تحریر: محمد اویس سکندر، چیچہ وطنی
ایک بزرگ کے انسانوں کے ساتھ ساتھ سانپ بھی مرید تھے کہتے ہیں جب ان بزرگ
کا وصال ہوا توان تک مزارکے صحن میں انسانوں کے ساتھ ساتھ سانپ بھی پڑے
رہتے تھے۔ان سانپوں کی خاص بات یہ تھی کہ وہ کسی کو کچھ نہیں کہتے تھے ۔
لوگ سانپوں کے اوپر سے گزر جاتے انھیں ہاتھوں سے اٹھا لیتے تھے مگر مجال
تھی کہ سانپ کسی کو کچھ کہہ جاتے۔ ایک دفعہ ایک منچلے کا دربار پر آنا ہوا
اس نے سانپوں کو یوں اپنی فطرت سے ہٹتے دیکھا تو بڑا حیران ہوااس نے سانپوں
کو سمجھانے کی غرض سے کہہ دیا دیکھو تمھیں اس دربار سے عقیدت ہے لیکن تم
اپنی فطرت سے ہٹ گئے ہو تمھاری کوئی قدر نہیں رہی کوئی تمھیں پوچھنے والا
نہیں ہے سنو! میری بات مانو گے تو کامیاب ہوجاؤ گے سانپوں نے پوچھا وہ
کونسی بات تو وہ منچلا بولا تم مزار سے عقیدت رکھتے ہو اپنی جگہ لیکن تم
اپنی پھن پھیلایے رہا کرو تاکہ لوگوں کے دلوں میں کچھ تو تمھارا خوف ہووہ
دن تھا کہ وآج کا دن وہ سانپ آج بھی دربار کے صحن میں اپنی پھن پھیلایے پڑے
رہے ہیں مگر کسی کو کچھ نہیں کہتے یہی مثال ہمارے ملک کے سابق وزیر داخلہ
چودھری نثار علی خان پر صادر آتی ہے انھوں نے آج تک اپنی پارٹی پاکستان
مسلم لیگ نون نہیں چھوڑی اور نہ ان سے آنے والے وقت میں پارٹی چھوڑنے کی
امید رکھی جاسکتی ہے اور پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے میں بھی چودھری
نثار علی خان کا کردار ناقابل فراموش ہے چودھری نثار علی خان کی اپنی ہی
پارٹی میں لوگ مخالف ہیں اور بدترین مخالف ہیں ۔ چودھری نثار علی خان ایک
وفادار سیاستدان ہے اس بات کا اندازہ دلوں کے وزیراعظم میاں نوازشریف صاحب
کو بھی ہے۔چودھری نثار علی خان کی عظمت کو سلام پیش کرنا چاہیے کہ ان سے
ایک نجی ٹی وی چینل کے انٹرویو کے دوران سوال کیا گیا کہ کیا آپ میاںمحمد
نواز شریف صاحب کی قےادت میں پارٹی میں رہ سکتے ہیں ؟تو انھوں نے جواب دیا
ہاں بالکل رہ سکتا ہوں، ان سے پھر سوال کیا گےاکہ کیا آپ میاں محمد نواز
شہبازشریف صاحب کی قےادت میں پارٹی میں رہ سکتے ہیں ؟تو انھوں نے ایک پھر
جواب دیا ہاں میں بالکل رہ سکتا ہوں ، ان سے ایک بار پھر سوال کیا گےا کہ
کےا آاپ مریم نواز صاحبہ ےا حمزہ شہباز صاحب کی قےادت میں پارٹی میں رہ
سکتے ہیں ؟ تو انھوں نے جواب دیا بلکل نہیں میں ان دونوں کی قےادت میں بلکل
نہیں رہ سکتا کیونکہ وہ دونوں بچے ہیں اور بچے ہمیشہ بچے ہی رہتے ہیں اور
اگرآئیندہ ایسی نوبت آئی تو میں چپ کر کے علحدہ ہوجاو ¿ں گا کیا اس طرح
دلیری کے ساتھ کوئی اپنی پارٹی کے خلاف بات کرسکتا ہے کیا خواجہ آصف صاحب
ایسے کہہ سکتے ہیں ےا خواجہ سعد رفیق ایسے کہہ سکتے ہیں ےا پاکستان
پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے خورشید شاہ ےا اعتزاز احسن صاحب ایسے کہہ
سکتے ہیں بلکہ آپ ان سب کو اپنی پارٹی کے اپنے سے کم تجربہ رکھنے والے
نوجوان لوگوں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے دیکھتے ہونگے۔میاں صاحب جس سٹیج پر
کھڑے ہیں انھیں چودھری نثار علی خان جیسے مخلص لوگوں کی ضرورت ہے۔میاں صاحب
کا ہر ساتھی ساتھ چھوڑ رہا ہے ۔میاں صاحب اب جو سوچتے ہونگے ان کی اس سوچ
کو سرگودھا سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر جناب سرفراز ضیاءصاحب نے کیسے
احسن طریقے سے قلمبند کیا ہے،وہ لکھتے ہیں
اے خدا ! اتنے طرف دار نہیں مانگے تھے
یار مانگے تھے غدار نہیں مانگے تھے
میاں صاحب کو اب بھی چاہیے کے وہ اپنے گلے شکوے مٹا کر چودھری صاحب کے گلے
لگ جائیں ان کی پارٹی میں چودھری نثار علی خان ہی واحد شخص ہے جو میاں نواز
شریف صاحب کی مدد کر سکتا ہے۔چودھری نثار علی خان وہی شخص ہے جس نے پہلے
بھی میاں صاحب کو ایک بڑے کیس سے بچایا تھا جب میاں صاحب جلاوطنی کاٹ رہے
تھے تب اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی صاحب سے بات کر کے
میاں صاحب کو دوبارہ وطن واپس لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ چودھری نثار
علی خان کوئلے کی کان میں ایک ہیرا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیںکہ چودھری
نثار علی خان پاکستانی سیاست کا واحد شخص ہے جس کے بارے میں اس کے بدترین
مخالفین بھی کہتے ہیں کہ چودھری نثار علی خان اپنی پارٹی پاکستان مسلم لیگ
نون نہیں چھوڑے گا۔
پچھلے دنوں کسووال کے مشہور شاعر راجا وحیدرضا عاجز صاحب کی کتاب © © سوچ
دا سورج کی تقریب رونمائی کسووال سرسید پبلک سکول میں منقد ہوئی جس میں
پاکستان کے معروف شعراءکرام نے شرکت کی جن میں قابل زکر شعراءکرام میں بابا
طالب جتوئی، صابر علی صابر، بدر سیماب، شیر افگن جوہر، ڈاکٹر مرتضی ساجد،
قیصر جعفری، شبیر تہامی، شبیر شاہد، خضر حیات محسن، مظہر شیراز، اسحاق
حیدری، اشتیاق شوق، شاکر جتوئی، اسد رفیع، کاشف حنیف، سراج منیر، گوہر
وریاہ، صفی ہمدانی، سلیم قدرت، جماعت علی انجم، سیف علی سیف اور تسلیم نواز
تسلیم نے شرکت کی۔
راجا وحید رضا عاجز انقلابی اور عوامی شاعر ہے۔ راجا وحید رضا عاجز کے بارے
میں کہا جاتا ہے کہ عاجز جتنا بڑا شاعر ہے اس سے کہیں بڑا اچھا انسان بھی
ہے۔ راجا وحید رضا عاجز ضلع ساہیوال ، تحصیل چیچہ وطنی کے چھوتے سے قصبے
کسووال سے تعلق رکھتے ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جتنا کسووال کو ادبی
دنیا میں روشناس کروانے کا سہرا مشہور شاعر ارشاد جالندھری صاحب ، محمود
الحسن عابد صاحب ، صفی ہمدانی صاحب اور معروف کالمسٹ اور فیچر رائٹر اختر
سردار چودھری صاحب کو جاتاہے اس میں اتنا ہی کردار جناب راجا وحید رضا عاجز
صاحب کا بھی ہے۔
گزشتہ دنوں کسووال پریس کلب رجسٹرڈ (کسووال) میں راجا وحید رضا عاجز صاحب
کے اعزاز میں پروقار تقریب منقد ہوئی جس میں ایس ایچ او تھانہ کسووال جناب
رانا زاہد حسین نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی ان کے ساتھ پاکستان تحریک
انصاف کسووال کے سرگرم رکن جناب احمد نواز نوشہروی اور صحافیوں کی کثیر
تعداد نے شرکت کی تقریب کے اختتام میں جناب راجا وحید رضا عاجز صاحب کو ایس
ایچ او تھانہ کسووال رانا زاہد حسین صاحب نے السردار ایوارڈ شیلڈ پیش کی۔
راجا وحید رضا عاجز صاحب کا پہلا مجموعہ کلام سدھراں دا سورج ۲۰۰۲ءمیں شائع
ہوئی جسے ملک بھر میں ادبی حلقوں کے ساتھ عوامی حلقوں میں بھی بہت پزیرائی
حاصل ہوئی۔راجا وحید ررضا عاجز غریب اور بے سہارا لوگوں کی آواز ہے راجا
صاحب اسی تناظر میں جہیز کو لعنت سمجھتے ہیں وہ اسی حوالے سے لکھتے ہیں ،
ہک ٹی وی نیﺅں داج وچ رکھیا
تے بوہے آئی جنج مڑگئی
آرمی بپلک اسکول کے سانحہ کو دیکھ کر لکھتے ہیں
رت لگی ہوئی ویکھ کے بستیاں نوں ہر ماں دکھیاری ر و پئی
اٹھے جدن جنازے پھلاں دے ، مڑ سیج پیاری رو پئی
چو دھاروں خونی منظر ہا ، تک خلقت ساری رو پئی
دکھ لکھدیاں لکھدیاں ہن عاجز میری سوچ وچاری رو پئی
میں راجا وحید رضا عاجز کو انکی کتاب کی رونمائی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں
اور میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ راجا صاحب اسی طر ح لکھتے رہیں ۔ راجا
وحید رضا عاجز صاحب کی بہترین شاعری میں نمونے کے طور پر کلام کا کچھ حصہ
پیش خدمت ہے جسے پڑھ کر آپ کا دل مزید کلام پڑھنے کو کرے گا۔
رکھدا نہ میں گروی پتر ہوٹل تے
کھاون جوگے جے کر دانے ہو جاندھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائیاں نوں وی وڈ وڈ کھاندے
کتے جڈوں ہون ہلکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سدھراں دا جگنو بن کے
کھیڈاں رات ہنیری نال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک ویلے دی روٹی نوں وی ترسن پئے غریب
آپے بھکے بھانے تسے مرسن پئے غریب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوکھے بھانویں سوکھے عاجز
لنگ تے جانے چار دیہاڑے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظاں دے سنیارے ایتھے بھکے مردے ویکھے نیں
سونا پرکھن والیاں دی پہچان تے کر کے ویکھ لئی اے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|