آ بیل مجھے مار

نواز شریف کے بارے میں اگر یہ لکھاجائے کہ ان کے ہوتے ہوئے ان کی جماعت کو موجودہ حالات میں کسی اپوزیشن ،مخالف کی ضرورت نہیں ہے تو بے جانہ ہوگا۔اردو کا مشہور محاورہ ان پر صادق آتا ہے کہ آبیل مجھے مار ۔ان کی جماعت اور وہ خود گزشتہ ایک سال سے نامساعد حالات کا شکار ہیں ۔عدالتوں ،نیب کی سماعتیں جاری ہیں ان کے لئے جیل کی صفائی ستھرائی کابھی سنا جارہا ہے ۔ایسے حالات میں انہیں اور ان کی جماعت کو ڈرپ کی اشد ضرورت ہے چہ جائیکہ وہ مذید محاذ کھولتے لیکن لگتا ایسا ہے کہ انہوں نے ٹکراؤ کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کرلیاہے یہ فیصلہ اسٹیبلشمنٹ اور خلائی مخلوق کے خلاف انہوں نے جھنجلاہٹ میں کیا ہے یا جان بوجھ کر آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن انکے جارحانہ رویے سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ انہوں نے ماضی کی طرح اب بھی بیک فٹ کی بجائے جارحانہ بلے بازی کا فیصلہ کیا ہے ۔لگتا ایسا ہے کہ وہ انگریزی کے محاورے LLuck Favour the brave پر عمل پیرا ہیں ایک طرف وہ بمبئی حملے کے بارے میں دیئے گئے اپنے بیان پر قائم ہیں تو دوسری جانب ان کی جماعت کے صدر اور بھائی شہباز شریف ،وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صفائیاں دینے پر مجبور ہیں ۔یعنی جارحانہ اور دفاعی دونوں حکمت عملیوں پر کام جاری ہے ۔نواز شریف کے ڈان نیوز کو دیئے گئے انٹرویو کے نکات کچھ بھی ہوں اس سے ان کی اور ان کی جماعت کی مشکلات کے علاوہ پاکستان کی بھی عالمی سطح پر مشکلات میں اضافہ ہوا ہے ۔امریکہ نے ڈو مور کا مطالبہ پھر دہرایا ہے ۔بھارت نے دوبارہ آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں ۔حالانکہ بمبئی حملے کے سلسلے میں ان کو عالمگیر سطح پر پہلے پزیرائی نہیں مل سکی تھی ۔الٹا امریکہ اور (را) کو اس واقعہ کا ذمہ دار ایک انگریز مصنف نے اپنی کتاب میں ٹہرایا تھا لیکن نواز شریف کے بیان نے تمام توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیاہے ۔سوشل میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور عوام کی رائے کے مطابق بھی لوگوں کی رائے اس سلسلے میں نواز شریف کے بارے میں مثبت نہیں ہے ۔پی ایم ایل این والے ہر وقت عوا م اور ووٹ کی بات کرتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو الیکشن تما م مسائل کا حل ہے ۔الیکشن فیصلہ کرے گا کہ نواز شریف نے کرپشن کی ہے کہ نہیں ان لاجک لگتا ہے ۔عوام میں اسے ہرگز پزیرائی حاصل نہیں ہوسکتی ہے ۔ہوسکتا ہے کہ پنجاب کی حد تک ایسا ہوجائے لیکن دیگر صوبوں میں ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ ان کے پانچ سالہ دور میں خصوصاًکے پی کے اور بلوچستان کی عوام کے ساتھ کچھ بہتر سلوک نہیں کیاگیا ۔لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن پنجاب کے علاوہ دیگر تینوں صوبے بدترین لوڈشیڈنگ کا شکار چلے آرہے ہیں ۔سردی گرمی اب رمضان کے ماہ مقدس میں بھی سحری وافطاری کے اوقات میں بھی لوڈشیڈنگ جاری ہے۔سی پیک کا مغربی روٹ جوکہ ڈیرہ اسماعیل خان سے ہوکر گزرتا تھا جس سے پورے صوبے کو معاشی اقتصادی ،زرعی ،دفاعی ،صنعتی لحاظ سے تقویت ملتی کے بارے میں جھوٹے وعدے کیے گئے ۔اس روٹ کو سب سے پہلے مکمل کرنے کا وعدہ کرکے مکر گئے ۔اب صرف ایک رویہ سڑک دی گئی ہے اس پر بھی ڈیرہ ژوپ روڈ پر تاحال ایک اینٹ تک نہیں لگائی گئی ہے ۔اکنامک زون ،ریل کی پٹری وغیرہ ڈیرہ تا پشاور موٹر وے کی تعمیر کے خواب صرف خواب ہی رہے ۔مغربی روٹ کے سلسلے میں پی ایم ایل این کے علاوہ پی ٹی آئی کی حکومت اور مولانا فضل الرحمٰن بھی اس کوتاہی میں برابر کے شریک ہیں جو جنوبی اضلاع کی پسماندگی کو دور کرنے کے خواہش مند نہیں ہیں ۔بلوچستان بھی اربوں روپوں کی کرپشن اور دہشت گری کا شکار ہے ۔وہاں کی عوام بھی حکمرانوں سے خوش نہیں ہیں جس کا ثبوت وہاں کے وزیر اعلی کی تبدیلی اور سینٹ الیکشن میں دیکھنے کو ملا ۔ایسے حالات میں جب پی ایم ایل این کو آخری دنوں میں کچھ کرنے کی ضرورت تھی ۔نواز شریف نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارکر کوئی اچھا اقدام نہیں کیا ۔ ان کی جاتے جاتے شہیدوں میں نام لکھوانے کی پالیسی کا میاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے ۔ان کے بقول اگر اسٹیبلشمنٹ ان کی حکومت کے ہر وقت خلاف رہی ہے اور وہ اسے چلنے نہیں دیتی تو پھر توا ن کے لئے آئندہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا مشکل نظر آتاہے ۔ویسے بھی اب یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان میں اقتدار کی ڈور کوئی اور ہلاتا ہے صرف چہرے بدلتے رہتے ہیں ۔جنوبی پنجاب میں جو کچھ ہوا اس طرح اب لوگ وفاداریاں تبدیل کرکے پاک صاف ہوکر پی ٹی آئی میں دھڑا دھڑ شمولیت اختیار کررہے ہیں اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے لیکن باوثوق ذرائع نے انکشاف کیا کہ خلا ئی مخلوق کے ذریعے جو نگران سیٹ اپ ترتیب دیا جارہا ہے اسے دواڑھائی سال تک طول دینے کا مبینہ پروگرام بھی زیر غور ہے بہرحال اب یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ پاکستان میں خلائی مخلوق ،اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی ہمیں حقیقی جمہوریت سے دور رکھے ہوئے ہے ۔اس مکروہ کھیل نے ہمیں ترقی سے دور رکھا ہوا ہے ۔آج ہم ہرطر ف سے دباؤ کا شکار ہیں ہمارے اندرونی وبیرونی دونوں حالات ناگفتہ بہ ہیں ۔ہم نے ملک دولخت ہونے کے بعد بھی سبق حاصل نہیں کیا ۔اب بھی وقت ہے کہ ہم جس کا کام ہے اسی کو کرنے دیں۔ہر کوئی اپنے دائرے میں رہ کر اخلاص کے ساتھ ملک کی خدمت پر توجہ موکوز رکھے بصورت دیگر حالات کے اشارے ہمارے حق میں مثبت نہیں ہیں ۔
٭٭٭

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137746 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.