آجکل آپ ذرا ہندوستان کا میڈیا دیکھیے اور بین الاقوامی
میڈیا پر بھی ایک نظر کیجیے۔ وہاں جشن منائے جا رہے ہیں۔ ہندوستانی تو
باقاعدہ لڈیاں ڈال رہے ہیں کہ ہم کہتے تھے کہ ممبئی پر حملہ کرنے والے ڈیڑھ
سو سے زائد معصوم لوگوں کو ہلاک کرنے والے پاکستان کی حکومت نے‘ وہاں کے
دفاعی اداروں کی منصوبہ بندی سے بھیجے گئے تھے ہم کہتے تھے ناں کہ پاکستان
دہشت گردی کا منبع ہے‘ اس کے دفاعی ادارے بھی ملوث ہیں تو دس برس سے انکار
کرنے والے مان گئے ہیں ناں کہ ہاں یہ ہم تھے۔ ہم نے ڈیڑھ سو لوگوں کو ہلاک
کرنے کی خاطر تاج محل ہوٹل اور اس کے گردو نواح کے علاقے کو نذر آتش کرنے
کے لیے تباہ کرنے کے لیے یہاں سے لوگ بھیجے۔ معاونت کی اور اپنی عدالتوں
میں ممبئی کے سانحے کی جو تحقیقات جاری تھی اسے اس کے انجام تک کیوں نہ
پہنچایا۔ سب کچھ مان گئے ناں یہ انکار کرنے والے پاکستانی اور اقرار کس نے
کیا؟ ایک دو نہیں پورے تین مرتبہ انتخاب کیے جانے والے پاکستان کے سابقہ
وزیر اعظم نے ۔ تو اسے ہندوستانیوں جشن منائو کہ آج ایک اور جنرل ٹائیگر
نیازی نے تمہارے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ جس کا نام نواز شریف ہے اور یہ
پوجنے کے لائق ہے ایک دیوتا ہے اس کے مجسمے اپنے مندروں اور گھروں میں
سجائو اور روزانہ اس کے چرنوں میں سر رکھ کر اس نئے بھگوان کا شکریہ اداکرو
جس نے اپنے ملک کے کروڑوں لوگوں کو جھوٹا اور دہشت گرد ثابت کر دیا اور
ہماری جے جے کار ہو گئی۔ نواز شریف کی جے ہو۔ واہ میاں صاحب واہ۔ آپ کا
تخت چھن گیا تو آپ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی دوہائیاں دینے لگے۔ اگرچہ حکومت
اب بھی آپ کی پارٹی کی تھی لیکن مسلسل رُندھی ہوئی آواز میں تقریریں کرتے
جاتے تھے کہ ترقی رک گئی ہے۔ ڈالر مہنگا ہو گیا ہے مرغیوں نے انڈے دینے بند
کر دیے ہیں۔ شتر مرغ انڈوں کی بجائے ایسے بچے دینے لگے ہیں جن کی شکلیں
دیکھی ہوئی لگتی تھیں۔ زیبرے گدھے ہو گئے ہیں اور گدھے ڈھینچوں ڈھینچوں
کرتے احتجاج کرتے ہیں کہ ہمیں کیوں نکالا۔ بھینسیں کھانگڑ ہو گئی ہیں اور
گدھیاں دودھ دینے لگی ہیں۔ شیر نامرد ہو گئے ہیں اور گیدڑ راج کرنے لگے ہیں
صرف اس لیے کہ مجھے نااہل قرار دیا گیا ہے۔ یقین کیجیے میاں صاحب۔ ہماری
سیاسی تاریخ میں کسی سیاست دان نے عہدہ چھن جانے پر اتنی آہ و زاری نہیں
کی۔ نہ ایوب خان نے۔ نہ بھٹو نے۔ اور نہ ہی گیلانی نے۔ سبھی رخصت ہو گئے کہ
ان میں عزت نفس تھی۔ بھٹو نے پھانسی کا پھندا قبول کر لیا پر اپنی عزت نفس
پر آنچ نہ آنے دی کہ وہ تاریخ کے سامنے جوابدہ تھا۔ ویسے تو آپ کے
روحانی والد صاحب اللہ کے فضل سے آسمانوں پر اٹھے اور پھر اٹھا ہی لیے گئے
لیکن یقین کیجیے وہ جیسے بھی تھے ان میں بھی کچھ تو عزت نفس ہو گی۔ آپ میں
کیوں نہیں ہے؟۔آپ دوبارہ وزیر اعظم بننے کے لیے کیوں اتنے پست ہو گئے ہیں
کہ بیس کروڑ پاکستانیوں کو بے عزت کر کے ہندوستانیوں کو بیچ ڈالا۔ الطاف
حسین نے جب پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا تو ہم نے اس کے تابوت میں آخری
کیل ٹھونک دی۔ اب آپ نے بھی تقریباً اسی نوعیت کا بیان دیا ہے تو اگر ہم
آپ کے لیے وہ آخری کیل نہ تلاش کریں تو کیا کریں۔ ہمیں تو آپ نے برباد
کر کے رکھ دیا۔ بدنام کر دیا۔ امریکہ اور مغرب تو پہلے ہی کہتے تھے کہ
پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے آپ نے ان کے حق میں گواہی دے ڈالی۔ وہ جو
مشہور مثال ہے‘کہ نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے کیا آپ جانتے ہیں کہ
اس کا پس منظر کیا ہے؟ دیہات میں یعنی پرانے زمانوں کے دیہات میں بچے
کوڈیاں اور بنٹے یعنی کانچ کی گولیاں کھیلا کرتے تھے اور اس کھیل کے لیے
کچی زمین میں ایک ’’کُھتی‘‘ کھودی جاتی تھیں۔ اردو میں ’’کُھتی‘‘ کا مترادف
مجھے سوجھ نہیں رہا کہہ لیجیے کہ ایک مختصر گڑھا کھودا جاتا تھا اور کانچ
کی گولیاں اس میں لڑھکائی جاتی تھیں اور کسی آپ جیسے بچے کو اس کھیل میں
شریک نہیں کیا جاتا تھا تو وہ رات کے وقت چپکے سے اس ’’کھتی‘‘ کو سیراب کر
دیتا تھا اور کہتا تھا‘ نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے تو میاں صاحب آپ نے
بھی یہی سیرابی فرمائی کہ اگر میں نااہل ہو کر نہیں کھیلوں گا تو پوری
پاکستانی قوم بھی نہیں کھیلے گی۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم‘ تم کو بھی لے ڈوبیں
گے۔ میرا چھوٹا بیٹا سُمیرتارڑ جو کسٹم کے محکمے میں ہے لاہور ایئر پورٹ
اور واہگہ کا انچارج رہ چکا ہے۔ ہندوستانی کسٹم کے محکمے کی دعوت پر ممبئی
گیا اور تاج محل ہوٹل میں قیام کیا۔ جہاں ہندوستانیوں نے ممبئی دہشت گردی
کے حملے کے حوالے سے ایک یادگار قائم کی ہے جس پر ان ڈیڑھ سو لوگوں کے نام
ثبت ہیں جو اس کارروائی کے دوران ہلاک ہوئے اور ان میں مسلمان بھی شامل
ہیں۔ اور ان میں ایک نام کسی ذہین متین کا بھی ہے۔ ممبئی میں جو بھی غیر
ملکی سربراہ آتے ہیں وہ سب اس یادگار پر پھول چڑھاتے ہیں اور ان میں صدر
باراک اباما اور ان کی اہلیہ مشیل بھی شامل ہیں۔ تاج محل کے نواح میں ایک
قدیم اور دنیا بھر میں پہچان رکھنے والا کیفے ہے جس کے ماتھے پر درج
ہے’’1871ء میں قائم شدہ ‘ لیو پولڈ کیفے۔ اینڈ بار‘‘ دہشت گردوں نے خصوصی
طور پر اس کیفے میں موجود لوگوں کو ہلاک کیا اور ان میں زیادہ تر غیر ملکی
تھے۔ اس کیفے کے شیشوں اور کھڑکیوں پر ان کی گولیوں کے نشان چٹخے ہوئے آج
بھی محفوظ ہیں۔ آج تک تو ہندوستانی دعوے کرتے تھے کہ یہ ہلاکت کے کارندے
پاکستان سے آئے تھے اور بہت سے لوگ یقین نہ کرتے تھے لیکن اب شکریہ اے
جاتی عمرہ کے رہنے والے کہ تیرے اقرار کے بعداور کون سا تیرے اقرار پر یقین
نہ کرے گا اگر تو اقرار کرے تو بیس کروڑ پاکستانی انکار کریں تو بھی ہم پر
کون یقین کرے گا۔پہلے تو ہم بھی تیری بھولی شکل کو رنجیدہ اور آنسو بہاتے
دیکھ کر یہ کہا کرتے تھے کہ اگر اسے دوبارہ تخت نہ ملا تو اس کا تختہ ہو
جائے گا تو اس بے چارے کو پلیز دوبارہ وزیر اعظم بنا دو کہ کہیں یہ غریب
بلکتا ‘ فریادیں کرتا ‘ مر نہ جائے لیکن اب جا کر احساس ہوا ہے کہ یہ وہ
بھولا نہیں ہے۔ جیسے کسی محلے میں ایک خاتون بھولی نام کی تھی تو اس پر نظر
بد رکھنے والے نے اسے ایک پیشکش کی تو وہ کہنے لگی’’میں اتنی بھولی بھی
نہیں‘‘ تو میاں صاحب بھی اب جا کر کھلا کہ اتنے بھولے نہیں ہیں۔ بہت سوچ
سمجھ کر ملک کو بدنام اور بے توقیر کرنے کے لیے بقول کسے ہرزہ سرائی کرتے
ہیں‘ جو کیا آئین کی رو سے غداری نہیں ٹھہرتی۔ میاں صاحب کو روک لیجیے۔ ان
سے کچھ بعید نہیں کہ اپنے اگلے انٹرویو میں وہ ہندوستان کو اپنے بھولپن میں
آگاہ کر دیں کہ مودی بھیا میں آپ کو نقشہ بنا کر دیتا ہوں کہ ہمارے ایٹم
بم کہاں کہاں پوشیدہ ہیں۔ بے شک یلغار کر دیجیے لیکن مجھے پھر سے وزیر اعظم
کے رتبے پر فائز کر دیجیے۔ ورنہ میں ’’کتھی‘‘ کو سیراب کر دوں گا۔
|