھی کثرت سے استغفار کرنے
والے کو بشارت دی ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: ’’اس شخص کی آخرت کی زندگی
نہایت عمدہ ہے، جس نے اپنے نامہ اعمال میں کثرت کے ساتھ استغفار کو درج
پایا‘‘۔ (ابن ماجہ) حضرت محمدﷺ نے استغفار کو غم و حزن سے چھٹکارے اور
فراخی رزق کا سبب قرار دیا ہے۔ آپﷺ کا فرمان ہے کہ: ’’جو شخص کثرت سے
استغفار کرتا ہے، اﷲ تعالی ٰاس کے ہر غم کو دور کر دے گا، اس کو ہر تنگی سے
نکالے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا، جہاں سے اس کو وہم وگمان
بھی نہ ہوگا‘‘۔ (نسائی)
رمضان المبارک کا سب سے اہم عشرہ ’’عشرہ نجات‘‘ ہے، جس میں اﷲ تعالیٰ
مسلمانوں کو جہنم سے نجات عطا فرماتا ہے۔ اسی عشرہ نجات میں ’’شب قدر‘‘
جیسی عظیم رات بھی آتی ہے، جس میں عبادت کرنے کا اجر و ثواب ایک ہزار راتوں
سے بڑھ کر ہے۔
قارئین کرام! جولوگ سارا سال کسی بھی وجہ سے عبادات کیلئے مناسب وقت نہیں
نکال سکے، ان کیلئے رمضان کا مہینہ وہ مواقع فراہم کرتا ہے کہ صرف اس ایک
ماہ میں وہ روزہ اور نماز کی پابندی کر کے جہنم کی آگ سے نجات پا سکتے ہیں
جو لوگ کسی بھی وجہ سے عشرہ رحمت اور عشرہ مغفرت کے فیوض و برکات سے کوئی
فائدہ نہیں اٹھا سکے ہوں انہیں چاہیئے کہ وہ ہوش میں آکر رمضان کے آخری
عشرے کی قیمتی گھڑیوں سے بھر پور استفادہ کر کے اور زیادہ سے زیادہ عبادت
کر کے دوزخ کی آگ سے نجات کا بندوبست کرلیں۔
یوں تو رمضان کے آخری عشرے میں بھی بہت سی دعائیں مانگی جاتی ہیں، لیکن
عشرہ نجات کی یہ خصوصی دعا بہت مجرب ہے اور اکثر بزرگوں نے عشرہ نجات میں
دیگر دعاؤں کے ساتھ اس دعا کو مانگنے کی تاکید فرمائی ہے۔ حضرت بسر بن ابی
ارلحاتہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے آنحضرت محمد ﷺ کو یہ دعا مانگتے
ہوئے سنا : ترجمہ: ’’اے اﷲ! تمام کاموں میں ہمارا انجام اچھا فرما اور ہمیں
دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما’’۔ طبرانی کی روایت میں ہے
کہ اس کے بعد حضوراکرمﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’جو یہ دعامانگتا رہے گا، وہ
آزمائش میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی مرجائے گا‘‘۔ (حیات الصحابہ 403)
عشرہ نجات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس عشرے میں اعتکاف کی عبادت بھی کی
جاتی ہے، جس کا بڑا اجر و ثواب ہے، لیکن یہ عبادت صرف اسی عشرے کے ساتھ
مخصوص ہے، جب کہ ماہ رمضان کے تیسرے اور آخری عشرے ’’عشرہ نجات‘‘ کی طاق
راتوں میں ہی وہ عظیم رات آتی ہے، جسے ’’شب قدر‘‘کہا جاتا ہے، شب قدر جو
ہزار راتوں سے بڑھ کر ہے۔ شب قدر کے حوالے سے آنحضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ:
’’یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر
ہے ’’یعنی رمضان کی صرف ایک رات میں عبادت کرنے کا اجر و ثواب اتنا زیادہ
ملتا ہے کہ جیسے ایک ہزار مہینے عبادت کی جائے۔ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ
ارشاد فرماتا ہے کہ: ’’ہم نے اس قرآن کو ’’ لیلۃ القدر میں‘‘ نازل کیا اور
شب قدر کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے
قرآن پاک کی ایک پوری سورت میں اس رات کی فضیلت اور خصوصیات بیان کی ہیں۔
رمضان کے تیسرے عشرے میں آنے والی یہ وہ مبارک رات ہے، جس میں ہر دعا قبول
ہوتی ہے اور پھر اﷲ تعالی ٰ نے اس رات کو چند مخصوص ساعتوں یا چند لمحات تک
محدود نہیں رکھا، بلکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: ’’ھی حتیٰ مطلع الفجر‘‘ کہ
یہ رات طلوع فجر تک ہے‘‘۔ دنیا کے کام دھندے کرنے کیلئے انسان کئی راتیں
جاگ کر گزار دیتا ہے، لیکن اپنی آخرت سنوارنے کیلئے اس سے رمضان کے آخری
عشرے کی چند طاق راتوں میں نہیں جاگا جاتا۔ شب قدر میں یوں تو بہت سی مسنون
دعائیں مانگی جاتی ہے، لیکن اس رات کیلئے ایک بہت ہی خاص دعا یہ ہے کہ:
ترجمہ: ’’اے اﷲ! آپ معاف کرنے والے ہیں اور کریم ہیں، عفو کو پسند کرتے
ہیں، لہٰذا مجھ سے درگزر کر دیجئے‘‘۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ: ’’جب رمضان المبارک کا آخری
عشرہ شروع ہوتا تو رسول اﷲ ﷺ کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے، یعنی پوری
رات عبادت اور ذکر و دعا میں مشغول رہتے اور گھر کے لوگوں یعنی ازواج
مطہرات اور دوسرے متعلقین کو بھی جگا دیتے، تاکہ وہ بھی ان راتوں کی برکتوں
اور سعادتوں میں حصہ لیں‘‘۔ (صحیح بخاری و مسلم، معارف الحدیث)
حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو
رسول اﷲﷺ نے ہم کو ایک خطبہ دیا اور فرمایا: ’’اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور
برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے۔ اس مہینے کی ایک رات (شب قدر) ہزار
مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اﷲ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی
راتوں میں بارگاہ الہیٰ میں کھڑے ہونے (تراویح) کو نفل عبادت مقررکیا ہے
(جس کا بڑا اجر و ثواب ہے) جو شخص اس مہنے میں اﷲ تعالیٰ کی رضا اور اس کا
قرب حاصل کرنے کیلئے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) اداکرے گا تو
دوسرے زمانوں کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض
ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے70 فرضوں کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ
ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ
مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے، جس نے اس مہینے
میں کسی روزے دار کو اﷲ کی رضا اور ثواب کیلئے افطار کرایا تو اس کیلئے
مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر
ثواب دیا جائے گا ، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی
جائے‘‘۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ نے اس موقع پر رسول اﷲﷺ سے پوچھا کہ: یارسول
اﷲ! غربت کا زمانہ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے پاس اتنی چیزیں نہیں کہ ہم کسی
کو افطاری کروائیں۔ اس پر آنحضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ جس نے دودھ کا ایک
گھونٹ بھی پلایا تو اس کیلئے یہ بھی ثواب ہے‘‘۔ اسی طرح ایک اور حدیث ہے،
جس میں حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ: ’’جس نے رمضان میں کسی شخص کو پیٹ بھر کر
کھانا کھلایا تو قیامت کے دن اﷲ اسے حوض کوثر کا پانی پلائے گا، جس کے بعد
اسے جنت میں داخل ہونے تک کبھی پیاس نہیں لگے گی‘‘۔
حدیث میں ہے کہ: ’’اس مہینے جس نے کوئی نیکی کا کام کیا یا کوئی نفلی عبادت
کی تو گویا اس نے غیر رمضان میں فرض ادا کیا‘‘۔ یعنی نفل کا ثواب فرض کے
برابر ملے گا اور اس مہینے میں کوئی فرض عبادت کی تو گویا اس نے غیر رمضان
میں70 فرض ادا کئے۔ ایک اور حدیث میں حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے کہ: ’’تم پر
ایک عظیم مہینے کو سایہ فگن کیا ہوا ہے اور تمہیں اس کا سایہ بخشا ہے‘‘۔
یعنی رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کیلئے ایک گھنی چھاؤں کی طرح ہے، جس
میں تھکے، ہارے ہوئے لوگ آکر پناہ لیتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو رمضان المبارک کے پورے روزے رکھنے، نمازیں
پڑھنے، تراویح پڑھنے اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے دور رہنے کی توفیق دے اور
رمضان کے آخری عشرے ’’ عشرہ نجات‘‘ اور اس میں موجود ’’شب قدر‘‘ جیسی عظیم
اور قیمتی رات میں زیادہ سے زیادہ عبادات کرنے اور رمضان المبارک کے فیوض
اور برکات سے بھر پور استفادہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین) |