کرناٹک کے گورنر وجو بھائی والا نے وہی کیا جس کی ان سے
توقع تھی۔ سنگھ کے قدیم سیوک ہونے کے سبب عدل و انصاف تو وہ کر نہیں سکتے ۔
تفریق و امتیازچونکہ ان کی گھٹی میں پلا ہے اس لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ
کمار سوامی کو حلف برداری کی دعوت دیتے۔اب چوری چھپے بدنام ِ زمانہ بی ایس
یدورپاّ کی حلف برداری کرانے کے سوا ان کے پاس چارہ ٔ کار ہی کیا تھا۔ اس
تقریب کووقت مقررہ سے آدھا گھنٹے پیشتر ہی نمٹا دیا گیا ۔ اس رازدارانہ
انداز میں رازداری کا حلف غالباً پہلی بار دلایا گیا ہوگا ؟افسوس کی بات یہ
ہے جس وقت یہ رسم حلف برداری ہو رہی تھی عدالت عالیہ میں اس کے خلاف بحث
جاری تھی ۔ عدالت نےعلی الصبح حلف برداری پر روک لگانے سے تو انکار کردیا
مگر مقدمہ خارج نہیں کیااور بی جے پی کو اپنے حامی ارکان کی فہرست جمع کرنے
کا حکم دے دیا ۔
یہ مقدمہ ابھی زیر سماعت ہی تھا کہ رام جیٹھ ملانی نے ذاتی طور سپریم کورٹ
سے رجوع کیا ۔ انہوں دستوری ضابطوں کی زبردست پامالی اور اس کے سبب آئینی
ذمہ دار کا اختیار کی بدنامی کا سوال اٹھایا ہے۔ چیف جسٹس نے اس کی سماعت
کے لیےبھی تین ججوں کی خصوصی بنچ تشکیل دےدی۔ اس کے بعد عدالت گورنر کے
ذریعہ نامزد کردہ اینگلو انڈین رکن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر ۱۵ دن کی
مدت کو ایک دن میں تبدیل کردیا ۔ بی جے پی نے اپنے ہوس اقتدار میں عدالت کو
سرکاری کاموں میں مداخلت کا موقع فراہم کیا ہے اس سے مقننہ کا وقار پامال
ہوا ہے۔
سنگھ پریوار کے نام نہاد بلند اخلاق و اقدار کی قلعی ایسے مواقع پر کھل
جاتی ہے ۔ ساری دنیا کو پتہ چل جاتا ہے کہ منو سمرتی کس قدر بھیانک تعلیمات
کا حامل صحیفہ ہے اور چانکیہ کیسا ابن الوقت اور موقع پرست سیاسی گرو تھا ۔
یہی وجہ ہے کہ عامتہ المسلمین تو ان پاکھنڈیوں کے چکر میں کبھی نہیں پڑتے
لیکن گوری لنکیش اور پروفیسر کالبرگی جیسے حق پسنددانشور بھی ان کی مخالفت
کرتے ہیں ۔ لنگایت سماج کے رہنماوں کو علی الاعلان ہندو مذہب سے اپنا ناطہ
توڑناپڑتا ہے ۔ اقتدار کے لالچ میں سنگھ پریوار نےسناتن ہندو دھرم کو جس
طرح سے بلی کا بکرا بنایا ہےاس کی مثال تاریخ میں کم ملتی ہے ۔ امید ہے ملک
کے عام رائے دہندگان بھی جلد یا بہ دیر اس گیروے ناٹک کو سمجھ کر اپنے رویہ
کی اصلاح کریں گے۔
ایک سوال یہ ہے کہ وجو بھائی والا اگرگوا میں ہوتے تو کیا وہاں بھی وہ سب
سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے والی کانگریس کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کا موقع
دیتے ؟ یا وہ بہار کے گورنر ہوتے تو نتیش کمار کے ایک نشست میں تین طلاق لے
لینے کے بعد آر جے ڈی کو حکومت سازی کی دعوت دیتے جو ایوان میں سب سے بڑی
پارٹی تھی۔ وہاں تو گورنر صاحب نے نتیش کمار کو عدت کی مدت پورا کرنے کی
ہدایت بھی نہیں کی اور فوراً جے ڈی یو سےبی جے پی کانکاح پڑھا دیا۔ نتیش
کمار کے الگ ہونے کی وجہ لالو یادو پربدعنوانی کے الزامات بتائے گئے تھے
لیکن یدورپاّ کوبھی تو کرپشن کے معاملے میں استعفیٰ دینا پڑا تھا ۔ وہ بھی
جیل گئے تھے یہ اور بات ہے اقتدار میں آنے کے بعد ۲۰۱۶ میں بی جے پی نے
ان کو سارے مقدمات سے بری کروا دیا۔۲۰۱۳ میں پارٹی سےبغاوت کرکے یدورپاّ
نے بی جے پی کی کمرتوڑ دی تھی لیکن شکست کے بعد بی جے پی کو اپنی غلطی کا
احساس ہوا اور ۲۰۱۴ کے قومی انتخاب سے قبل انہیں پارٹی میں واپس بلا لیا
گیا اور اب وزیراعلیٰ بھی بنادیا گیا۔ وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بنالینے کا
محاورہ ایسے ہی مواقع کے لیے وضع کیا گیا ہے۔
احتجاج ومظاہروں کے دوران حلف برداری کے بعد بی جے پی نے کہا کہ کانگریس
اور جنتا دل کا ناپا ک تعلق دیرپا نہیں ہو گا یعنی جب جنتا دل اپنا موقف
بدل کر بی جے پی کے ساتھ آجائے گی تو یہ مقدس رشتہ بن جائے گا۔ زعفرانیوں
کے تقدس کا معیار بڑا دلچسپ ہے ۔ ان کی نظر میں ہندوستان کی بانجھ گائے تو
مقدس ہے لیکن باہر سے آکر ہندوستان میں زیادہ دودھ پلانے والی جرسی گائے
تقدس مآب نہیں ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ابھی تک کرناٹک میں گئو کشی
ممنوع نہیں ہے ۔ بی جے پی کے زیر اقتدار گوا میں بڑے جانور کا گوشت کرناٹک
سے درآمد کرکے کھایا جاتا ہے۔ کیا یدورپاّ کے وزیراعلیٰ بن جانے سے
مہاراشٹر کی طرح وہاں بھی قانون بناکر یہ کاروبار بند کردیا جائے گا؟ یا
کرناٹکی گائے کے ساتھ بھید بھاو کا سلسلہ جاری رہے گا؟
یدورپاّ ۷۵ سال کے ہیں ۔ ان کو مارگ درشک منڈل میں بھیجنے کے بجائے
وزیراعلیٰ بناکر مودی جی نے صاف کردیا کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد ۷۵ سال
عمر کے سیاستدانوں پر پابندی کوئی اصول موقف نہیں تھا بلکہ پارٹی کے اندر
اپنے حریفوں کو ٹھکانے لگانے کی ایک مذموم سازش تھی۔ یدورپاّ کی حلف برداری
سے یشونت سنہا پر کیا جانے والا ارون جیٹلی کا تبصرہ کہ ’۸۰ سال کی عمر میں
ملازمت کی درخواست ‘ بھی ان کے منہ پر آگیا۔ بی جے پی والے کرناٹک کی
کامیابی کا سہرا مودی جی اور شاہ جی کے سرتو باندھتے ہیں لیکن یہ نہیں
بتاتے کہ مودی جی اپنے ہر وزیراعلیٰ کے حلف برداری میں سینہ پھلا کر پہنچ
جاتے ہیں تو یدورپاّ کویہ اعزاز کیوں نہیں بخشا گیا؟ اس بیچارے کو نہ دہلی
بلایا گیا اور نہکوئی بڑا رہنما اسے آشیرواد دینے کے لیے بنگلورو آیا۔
یدورپاّ کے ساتھ کسی اور وزیر نے حلف بھی نہیں لیا۔ بی جے پی والوں کو
غالباً یقین نہیں ہے کہ یہ بیل منڈھے چڑھ پائے گی۔
یدورپاّ نے دعویٰ پیش کرتے وقت گورنر سے ایک ہفتے کا وقت مانگا تھا لیکن
شاہ جی جانتے ہیں لوگوں کو ڈرانےدھمکانے میں اور لالچ دے کر اپنے ساتھ کرنے
کے لیے ایک ہفتہ کافی نہیں ہے اس لیے دو ہفتوں کا وقت دلوا دیا۔ امیت شاہ
کی خوش فہمی بیجا نہیں ہے فی الحال منتخب ہونے والے ۲۲۱ میں سے ۲۱۵ ارکان
اسمبلی کروڈ پتی ہیں ۔ ان میں کانگریس ۹۹ فیصد، بی جےپی ۹۸ فیصد اور جنتا
دل (ایس) کے ۹۵ فیصد ہیں۔ یہ تو وہ دولت ہے جس کا اعلان لازمی تھا لیکن اس
کےعلاوہ اور بھی بہت سارا کالادھن ان لوگوں کے پاس ہوگا ۔ ایسے لوگوں کو
ڈرا نا دھمکانا اور خریدلینا کون سا مشکل کام ہے؟ سو کروڈ کی لالچ کا
معاملہ پہلے ہی سامنے آچکا ہے۔آنند سنگھ نامی ایک ایم ایل اے کو یہ پیشکش
کی گئی اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کے ذریعہ بھی دباو ڈالا گیا ۔ اس کھیل کو
شتروگھن سنہا نے’ جن شکتی پر دھن شکتی ‘کی فتح قرار دیا ہے اور کپل سبل
نے’من کی بات کے بجائے دھن کی بات ‘سے تعبیر کیا۔
مسئلہ صرف دولت کا ہی نہیں ہے منتخبہ ارکان میں سے ۳۵ فیصد لوگ فوجداری
مقدمات میں ملوث ہیں۔ اس معاملے میں بی جے پی سب سے آگے ہے جس کے ۴۱ فیصد
ارکان اسمبلی پر مجرمانہ مقدمات درج ہیں لیکن کانگریس اور جنتادل بھی ۳۱
فیصد پر ہے۔ ایسے مجرم پیشہ دولت کے حریص لوگوں کو اپنے ساتھ کر لینا کون
سا بڑا کام ہے ؟ جنتا دل ایس نے دھمی دی ہے کہ اگر ان کے ارکان پر ڈورے
ڈالے گئے تو وہ بھی بی جے پی والوں کو توڑیں گے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
اس طرح توڑ جوڑ سے قائم ہونے والی سرکار عوام کی خدمت کرے گی یا اس کو لوٹے
گی؟ اس سے بھی بنیادی سوال ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ غریب لوگوں کی آبادی
والے ملک میں عوام کی نمائندگی کرنے کا حق صرف امیرکبیرطبقے تک کیسے
محدودہو گیا ؟ کیا مغربی جمہوری نظام کے پاس اس سوال کا کوئی معقول جواب ہے؟
کرناٹک کا حالیہ انتخاب میں سیاسی پارٹیوں اور ان کے امیدواروں کے ذریعے
خرچ کی گئی رقم کے معاملے میں اب تک کا سب سے مہنگا اسمبلی لیکشن ثابت
ہواہے۔ غیر سرکاری تھنک ٹینک سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز نے اپنے جائزے میں
انکشاف کیا ہےکہاس انتخابی مہم کے دورانگزشتہ کے مقابلے دو گنا یعنی
تقریبادس ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ اس میں وزیر اعظم کی مہم کا خرچ شامل
نہیں ہے اگر وہ بھی شمار کیا جائے تو یہ نہ جانے کہاں پہنچ جائے گا،اس لیے
ان کے تحفظ پر کروڈوں کا خرچ ہوجاتے ہیں۔ قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ اس خطیر
خرچ کے عوض صوبے کی عوام کو کیا ملا؟ ایک معلق سرکار اور گھوڑوں کا بازار
جس میں علی الاعلان ارکان اسمبلی کے آگے چارہ ڈالا جارہا ہے اور وہ اپنی
نیلامی کا دام بڑھا رہے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیاعوام کے فلاح و
بہبود کی خاطر استعمال ہونے والی دولت کا یہ بے دریغ استعمال جائز ہے؟ سی
ایم ایس کے مطابق اگر خرچ کی یہی شرح رہی تو ۲۰۱۹ کے لوک سبھا انتخاب میں
پچاس ہزار تا ساٹھ ہزار کروڑ روپے خرچ ہونے کا امکان ہے۔ اس کے بعد بھی ملک
کو کیا ملے گا ؟ پھر سے نریندرمودی یا راہل گاندھی؟اس سے عام آدمی کے
روزمرہ کی زندگی میں کیا فرق پڑ ے گا؟ اس کے مسائل کس حد تک حل ہوں گے؟
بی جے پی کی نام نہادعظیم کامیابی کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو نہایت دلچسپ
حقائق سامنے آتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ۲۰۱۳ کے مقابلے بی جے پی کے
ارکان اسمبلی کی تعداد ۴۰ سے بڑھ کر ۱۰۴ تک پہنچ گئی لیکن اس کی بنیادی وجہ
یہ ہے کہ ۲۰۱۳ میں یدورپاّ بی جے پی کے خلاف الیکشن لڑ رہے تھے ۔ اس بار
یدورپاّ اور سر ی رامالوکے ساتھ آگئے اس کے باوجود بی جے پی کے ووٹ میں
خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ بی جے پی کے ووٹ کا تناسب اب بھی کانگریس سے دو
فیصد کم ہے ۔ جو لوگ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مودی لہر اب بھی قائم ہے انہیں
ان انتخابی نتائج کاموازنہ ۲۰۱۴ کے قومی انتخاب سے کرنا چاہیے۔ پارلیمانی
انتخاب میں بی جے پی کو ۱۷ نشستوں پر اور کانگریس کو ۹ پر کامیابی ملی تھی
جبکہ جنتا دل کے حصے میں صرف دو نشستیں آئی تھیں ۔ ووٹ کا تناسب دیکھا
جائے تو بی جے پی کو ۴۳ اور کانگریس کو ۴۱ فیصد ووٹ ملے تھے جنتا دل کو ۱۱
فیصد پر اکتفاء کرنا پڑا تھا۔
اس بار بازی الٹ گئی کانگریس بی جےپی سے آگے نکل گئی اور بی جے پی ۷ فیصد
نیچے اتر کر ۳۶ پہنچ گئی۔ جنتا دل نے اپنے ووٹ کا تناسب ۱۸فیصد تک پہنچا
دیا۔ مودی لہر اگر لہر قائم رہتی تو بی جے پی کو ۱۳۴ نشستوں پر کامیابی
ملنی چاہیے تھی جبکہ اس کو ۳۰ نشستوں کا خسارہ ہوا کانگریس کو ۷۵ حلقوں میں
سبقت حاصل تھی جو ۷۸ پر پہنچ گئی ۔ ۲۰۱۹ میں کانگریس و جنتا دل نے اگرمل
کر انتخاب لڑا تو اس الحاق کو ۲۱ نشستوں پر کامیابی مل جائے گی جبکہ بی جے
پی کے حصے میں صرف ۷ نشستیں آئیں گی۔ یدو رپاّ کے وزیراعلیٰ بن جانے سے
عوام میں بی جے پی کے تئیں ناراضگی میں اضافہ ہوگا جیسا کہ اتر پردیش کے
ضمنی انتخاب میں نظر آیا ۔ بی جے پی اپنا گورکھپور کا قلعہ بھی نہیں بچا
پائی۔
۴ سال قبل مہاراشٹر کے اندر بھی اسی طرح کے نتائج آئے تھے۔ بی جے پی سب سے
بڑی پارٹی بن کر تو ابھری لیکن واضح اکثریت سے محروم رہی ۔ اس وقت مہاراشٹر
میں دو علاقائی جماعتیں تھیں ایک شیوسینا اور دوسری این سی پی ۔ شیوسینا نے
بی جے پی کے خلاف انتخاب ضرور لڑا تھا لیکن نتائج کے بعد نرم پڑ گئی تھی
لیکن بی جے پی والوں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ مودی جی نےحلف برداری کی
عوامی تقریب میں ادھو ٹھاکرے کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کیا۔ این سی پی کو
بلیک میل کرکے واک آوٹ کروایا اور سینا کی مدد کے بغیر اعتماد کا ووٹ حاصل
کرنے کے بعد تمام اہم وزارتوں پر قبضہ جمالیا۔ اس کے بعد سینا کو حکومت میں
شامل کرکے بچھی کچھی ہڈیاں (وزارتںر) اس کے آگے ڈال دی گئیں ۔
انتخابی مہم کے دوران دیوےگوڑا نے شیوسینا کے ساتھ بی جے پی کی بدسلوکی یاد
دلا کر کہا تھا کہ وہ کسی حالت میں بی جے پی کے ساتھ نہیں جائیں گے۔
کانگریس نے کمارسوامی کو وزارت اعلیٰ کی کرسی پیش کرکے جنتا دل کو دام میں
لے لیا اور بی جے پی مہاراشٹر والا کھیل نہیں کھیل سکی ۔ اس کے باوجود
انفرادی سطح پر ارکان اسمبلی کو خرید کر رائے شماری کے دن ایوان میں حاضری
سے روکا جاسکتا ہےتاکہ صرف ۲۰۸ ارکان حاضر ہوں اور ۱۰۴ کی مدد سے اکثریت
ثابت ہوجائے۔ اطلاعات کے مطابق رائے چور، بیلگام اور بیلاری کے کم و بیش
۱۲ارکان اسمبلی سے بی جے پی کے رابطے میں ہیں ۔
دولت کے نشے میں چور امیت شاہ ایک کے بعد ایک صوبے سے کانگریس کو بے دخل
کرکے اپنی پشت تھپتھپا رہے ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ قومی صدر
ہیں اور ان کی اصل ذمہ داری آئندہ پارلیمانی انتخاب میں پارٹی کو کامیاب
کرنا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حالیہ رحجانات کے مطابق حزب اختلاف اپنے قدم
جما رہا ہے اور بی جے پی کا حلقۂ اثر سمٹتا جارہا ہے ۔ بی جے پی والے کہہ
رہے ہیں کہ کرناٹک کا انتخاب ۲۰۱۹ کے الیکشن کا ریہرسل ہے ۔ اس بات کو اگر
مان بھی لیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا آئندہ قومی انتخاب میں بی جے پی
کے ووٹ کا تناسب گھٹے گا ۔ کانگریس کے ووٹ کا تناسب اس سے زیادہ ہوگا۔ نیز
اگر کسی طرح زعفرانیوں کو سب سے زیادہ نشستیں مل بھی جائیں تب بھی وہ واضح
اکثریت سے محروم رہیں گے۔ صدر رام ناتھ کووند نے حق نمک ادا کرتے ہوئے
دوبارہ مودی جی کو حلف برداری کے لیے بلا بھی لیا تب بھی وہ ۲۰۱۴ والی شان
سے نہیں ہوگی اور یہ دھڑکا لگا رہے گا کہ کون جانے اعتماد کا ووٹ حاصل
ہوسکے یا نہیں ؟ ویسے اپنے آخری سال میں مودی جی نوٹ بندی جیسی کوئی اور
حماقت کرگزریں تب تو وہ حلف برداری کی زحمت سے بھی بچ جائیں گےاور کسی ناٹک
کی ضرورت نہیں پیش آئے گی ۔ |