پاکستان کی تاریخ میں پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان
اور2018کے 22ویں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہیں ۔2018ء کا نگران وزیر اعظم
کون ہوگافیصلہ جلد ہوجائے گا ۔وزیر اعظم پاکستان ایک سیاسی رہنما اورحکومت
کا سربراہ ہوتا ہے،اور وہ کابینہ ،اور دیگر اہم حکومتی عہدیداروں کو منتخب
کرنے کا پابند اورقومی اسمبلی کے عام انتخابات منعقد کرنے کے سلسلے کا
فیصلہ کرتا ہے۔ 1947ء میں آزادی کے بعد ہندوستانی آزادی ایکٹ 1947ء کے تحت
اس عہدے کو قیام پاکستان کے فوراً بعد تخلیق کیا گیا۔اور 1947سے2018 تک چند
وزیراعظم اپنی مقررمدت پوری کرسکے۔تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے پہلے لیاقت
علی خان ک وگورنر جنرل آف پاکستان کی جانب سے 1947 میں پاکستان کا پہلا
وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انھیں 1951 میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کے دوران
میں قتل کیا گیا اور انکی جگہ خواجہ ناظم الدین نے لی۔ 1951ء میں لیاقت علی
خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ انہیں اس
عہدے سے اسوقت جدا ہونا پڑا جب ملک غلام محمد نے 1953ء میں ان کی حکومت
تحلیل کردی۔ پاکستانی سیاست میں نسبتاً کم پہچان رکھنے والے محمد علی بوگرہ
صاحب نے بطور وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی جگہ لی۔ اسکندر مرزا تب کے
گورنر جنرل نے 1955ء میں ان کی حکومت ختم کردی۔ ان کے بعد چوہدری محمد علی
نے 1955ء میں ان کی خالی کرسی سنبھالی۔ انہوں نے 1956ء میں گورنر جنرل سے
اختلافات کے باعث عہدے سے استعفا دیا۔ حسین شہیدسہروردی ایک سال سے کچھ
عرصے زیادہ اس عہدے پر رہے پھر انہوں نے بھی اسکندر مرزا سے اختلافات کی
بنیاد پر اس سے علیحد گی اختیار کی۔سہروردی کے بعد سکندر مرزا نے فیروزخان
نون منتخب کیا۔ وہ اس عہدے پر دو ماہ رہے پھر انھوں نے اس سے دسمبر 1957
میں مستعفی ہو کر الگ ہوئے۔نون پاکستان کے ساتویں وزیر اعظم تھے۔ انھیں
1958ء کے فوجی بغاوت میں ہٹا دیا گیا۔نور الامین کو یحییٰ خان نے آٹھویں
وزیر اعظم کے طور پر منتخب کیا، وہ پاکستان کے پہلے اور واحد نائب صدر تھے
جو اس عہدے پر 1970ء سے 1972ئتک رہے اسی دوران پاک بھارت 1971 کی جنگ چھڑی
تھی۔ذولفقار علی بھٹونے 1973ء کے آئین کی منظوری کیے بعد وزیر اعظم بننے کے
لیے صدارت سے استعفا دیا جس کے تحت ملک کو پارلیمانی ریاست قرار دیا گیا
تھا۔ انھیں 1977ء میں محمد ضیاء الحق کی سرکردگی میں ہونے والی فوجی بغاوت
کے باعث ہٹا دیا گیا۔محمد خان جونیجو پاکستان کے بنا پارٹی انتخابات کے
ذریعے اس عہدے پر پہنچے،لہذا وہ بغیر کسی سیاسی وابستگی کے یعنی آزاد طور
سے دفتر میں داخل ہوئے لیکن اسے قبل وہ پاکستان مسلم لیگ سے وابستہ تھے۔
انہیں صدر نے آئین میں آٹھویں ترمیم کے بعد اسے عہدے سے برخاست کیا۔بینظیر
بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون تھی جو ایک بڑی جماعت کے سربراہ تھیں۔1988ء میں
وہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون سربراہ حکومت بنی۔غلام مصطفی ٰ جتوئی کو صدر
پاکستان غلام اسحٰق خان نے بطور قائم مقام وزیر اعظم کے منتخب کیا۔نواز
شریف یکم نومبر، 1990ء کو پاکستان کے 12 ویں وزیر اعظم بنے۔صدر غلام اسحٰق
خان نے ان کی حکومت ختم کی جسے بعد میں عدالت عظمیٰ پاکستان نے کالعدم قرار
دے کر انہیں بحال کیا۔بلخ شیر مزاری کو صدر غلام اسحٰق خان نے بطور نگراں
وزیر اعظم تعینات کیا،ان کی میعاد اس وقت ختم ہوئی جب سپریم کورٹ آف
پاکستان نے صدارتی حکم نامے کو غلط قرار دیا۔نواز شریف کو غلام اسحٰق خان
نے آئین کی آٹھویں ترمیم کے ذریعے اپریل 1993ء میں انہیں ہٹانا چاہا لیکن
انہوں نے کامیابی سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اسے چیلنج کیا۔نواز شریف نے
جولائی 1993ء میں ایک معاہدے کے تحت استعفا دیا جس کے باعث صدر کو بھی اپنا
عہدا چھوڑنا پڑا۔معین الدین احمد قریشی کوجولائی 1993 میں نواز شریف کے بعد
بطور نگراں وزیر اعظم کے عہدہ سنبھالا۔بینظیر بھٹودوسری دفعہ 1993ء میں اس
عہدہ پر آئیں۔1995ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے انہیں ہٹانے کی کوشش کامیاب نا
ہو سکی۔فاروق لغاری نے نومبر 1996ء میں انہیں عہدے سے برخاست کیا۔معراج
خالدکو بینظیر بھٹو کی حکومت کے بعد نگراں وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔نواز
شریف فروری 1997ء میں بھاری اکثریت سے دوبارہ اس عہدے پر فائز ہوئے۔ اور
انہیں اکتوبر 1999ء میں جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کی فوجی بغاوت میں عہدے
سے ہٹا دیا گیا۔میر ظفر اﷲ خان جمالی بطور وزیر اعظم پرویز مشرف کی خارجہ
اور اقتصادی پالیسی کو بڑھاتے رہے لیکن وہ اس عہدے پر نا رہ سکے اور جون
2004ء میں مستعفی ہوئے۔چودھری شجاعت حسین جون 2004ء میں ظفر اﷲ خان جمالی
کے استعفے کے بعد وہ مسند وزیر اعظم پر بیٹھے۔شوکت عزیز نے 2007ء میں یہ
عہدہ سنبھالا اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے جنہوں نے اپنی پارلیمانی
میعاد پوری ہونے پر یہ عہدہ چھوڑا۔محمد میاں سومرو نے 2007ء میں نگراں وزیر
اعظم کا عہدا سنبھالا۔یوسف رضا گیلانی کو مارچ 2008ء میں وزیر اعظم بنایا
گیا۔ انہیں توہین عدالت کے مقدمے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہن عدالت
ثابت ہونے پرعہدے سے ہٹا دیا۔۔راجہ پرویز اشرف نے یوسف رضا گیلانی کے ہٹائے
جانے کے بعد یہ عہدہ سنبھالا۔میر ہزارخان کھو سو کو الیکشن کمیشن آف
پاکستان نے حکومت اور اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی کے نامزد کرنے پر نگراں
وزیر اعظم مقرر کیا۔ انہوں نے 25 مارچ، 2013ء کو اس عہدے کا حلف
اٹھایا۔نواز شریف5 جون، 2013ء کو وہ تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے۔ انہوں نے
اسوقت کے صدر آصف علی زردار ی سے حلف لیا اور 28 جولائی2017 کو سپریم کورٹ
نے پانامہ کرپشن کیس میں نااہل قرار دیا۔29 جولائی 2017 کو، شاہد خاقان
عباسی کو 45 دنوں کے لیے قائم مقام وزیر اعظم بنانے کا اعلان کیا گیا۔اب یہ
بحث بھی عوام میں عام پائی جاتی ہے نگران وزیراعظم کے لئے ابھی کوئی نام
فائنل نہ ہوناموجودہ حکومت اور اپوزیشن کی بہت بڑی ناکامی ہے اور ماہرین
اور مبصرین کاخیال ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو عام الیکشن کے بعد قائم
ہونے والی حکومت بھی زیادہ مضبوط نہیں ہوگی ۔کیونکہ مسلم لیگ ن کی اداروں
کے خلاف جاری مہم عام الیکشن میں ن لیگی رہنماؤں کی ناکامی کا باعث بن سکتی
ہے ۔اسلئے موجود ہ ن لیگ کی حکومت کے جلد بازی میں بہت سے کئے گئے اقدامات
نئی حکومت کیلئے مشکلات کا باعث بن جائیں گے ، جن ملکی وغیرملکی قرضے ، غیر
قانونی بھرتیاں ، من پسند ترقیاتی سکیمیں اور قومی اداروں نجکاری وغیرہ
شامل ہیں۔اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کی قیادت نگران وزیراعظم کے چناؤمیں سب
سے پہلے اپنے تحفظات پر غور کرنے میں مصروف عمل ہے اگرحکومت اور اپوزیشن
نگران وزیر اعظم فیصلہ کرنے ناکامی ہوئی تواس کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا
۔
|