قارئین کرام یہ کالم مجھے ایک ہفتہ قبل اس وقت لکھنا
چائیے تھا جب بھارتی فوجوں سے آزادی کی خاطر ٹکرانے والے اپنے کشمیری بہن
بھائیوں کی مدد کے لیے سولہ سال کی عمر میں آزاد کشمیر سے خونی لکیر عبور
کر کے جانے والاگمنام نوجوان چوبیس سال بعد بھارتی جیل سے وطن واپس آیا
تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ میں ابھی تک شاق میں ہوں جسکی وجوہات کا اندازہ یہ
کالم پڑھ کرآپ خود لگا لیں گے۔ اس مجائد کا نام ساجد بخاری ہے اور اسکا
تعلق میرے ضلع کوٹلی کے ایک شریف اور مہذب سید گھرانے سے ہے ۔ یہ خاندان
رولی کراس سے چند فرلانگ دور ایک بالائی قصبہ میں رہائش پزیر ہے۔ اس قصبہ
کے پیچھے پہاڑی اور نیچے کوٹلی شہر ہے ارد گرد خوبصورت درخت اور خستہ حال
سڑکیں ہیں۔ ایک عام ادمی کے لیے تعلیم و صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے صاحب
اقتدار اور صاحب ثروت لوگ آزاد کشمیر سے بائر جا کر اپنا علاج کروا لیتے
ہیں اور نجی تعلیمی اداروں میں اپنے بچے پڑھاتے ہیں جبکہ غریبوں کے بچے
ایسے سرکاری اداروں میں پڑھتے ہیں جہاں سے بھاری تنخوائیں لینے والے
اکثراساتذہ سکولوں میں حاضری لگا کر نجی تعلیمی اداروں میں اضافی نوکریاں
کرتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ وہ سیاستدانوں کے بھرتی
کیے ہوئے لوگ ہیں جو سیاسی وفاداری کے بل بوتے پر نوکریاں دیتے ہیں لہذا
غلام دیس کے آزاد لوگوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔سیاسی اپروچ کے بغیر
تھانے کچری میں شنوائی نہیں ہوتی پینے کے لیے صاف پانی نہیں ملتا رشوت کے
بغیر اپنی ہی زمین کی نقل نہیں ملتی پھر بھی ہم خود کو آزاد تصور کرتے ہوئے
اپنے بچوں کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے فخر سے بھیجتے ہیں بلکہ
سب سے پہلے تو مجھ سمیت آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے درجن نوجوانوں نے
یورپ کی پر تعیش زندگی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیاہماری حکومتیں نجی محفلوں
میں کہتی رہئیں ہم نے جو کچھ کیا رضاکارانہ طور پر کیا اس لیے ہمارے حوالے
سے ان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ بیماراور آزادی کی تحریک کو
کاروبار میں تبدیل کرنے والے زر پرستوں نے فرمایا ہم نے کون سا تیر مارا ہے
ہم نے یہ سب کچھ شہرت کے لیے کیا ہے ہم نے یہ سوچ کر در گزر کر دیا کہ دلوں
کے راز خدا جانتا ہے اور وہی سچ اور جھوٹ کا فرق اور نیتوں کے فیصلے کرنے
والا ہے۔
قارئین کرام میرے شاق کی بڑی وجہ یہ ہے کہ میں بھارتی سفارتکار مہاترے کیس
میں بری ہو کر تیرہ سال قبل آج کے دن واپس آیا تھا میرے ہموطنوں نے میرا
مثالی اسقبال کیا تھا دوران اسیری جہاں بے وفائیوں کے زخم کھائے وہاں غیب
سے مدد بھی ملی۔ اپنی زندگی پر میں مزید کچھ نہ لکھونگا کیونکہ یہ کالم سید
ساجد بخاری کے نام ہے مجھے حیرت اور شاق اس لیے ہے کہ آزادی کے ان تیرہ
سالوں میں نام نہاد آزادی پسندوں کے سینکڑوں نہیں تو درجنوں پروگرامات میں
خصوصی شرکت کا موقع ملا ہر سال شہیدوں کی برسیاں منائی جاتی ہیں لیکن ان
تیرہ سالوں میں کسی آزادی پسند تنظیم کے کسی لیڈر کی زبان سے ساجد بخاری یا
بھارتی جیل میں قیدکسی اورحریت پسند کا نام نہیں سنا۔ تحریک آزادی کشمیر کو
اجاگر کرنے اور اسکی خاطر جد وجہد کرنے والوں کے لیے بتیس سالوں سے ایک نام
نہاد کشمیر لبریشن سیل بھی حکومت آزاد کشمیر نے بنایا ہوا ہے جس کے لیے
سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے ہر ماہ زبردستی کٹوتی کی جاتی ہے لیکن اس نام
نہاد لبریشن سیل نے بھی کبھی کسی آزادی پسند قیدی کے لیے وکیل تک نہیں کیا۔
ساجد بخاری کی داستان نے مجھے جو جھٹکا دیا اسکی وجہ سے میں نے بھارتی
جیلوں سے اس سے قبل بری ہو کر آنے والے حریت پسندوں سے بھی معلومات حاصل کی
تو پتہ چلا کہ آزادی کے نام پر پاکستان کی مسلط کردہ نام نہاد حریت کانفرنس
کی طرف سے قانونی مدد تو درکنا وہ آزاد کشمیر سے جانے والے حریت پسندوں کو
کشمیری ہی تصور نہیں کرتے جبکہ خود انہوں نے اپنے بچے یورپ میں تعلیم کے
لیے بھیجے اور پاکستان میں ایسے نمائندے بھیجے ہوئے ہیں جو یہاں آ کر کروڑ
پتی بن گے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر میں کسی قیدی کے لیے کوئی بھی تنظیم وکیل
تک نہیں کرتی اگر کوئی وکیل جائے بھی تو وہ صرف مقامی کشمیر قیدی کو ملتا
ہے ویلی سے بائر ہر ایک کو وہ گجر تصور کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جموں
کشمیر لبریشن فرنٹ نے ان تعصبات کو ختم کرنے کے لیے کشمیری نیشنل ازم کا
نعرہ دیا تھا جس کے پلیٹ فار م سے پہلا شہید اورنگزیب گلگتی تھا ۔ ساجد
بخاری کے ساتھ مقبوضہ کشمیر جانے والے کوٹلی کے فاروق راجہ نے مجھے بتایا
کہ موجودہ تحریک کے ابتدائی دنوں میں بھی گلگتیوں نے جموں کشمیر کی وحدت کی
بحالی کے لیے کافی دلچسپی لی اور انکا ایک گلگتی ساتھی بلال گلگتی بھارتی
مقبوضہ کشمیر میں شہید ہوا مگر متعصب زر پرستوں اور نمائشی لیڈروں نے اس
اجتماعی سوچ و فکر کو اس حد تک نقصان پہنچایا کہ تحریک سرینگر کی چند گلیوں
اور چند لیڈروں تک محدود ہو گئی ہے یہاں تک کہ اب یاسین ملک جیسے وحدت پسند
لیڈر کے علاوہ لبریشن فرنٹ کے کسی اور قیدی کا نام سننے کو نہیں ملتا لیکن
جس طرح ساجد بخاری چوبیس سال تک گمنام قیدی رہا اس طرح اور بھی کئی گمنام
قیدی ہونگے عام لوگوں کو تو نہیں علم لیکن ان کم عمر مجائدوں کو مقبوضہ
کشمیر بھیجنے والوں کے پاس تو لسٹ ضرور ہو گی لہذا یہ لسٹ منظر عام پر لائی
جائے تاکہ پتہ چلے کہ ہمارے کتنے نوجوان شہید ہو گے اور کتنے جیلوں میں بند
ہیں۔ ساجد بخاری اور فاروق راجہ سے جب میں نے پوچھا کہ آخر انکی رہائی کا
راستہ کیسے ہموار ہوا تو انہوں نے کہا کہ ایک سبب یہ تھا کہ انہوں نے طویل
بھوک ہڑتال کی جسکا سنکر انسانی بنیادوں پر کام کرنے والے وکیل بھیم سنگھ
نے کئی قیدیوں سے رابطہ کیا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ بھارتی حکام کو ازیت ناک
تفتیش کے دوران جب پتہ چلتا تھا کہ ہمارا تعلق آزاد کشمیر سے ہے تو وہ
بھارت میں پاکستانی سفارت خانے کو قیدیوں کی لسٹ بھیجتے تھے۔ سفارت خانے کا
نمائندہ جیل میں آ کر ہمارے نام اور گھر کی معلومات لیتا تھا جس کے بعد
ہماری واپسی کی کاروائی کا آغاز ہوتا تھا۔ بری ہو کر آزاد کشمیر واپس آنے
والے جس بھی قیدی سے میں نے پوچھا کہ ہر تنظیم آزادی کے نام پر روز اول سے
جو بھاری رقم جمع کرتی ہے آپ کے نزدیک وہ رقم کہاں جاتی ہے تو سب نے کہا
انہیں کوئی علم نہیں لیکن آزادی کشمیر کے کسی قیدی کو کوئی ذاتی یا قانونی
اخراجات نہیں ملتے بلکہ فیلڈ میں بھی دو وقت کی محدود خوراک کے علاوہ کوئی
جیب خرچ نہیں ملاجو بھی حریت پسند مقبوضہ کشمیر سے واپس آیا اسکا کہنا ہے
کہ اسے بھارتی تشدد اور بھوک پیاس اور دیگر تکالیف کا کوئی دکھ نہیں بلکہ
ساجد بخاری تو کہتے ہیں قربانیاں دینا رسم حسینی ہے حریت پسندوں کو بس دکھ
اور تکلیف اس تعصب کا ہے جسکا وہ ویلی کے ان کشمیر لیڈروں کے ہاتھوں شکار
ہوئے جنکی خاطر وہ اپنا گھر بار ماں باپ بہن بھائی چھوڑ کر انکی مدد کے لیے
گے مگر انہیں بے چارے یا گجر کا لقب ملا ویلی کے عام کشمیریوں کو بہت مہمان
نواز اور مہربان قرار دیا گیا لیکن سیاسی لو گ ان کشمیریوں کی اولاد نہیں
لگتے۔ قارئین کرام ہم نے دلبرداشتہ نہیں ہونا بلکہ تعصب پیدا کرنے والے
فصلی بٹیروں کے خلاف بھی اصلاحی جنگ لڑکر پوری قوم کو تسبیح کے دانوں کی
طرح ایک لڑی میں پرونا ہے۔
|