ہر ملک کی پالیسیاں حالات کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہیں
لیکن جس طرح سعودی عرب کی مذہبی،سیاسی اور اقتصادی پالیسیاں تبدیل ہوئی ہیں
انکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔سعودی حکومت کی اصلی باگ ڈور جب سے جوان
شہزادے کے ہاتھ آئی ہے اس وقت سے سعودی پالیسیاں راتوں رات تبدیل ہوری ہیں
اور سعودی حکمران اپنے آقا امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی کیلئے جس برق
رفتاری سے سرگرم ہیں اسکی مثال بھی نہیں ملتی۔سب سے پہلے تمام مسلمانوں کا
متفقہ مسئلہ القدس اور فلسطین ہے جس پر گاہے بگاہے سعودی حکمران بھی بیان
دیتے رہتے ہیں مگر جب سے امریکہ نے اپنا سفارتخانہ القدس منتقل کرنے کا
فیصلہ کیا ہے اور اس کے خلاف احتجاج میں شدت آئی اور مظلوم فلسطینی
مسلمانوں پر اسرائیلی فوج نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور ۷۰ سے زائد شہید
اور سینکڑوں کی تعداد مں زخمی ہوئے ہیں اس واقعے پر پوری دنیا نے احتجاج
کیا سوائے دو ملکوں نے ایک امریکہ اور دوسرا سعودی عرب۔ جس کی ایک دلیل یہ
ہے کہ مصر میں اسرائیلی سفیر کا انکشاف ہے جس میں کہا گیا کہ سعودی ولی عہد
پرنس محمد بن سلمان نے اسرائیل کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے، ، یہ طویل عرصے سے
دشمنوں کے درمیان تعلقات میں تبدیلی کے مثبت اشارے ہیں۔
اسرائیلی حکومت کے 70 ویں سالگرہ کا جشن منانے کے لئے مصر کے دارالحکومت
میں ایک تقریب میں ڈیوڈ گوویرن نے اس بات کا اظہار کیا کہ اسرائیلی حکومت
کے عرب زبان کے ٹویٹر اکاؤنٹ نے رپورٹ کیا.
گووین نے کہا، “ہم اسرائیل کے حوالے سے عرب ممالک میں تبدیلی کے بارے میں
بات کرتے ہیں. اس علاقے کے لئے نئی اور بہتر حقیقت کے فریم ورک کے اندر اب
کوئی دشمن نہیں سمجھا جاتا ہے.”
“سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا مصر اور اسرائیل کی جانب سے مشترکہ
استحکام اور اقتصادی ترقی کے نقطہ نظر میں شامل ہو نا ایک اہم سنگ میل ہے”
گووین نے مزید کہا کہ “ہمیں ایران کے حوصلہ افزائی ریاستوں اور دہشت گردی
سے لڑنے کے لئے مشترکہ مفادات بڑھانے کے لئے اضافی ریاستوں کو بھی شراکت
داری میں ساتھ لینا ہے.”
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے حال ہی میں ایک متنازعہ تبصرے پر اپنی رائے
دی جو اسرائیل کے حق میں تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ پہلے سے ہی قابل قبول
اسٹریٹجک اتحاد نے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ایرانی علاقائی ڈرائیوز
کو روکنے میں اپنی باہمی دلچسپی پر فروغ دیا ہے.
پرنس محمد نے گزشتہ مہینے کے دوران کہا ہے کہ اسرائیل اپنے ملک کے لیے “حق
“پر ہے، جس پر شاہ سلمان نے شلغم سے مٹی اتارنے کے انداز میں اپنے بیٹے کے
اس اعلان کو مسترد کر دیا.لیکن درپردہ اسکی حمایت کی ہے۔
بن سلمان نے مبینہ طور پر کہا کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے
کو تسلیم کرنا چاہیے یا “شٹ اپ” ہونا چاہیے.
شہزادے محمد بن سلمان نے ہمیشہ سے جدید اسلام کی تشریح بیان کی ہے اور
ریالوں کے زور پر اپنی بات منوائی ہے۔اب فلسطینیوں کو دھمکی دے کر کہا ہے
کہ یا ٹرمپ کی تجاویز مانو یا منہ بند رکھو۔اس حوالے سے وہ وہابی ملا جو
کبھی اسلام کا نام لیتے نہیں تھکتے تھے اور سعودی عرب کو مسلمانوں کا بڑا
بھائی اور اسلام کا قلعہ گردانتے تھے انہوں نے بھی فلسطینی مسلمانوں کے
خلاف بیان کی حمایت کردی ہے۔البتہ سعودی مفتی حضرات نے اسرائیل کے خلاف
حملوں کو حرام قرار دے رکھا ہے اور اس بیان کی حمایت کچھ بعید نہیں۔
اسرائیلی سفیر کی آوازکے پیچھے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی اور سعودی عرب نے
ایران کے ایٹمی معاہدے سے باہر نکلنے کا فیصلہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا
فیصلہ کیا.
گووین کا مزید کہنا ہے کہ تل ایو اور عرب ریاستوں کے درمیان مشترکہ مفادات
ہیں اور مل کر ہی شام اور لبنانمیں ایٹمی ہتھیار پیدا کرنے اور انتہا پسند
گروپوں کی حمایت کرنے والے ایرانی گروہوں کا سامنا کرنا پڑے گا.
یاد رہے کہ مصر اور اردن واحد عرب ریاستیں ہیں جو اسرائیل کے ساتھ رسمی امن
معاہدے میں ہیں.
|