سابق وزیر اعظم نواز شریف کے متنازع انٹرویو نے ایک نیا
ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے، جس میں انہوں نے ممبئی حملوں کا ذمہ دار کالعدم
پاکستانی تنظیموں کو قرار دیا ہے۔ ممبئی حملوں کے بارے میں پاکستان کے
ریاستی اور قومی بیانیے سے ہٹ کر سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیان کا ملک
کی عسکری قیادت، اپوزیشن پارٹیوں، میڈیا اور عوامی حلقوں نے بجا طور پر
نہایت سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔پاکستان میں کئی تجزیہ نگاروں، سیاسی جماعتوں
اور سیاسی مبصرین نے اس بیان کو افسوسناک قرار دیا ہے۔ کچھ نے نواز شریف کی
طرف سے اس بیان پر ڈٹ جانے کے عمل کو ملک دشمنی سے تعبیر کیا ہے۔ وزیراعظم
شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت پیر کو اس مسئلے پر قومی سلامتی کمیٹی کا
ہنگامی اجلاس ہوا، جس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ، تینوں مسلح
افواج کے سربراہ، وفاقی وزرا اور دیگر اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ اجلاس
میں12مئی کو ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے نواز شریف کے اس بیان کی،
جو ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کے ساتھ انٹرویو پر مبنی تھا مذمت کی گئی۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں بیان کو متفقہ طور پر غلط اور
گمراہ کن قرار دیا گیا۔ اس میں لگائے گئے الزامات کو سختی سے مسترد کیا گیا
اور کہا گیا کہ اس میں ٹھوس شواہد اور حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہ
بھی کہا گیا کہ ممبئی حملوں کی تحقیقات میں تاخیر کا ذمہ دار پاکستان نہیں
بھارت ہے۔ بھارت نے ملزم اجمل قصاب تک رسائی نہیں دی اور جلد بازی میں اسے
پھانسی دے کر حقائق تک پہنچنے کا دروازہ بند کر دیا۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے متنازع انٹرویو کے بعد بھارتی میڈیا نے
پاکستان کے خلاف طوفان بدتمیزی مچایا ہوا ہے۔ بھارتی میڈیا کی جانب سے یہ
کہا جارہا ہے کہ بھارت کئی سالوں سے پاکستان پر ممبئی حملوں کا الزام لگاتا
آرہا ہے، لیکن پاکستان مان نہیں رہا تھا، لیکن اب پاکستان کے سابق وزیر
اعظم خود مان گئے ہیں۔ جس کے بعد یہ کہنا بجا ہے کہ سابق وزیر اعظم نے
بلاشبہ انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، جس سے ہمہ وقت اپنی توپوں کا
رخ پاکستان کی طرف رکھے ہوئے بھارتی میڈیا کو تنقید کا ایک اور موقع مل گیا۔
میاں نوازشریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ ان کی طرف سے
ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان کی توقع نہیں تھی۔ نواز شریف نے جن خیالات کا
اظہار کیا، وہ اس ایشو پر پاکستان کے دیرینہ بیانیے سے مطابقت نہیں رکھتے۔
حقیقت یہ ہے کہ ممبئی حملوں کے فوراً بعد بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر
لگا کر اسے عالمی سطح پر بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ پاکستانی حکومت نے
ان حملوں کی تحقیقات کیلئے بھارتی حکومت سے ہرممکن تعاون کی پیشکش کی جو
بھارتی ہٹ دھرمی اور عدم تعاون کی وجہ سے ممکن نہیں ہو سکی۔ بھارت نے
پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو مرکزی کردار اجمل قصاب سے ملاقات اور پوچھ گچھ کی
اجازت نہیں دی۔ ان حملوں کے حوالے سے کوئی ثبوت اور شواہد پاکستان کے سپرد
نہیں کیے گئے۔ الٹا ان حملوں میں ملوث اجمل قصاب کو فوری طورپر پھانسی دے
دی گئی، حالانکہ بھارت میں ہزاروں پھانسی کے مقدمات برسوں سے زیرسماعت ہیں۔
یوں بھارت نے اہم مرکزی کردار کو پھانسی دے کر تمام ثبوت ضایع کر دیے۔
ممبئی حملوں کے حوالے سے یہ حقیقت سامنے رہنی چاہیے کہ ممبئی حملے پربہت سی
کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں ایک یہودی لکھاری ڈیوڈسن کی کتاب اور دوسری
ہندوستانی پولیس افسر کی کتاب ’’کرکرے کو کس نے قتل کیا؟‘‘ قابل ذکر ہیں۔ان
کتابوں نے یہ ثابت کیا تھاکہ ممبئی حملہ ہندوستانی حکومت کی سازش تھی۔ ان
کتابوں نے ہندوستانی رائے عامہ کوبھی تقسیم کردیا تھا۔ ممبئی سازش کو ایک
جرمن صحافی نے گزشتہ سال ایک الگ جہت سے بے نقاب کیا تھا۔ ایلس ڈیوڈسن کی
کتاب میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ممبئی حملہ بھارت، اسرائیل اور امریکا کا
گٹھ جوڑ تھا۔ جرمن صحافی کے مطابق دہلی سرکار اور بھارت کے بڑے اداروں نے
حقائق مسخ کیے‘ ہیمنت کرکرے اور دوسرے پولیس افسروں کو راستے سے ہٹا دیا
گیا، لیکن سابق وزیر اعظم نے انٹرویو میں جو باتیں کیں، ان سے یہ ظاہر ہوتا
ہے کہ ممبئی کے ہوٹل پر حملہ کرنے والوں کو یہاں سے باقاعدہ تیار کرکے وہاں
بھیجا گیا تھا۔ میاں صاحب کے اعتراف نے پاکستان کو واحد مجرم بنا کر عالمی
دہشت گردوں کی قطار میں لاکھڑا کیا ہے۔ تین بار حکومتی سربراہ رہنے والے
شخص سے اس بات کی توقع ہرگز نہیں تھی۔ ممکن ہے کچھ غیر ریاستی عناصر
استعمال ہوئے ہوں، جس کی وضاحت گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور
سابق وزیرداخلہ رحمن ملک نے اپنے بیان میں دی ہے کہ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘
نے ممبئی حملوں میں ہمارے غیر ریاستی عناصر کو استعمال کیا۔ ایسے میں بھی
میاں نواز شریف کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنا قطعا درست نہیں۔اعلیٰ حکومتی
یا سرکاری عہدوں پر فائز رہنے والوں کے دل تو قومی رازوں سے بھرے ہوتے ہیں،
لیکن وہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی کبھی لب کشائی نہیں کرتے، مگر نواز شریف نے
نااہل ہونے کے بعد واقعی نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔ مسلم لیگ کے بعض افراد
نواز شریف کے بیان کو حق گوئی قرار دے رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ وہ اتنے
سال اقتدار کے ایوانوں میں رہے، دوران اقتدار انہیں حق گوئی کا خیال کیوں
نہیں آیا؟ایسے بیانات دے کر وہ شاید ملک کے ان اداروں کے خلاف اپنا غصہ
نکال رہے ہیں، جن کو اپنی نااہلی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں
کے بقول نواز شریف مکمل طور پر مایوس ہیں اور خود کو سزا سے بچانا چاہتے
ہیں، اسی لیے وہ ایسے بیانات جاری کر رہے ہیں۔ بعض حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ
نواز شریف پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور ان کے اس
انٹرویو کا مقصد اداروں پر دباؤ ڈالنا ہے۔ نواز شریف کا ذاتی مسئلہ جو بھی
ہو، انہیں کوئی ایسا بیان دینے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی، جس سے ملک
کی ساکھ متاثر ہوتی ہو۔ ذاتی مجبوریاں اور سیاسی فائدے اپنی جگہ، لیکن ملکی
وقار سب سے مقدم ہے۔
وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی پہلے تو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں دیگر
تمام شرکاء کے ساتھ اس بیان کو متفقہ طور پر غلط اور گمراہ کن قرار دے چکے،
لیکن بعد میں انہوں نے دو ٹوک موقف اختیار کیا کہ میرے وزیرِ اعظم آج بھی
نواز شریف ہیں، پارٹی آج بھی ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ
ملک و قوم کی عزت و ناموس کی کوئی حیثیت ہی نہیں، اپنی ذاتی وفاداریوں کی
اہمیت زیادہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر وطن اور قوم سے محبت پھر کہاں ہے؟ کئی
مبصرین نواز شریف کے بیان اور ان کی جانب سے اس کے دفاع کو انتہائی خطرناک
قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں اس بیان سے مسلم لیگ نون کو سیاسی طور
پر سخت نقصان ہو گا۔ نواز شریف نے یہ بیان دے کر نون لیگ پر سیاسی خود کش
حملہ کر دیا ہے۔ نون لیگ پہلے ہی ان کے کرپشن کا دفاع نہیں کر پا رہی تھی
اور لوگ ان کی پارٹی چھوڑ کر جا رہے تھے۔ اب ان کے پارٹی کو لوگ بڑے پیمانے
پر چھوڑیں گے۔ اگر نون لیگ نے نواز شریف کے اس بیان سے لا تعلقی نہیں کی تو
پھر اسے زبردست مزاحمت کا سامنا ہو گا اور اگر وزیرِ اعظم نے اس بیان کے
خلاف کوئی ٹھوس موقف نہیں اپنایا تو پھر فوج اور حکومت کے درمیان کشیدگی کی
بڑھے گی۔ نون لیگ کے صدر شہباز شریف نے کہا تھا کہ بھارتی میڈیا نے سابق
وزیر اعظم کے بیان کو توڑ مروڑ ک پیش کیا ہے، لیکن آج نواز شریف کی طرف سے
اپنے موقف پر ڈٹ جانے کے بعد، یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ شہباز مصالحتی جب
کہ نواز مزاحمتی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ بہرحال نواز شریف کے متنازع
انٹرویو ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ کسی بھی سیاست دان کو اپنی ذاتی لڑائی کی
وجہ سے ملکی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ |