بچپن سے ہی سیاست میں انٹری مارنے کا شوق سر چڑھ
گیا۔چھوٹا سا تھا جب باپ کے ساتھ کونسلر، ایم پی اے، ایم این ایز کے دفا تر
میں کسی نا کسی کام کی غرض سے جایا کرتا تھا میرے باپ کو سیاست کا شوق تو
نہیں تھا مگر ان سیاست دانوں سے میل ملاپ رکھنے کی لت سی لگی تھی۔ میں
دیکھتا تھا سیاست دانوں کا اٹھنا ، بیٹھنا بڑے رعب دار طریقے سے ہوتا تھا۔
کوئی بحث کرنے پر آ ئے تو اسے گالی دے کر چپ کرواتے دیکھنا تو دل میں ہنس
دینا۔ماں باپ نے پڑھایا لکھایالیکن ایک ہی غرض سے،تاکہ اچھی نوکری کر سکوں
۔۔ باپ کہتا تھا بیٹاجتنی جلدی ہو سکے پڑھائی مکمل کرلے تاکہ اپنے تعلق کی
بنا پر تجھے اچھی نوکری پر کھڑا کر دوں۔۔!مگر پڑھائی کے دوران میرا ارادہ
تبدیل ہوگیا دل میں ٹھان لی کہ نوکری تو کسی کی نہیں کرنی ایک سیاست دان بن
کر سامنے آؤ ں گاتاکہ زندگی جینے کا مزہ آسکے جہاں بھی جاؤں لوگ اس طاق میں
رہیں کہ میں کوئی آرڈر کروں اور وہ پورا کرنے کے لیے بے چین نظر آئیں۔۔
خیر پڑھائی مکمل ہوئی اسی دوران میں نے کافی محلہ اور اِدھر اُدھر کے
دوستوں سے اپنی بات شئیر کی کہ میں نے اپنی زندگی کو کیسا رنگ دینا ہے۔باپ
نے ان سیاست دانوں سے جو تعلق قائم کیا تھا اُس بنا پر سرکاری نوکری اچھے
گریڈ کی انسے مانگ کی انہوں نے اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے ٹال مٹول کرنا
شروع کر دیا۔ خیر کچھ مجھے بھی سرکاری نوکری کی طلب نہیں تھی میں نے ایک
سیاسی پارٹی کی ممبر شپ حاصل کی انکے جلسے جلوسو ں میں دھمال بھی ڈالی یعنی
جو کہتے کرتا چلا گیا الیکشن قریب آئے تو کونسلر کا الیکشن لڑنے کے لیے
پارٹی عہدے داران سے بات کی انہوں نے کہا بیٹا بڑی جلدی ہے تجھے؟؟ ابھی
چھوڑو جانے دو بعد میں دیکھا جائے گا،میں سب سمجھ گیا کہ مجھے آگے نہیں آنے
دیں گے۔ محلے میں سب دوست اکٹھے کیے کلب میں بلایا سگریٹ وغیرہ پھونکی پلان
بنانے شروع کر دیے ایک طرف اس معاشرے کے لیے کچھ اچھا کرنے کی لگن بھی تھی
تو دوسری طرف اس دفعہ کونسلر بننے کا جنون بھی سوار تھا ۔ میں نے آزاد
امیدوار کے طور پر اپنا نام درج کروایا ، فلیکسز بھی چھپوائیں کچھ گلی میں
لگا دی کچھ کلب میں ۔ کچھ وقت کے لیے پیسوں کا مسئلہ بھی بنا مگر پھر کبھی
گھر سے لے لیے اور جوا تو میں کلب میں کھیلتا ہی تھا الیکشن میں دو دن رہ
گئے تھے محلے میں ہر بندے کی ڈیمانڈز ایک سے بڑھ کر ایک تھی کسی کو گھر کا
راشن چاہیے کسی کو ایک دو دن کے لیے میری بائیک چاہیے۔ نوٹ(فضول گھومنے کے
لیے) میں ہر ایک کو جس طرح ہوتا گیا Manage کرتا گایااگر یہ سب نہ کرتا
کوئی ووٹ نہ دیتا۔ جتنا ہو سکا عوام کو پیسا کھلایا اور ووٹ بینک بناتا گیا،
رات کو جوا تو میں کھیلتا ہی تھا محلے کے سب نو جوان ساتھی جانتے تھے مگر
پھر بھی بجھے ہی اپنے محلے کا کونسلر منتخب کیا ۔۔ کیوں نہ کرتے جناب سب نے
مجھ سے اپنا اپنا مطلب پورا کیا تھا ،
چار سال گزر گئے جتنا ہو سکے اپنے ووٹرز کا ساتھ دیا ہر غلط کام کا خیال
کیے بغیر انکے ساتھ چلا۔ بلا آخر سیدھا ایم پی اے کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ
کیا اسی دوران پارٹی کے کچھ لوگوں سے ملا قاتیں بھی ہوتی رہیں جس پارٹی نے
مجھے کونسلر کا الیکشن اپنی طرف سے لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی لیکن خیر
سیاست مفاہمت سے ہی ہوتی ہے اتنا تو سیکھ چکا تھا ۔ میرا حلقہ میرا ساتھ دے
رہا تھا اور پارٹی کو اسکا بہت اچھے سے اندازہ ہو چکا تھاان چار سالوں میں
مار دھاڑبھی کی اپنے فریق لوگوں سے،محلے میں کلب بھی بنا لیے تھے ، تھانے
والوں سے بھی اچھی ہیلو ہائے ہو چکی تھی بہر کیف جب پارٹی کے چیئر پرسن سے
ملاقات ہوئی انکی طرف سے پارٹی کو فنڈ دینے کا اشارہ کیا گیابعد میں انکے
کچھ حواری ملے تو سیدھی بات کی کہ دو کروڑ دے دو ٹکٹ تمہارہ بلکہ اس حلقے
کی پکی سیٹ تمہاری ۔کہنے لگے حلقے کی حالت تو تم جانتے ہو پانچ سو ہزار
جسکے بھی منہ پر مارو گے ووٹ تمہیں ہی دینگے ۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ضمیر
بیچنے والے جب تک زندہ ہیں خریدنے والے موجود رہیں گے ۔۔ میں نے کچھ دن
سوچالوگوں سے ملاقاتیں کی بہت سے انویسٹر مل گئے جو اپنے دھندے چلانے کے
لیے مجھ سے میل ملاپ رکھنا چاہتے تھے ۔ میں نے پارٹی کو دو کروڑ دے کر ٹکٹ
خرید لیا اُدھر عوام کو پیسا کھلایا اور آخر کار ایم پی اے بن کر صوبائی
اسمبلی تک پہنچ گیا ۔
جس دوران کروڑوں کے اخراجات لے دے کر پورے کرتا رہا اب سمجھ آچکی تھی کہ
کرپشن کا نام صرف سیاست دان پر ہی کیوں استعمال ہوتا ہے ۔کیا جس نے مجھ سے
پانچ سو، ہزار لے کر ووٹ مجھے ہی دیا تھا وہ کرپشن نہیں تھی؟؟پارٹی کو دو
کروڑ دیئے ٹکٹ خریدا اور جو اِدھر اُدھر کے اخراجات کیے حلقے کی عوام کو
کھلایا اب وہ سب پیسے پورے کرنا میرا فرض نہیں تھا؟؟ اور پھر سیاست سے
بندھے رہنے کے لیے اگلے الیکشن کے خرچے کہاں سے پورے کرنے تھے جناب۔۔؟
خیر ، اسکا بندوبست میری پارٹی نے اس طرح کیا کہ مجھے ایک ادارے کا چیئر
مین منتخب کر دیا ۔ اگلا کام پھر میرا تھا ۔۔ میں نے اس ادارے کے لیے نوکری
کی پانچ سو نشستیں نکالیں پھر انکو جہاں تک ممکن ہو سکا بیچا اور پیسا
بنایا، ارے پڑھنے والو مجھے غلط مت سمجھواب اتنا پیسا لگا کر میرا بھی کچھ
حق ہے کہ نہیں ؟؟
اب آپ سوچ رہے ہونگے میڈیا میں کیسے انٹری ماری ایک پاک صاف شخص کے طور
پر؟؟لو پھر سنو میڈیا کے کچھ نمائندے مجھ سے پیسے لے کر میری من چاہی خبر
لگواتے تھے آخر انہوں نے کہاں سے کھانا تھا؟میڈیا کو پیسا کھلا کر اپنی من
چاہی خبر لگوانا آپ اس بات کو غلط سمجھتے ہیں؟ تو پھر میڈیا بھی کرپٹ ہے وہ
مجھ سے پیسا لے کر اپنا پیسا بناتا تھا تب انکی اخلاقیات کہاں جاتی اور
آزاد صحافت کس کھڈ میں گھس جاتی تھی؟ مخالفین سے نمٹنے کے لیے تھانے کو بھی
پیسے دیئے، الیکشن کے دنوں میں جس نے مجھ سے زیادہ پنگے بازی کی تھی اسکو
راستے سے ہٹوانے کے لیے قتل بھی کروایا تھا جب عدالت میں کیس گیا تو پہلے
دل میں ایک ڈر سا تھا کہ کہیں لٹک ہی نہ جاؤں۔۔ ہر تاریخ میں فیصلہ میرے
خلاف جا رہاتھا اسکو اپنے حق میں کروانے کے لیے جھوٹے گواہ خریدے ، جج سے
کسی طور رابطہ کیا اسکو اسکی من پسند سوسائٹی میں عالی شان گھر بنوا دیا
اور کیس کلیئر کروا لیا اب مجھے بتائیں میں غلط تھا؟ عدالتوں میں آپ آج چلے
جائیں کیس کے بطابق آپکو سستے مگر جھوٹے گواہ مل جائیں گے۔۔ جناب میں نے سب
کو پیسے بنا کر دیے سب کا بھلا کیا اور جس نے پنگا لیا اسکا ڈٹ کر مقابلہ
بھی کیا مجھے بتائیں آج ہر بندہ اپنے آپکو بدمعاش کہلوانا پسند کرتا ہے
کوئی اونچا بولے تو اسکو مارنے تک آجاتا ہے لیکن میں تو سیاسی بندہ تھا
برداشت سے کام لیا اور تحمل مجازی سے ہر مسئلے کو حل کیا ۔۔ سنو میں سیاست
دان ہوں مجھے کرپٹ کہنے سے پہلے اپنے آپ کو دیکھیں مجھے ووٹ فری میں نہیں
دیا کسی نے اسکے بدلے پیسے دیے اگر کسی نے پیسے نہیں لیے تو اسکے illegal
کام کو Legal میں ٹرانسفر کروا کر پورا کیا ، یہاں صرف سیاست دان کی کرپشن
نظر آتی ہے وہ کسی نے نہیں دیکھا جو اس معاشرے نے میرے ساتھ کیا ۔۔! میں نے
پیسے دے کر ووٹ لیا کسی نے بھیک میں ووٹ نہیں ڈالا مجھے ، جو میڈیا میرے
خلاف باتیں کرتے ہیں وہ زرا اپنے رپورٹرز کو میرے سامنے لے کر آئیں اور
بتائیں کتنے پیسے ایک مہینے کے دیتا تھا اور اپنی خبر شائع کرواتا تھازرا
اس تھانے والوں کو میرے سامنے کھڑا کر کے پوچھیں جب جب جو جو، ڈیمانڈزکی
میں نے کب انکا ر کیا کہ مجھ سے پوری نہیں ہونی؟؟ زرا اس جج کو میرے سامنے
لے کر آئیں جو میرے پیسوں سے بنے ہوئے گھر میں اپنی آسائشوں کو آج پورا کر
رہا ہے، میں نے سب کے لیے پیسے بنائے اکیلے نے نہیں کھائے سب کو کھلائے تو
میں نے بھی آخر پیسے کمانے ہیں کسی نا کسی طریقے سے۔۔ محمدﷺ نے کہا تھا جو
جھوٹ بولے گا وہ ہم میں سے نہیں ،کم تولے گا وہ ہم میں سے نہیں ،تو اس لحاظ
سے اگر دیکھا جائے تو سارے ملک کو ایک دفعہ ذبح کر دیں کیونکہ اس لحاظ سے
سارا ملک ہی گناہ گار ہے میں اکیلا نہیں ہوں یہ سارا کچھ جسے آپ کرپشن کہتے
ہیں یہ میرا حق ہے اور میں اپنے حق کو باقاعدگی سے ادا کرتا رہوں گا ۔
(یہ سب کچھ سوچ کر سمجھ میں آیا مسئلہ سیاست دان کی کرپشن کا نہیں ہے
معاشرے کے رویے کا ہے یہاں جس کی جتنی چونچ ہے اتنا پانی اپنے منہ میں بھر
لیتا ہے جسے آپ یا میں غریب کہتے ہیں وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کھلے آسمان تلے
سارا دن اپنا کچھ سامان بیچتا ہے لیکن وہ وہاں سے راہ گزر کا راستہ روک کر
اپنی ٹوکری رکھ کہ روزی کما رہا ہے کہا یہ حلال ہے اسکے لیے؟ اصل میں وہ
خود ایک چھوٹے لیول کا قبضہ کرنے والا بندہ ہے اور ووٹ وہ اپنے سے بڑے قبضہ
گروپ کے سردار کو دیتا ہے کیا یہ سب کچھ جائز ہے؟ آخر میں صرف اتنا ہی کہوں
گا کہ پاکستان کے حالات بدل تو جائیں گے مگر کچھ ہزار سال تک انتظار کرنا
پڑے گا شاید تھوڑی سی بہتری آجائے آپ بھی دعا کریں میں بھی دعا کرتا ہوں
کیونکہ دعا ہی کر سکتے ہیں دوا کبھی نہ کی ہے کسی نے نا ہی کرنے دی جاتی ہے
اب چونکہ دوا کرنے کے لیے سچ بولنا پڑتا ہے وہ کسی کو برداشت نہیں ہوگا)’’
قلم خاموش‘‘ |