جب بھی رمضان المبارک کا پاک مہینہ آتا ہے تو اسی وقت ذہن
میں جنگ ِ بدر کا عظیم معرکہ یاد آتا ہے جب کفرو الحاد کی طاقت اور شان و
شوکت مسلمانوں کی بے سروسامانی کے آگے بے بس نظر آئی یہ جنگ دو ہجری سترہ
رمضان المبارک کو ایک بدر نامی گاؤں میں برپا ہوئی جو مدینہ سے ۸۰ میل کے
فاصلے پر واقع ہے۔غزوۂ بدر حق اور باطل کے درمیان وہ پہلی جنگ تھی جس میں
قادرِمطلق نے مسلمانوں کی غیبی نصرت فرمائی اور اہل ایمان کو کامیابی و فتح
سے سرفراز فرمایا۔اس جنگ میں اہل ایمان کی تعداد کفار کے مقابلے میں تین
گنا کم تھی مسلمان وسائل اور فوجی سازوسامان کے حوالے سے بھی کمزور تھے ۔کفار
بڑے غرور اور رعونت کے ساتھ اپنی تین گنا بڑی فوج (جو فوجی ساز و سامان سے
لیس تھی) لے کر میدان میں اترے لیکن تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا اور
کفار کو ایسی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جس سے کفار کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ
میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔
یہ معرکہ کیونکر برپا ہوا اس کے پسِ منظر کی طرف جاتے ہیں جب حضرت محمد ﷺ
اور مہاجرین مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے لیکن کفار ِمکہ کی شدید
خواہش تھی کہ مسلمانوں کی اجتمائی قوت جو دن بہ دن منظم ہو رہی تھی اسے
ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے حضورؐکفار کے اس ارادے سے پوری طرح باخبر تھے
چنانچہ رجب دو ہجری میں حضورؐ نے کفار کے متوقع خطرے کے پیشِ نظر بارہ
آدمیوں پر مشتعمل ایک دستہ اس غرض سے بھیجا تاکہ ہر آنے جانے والے قریش کے
تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھ سکیں چنانچہ مسلمانوں کو قریش کا
ایک قافلہ مل گیا حضورؐ کی ہدایت کے برخلاف مسلمانوں نے قریشی قافلے پر تیر
چلائے جس کے نتیجے میں قریش کا ایک آدمی عمر بن الحضرمی مارا گیا اور دو
قریشی قیدی بنا لئے گے جب حضورؐ کو جب واقعے کا علم ہوا تو آپ ؐ نے غصے کا
اظہار کیا اور قیدیوں کو چھوڑ دیا اور مقتول کا خون بہا قریش کو ادا کر دیا
قریش نے تاوان تو وصول کر لیا لیکن اس واقعے کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا اور
عرب کے قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی مقتولین کے ورثاء نے
بھی انتقام لینے کے لیے اہل مکہ کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے
اکسایا۔قریشِ مکہ نے اسلامی ریاست کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور
مسلمانوں کے خلاف جنگ کی بھرپور تیاریاں شروع کر دیں چنانچہ دفاعی اور
معاشی طاقت مضبوط کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس مرتبہ جو تجارتی
قافلہ شام بھیجا جائے گا اوراس سے حاصل ہونے والا تمام منافع مسلمانوں کو
ختم کرنے کے لیے وقف ہو گالہذا ابوسفیان ؓ (نوٹ ۔ حضرت ابوسفیان ؓ فتح مکہ
کے موقع پر اسلام کی دولت سے سرفراز ہوگے تھے )کو اس تجارتی قافلے کا امیر
مقرر کیا گیا جب حضرت ابو سفیانؓ کا تجارتی قافلہ واپس آ رہا تھا توآپ ؓ کو
خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ قافلہ راستے میں لوٹ نہ لیا جائے اسی خطرے کو
محسوس کرتے ہوئے ابوسفیانؓ نے ایک ایلچی کو مکہ بھیجا تاکہ بروقت امداد
پہنچ سکے وہ ایلچی مکہ پہنچا اور اس نے شور مچا دیا کہ ابو سفیانؓ کے قافلے
پر حملہ ہونے جارہا ہے اے قریشِ مکہ فورا اس کی مدد کو پہنچو۔اہل مکہ سمجھے
کہ قریش کا قافلہ لوٹ لیا گیا ہے چنانچہ کفارِ مکہ مسلمانوں سے انتقام لینے
کے لیے نکل کھڑے ہوئے لیکن راستے میں معلوم ہوا کہ قافلہ تو صحیح سلامت
واپس آ رہا ہے لیکن قریش مکہ کے چالاک سرداروں نے فیصلہ کیا کہ اب مسلمانوں
کا کام تمام کر دیا جائے اس کے علاوہ عمر بن الحضرمی کے ورثاء نے حضرمی کا
انتقام لینے کے لیے اسرار کیا چنانچہ قریشی لشکر مدینہ کی طرف بڑھنے لگا
اور بدر کے مقام پر جا کر خیمہ زن ہو گیا ۔
جب حضور ؐ کو قریشی لشکر کی آمد کی خبر ہوئی تب آپ ﷺ نے صحابہؓ سے مشاورت
شروع کی اور اہل مکہ کے اس متوقع خطرے کے پیش نظر مشورہ طلب کیا تو صحابہؓ
نے اسلام کی سر بلندی کے لیے آپؐ کا بھر پور ساتھ دینے کی مکمل یقین دہانی
کرائی حضرت سعدبن عبادہ ؓ نے فرمایا ۔یا رسول اﷲ ؐ ہم آپ ؐ پر ایمان لائے
ہم نے آپ ؐ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپ ؐ لائے ہیں وہ حق
ہے ہم نے آپ ؐ کی فرمانبرداری اور اطاعت کا عہد کیا ہے یا رسول اﷲؐ جس طرف
آپ ؐ کی مرضی ہو تشریف لے چلیں اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ ؐ کو
مبعوث فرمایا اگر آپؐ ہم کو سمندر میں گرنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور اس
میں گریں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی باقی نہ رہے گا۔
چنانچہ صحابہؓ سے باہمی مشاورت کے بعد حضور ﷺ نے اپنے جانثاروں کو جنگ کی
تیاری کا حکم دے دیا مسلمانوں کے ذوقِ شہادت کا یہ عالم تھا کہ ایک نو عمر
صحابیؓ حضرت عمیر بن ابی وقاص ؓ اس خیال سے چھپتے پھررہے تھے کہ کہیں اسے
کم عمر ہونے کی بنا ء پر واپس نہ بھیج دیا جائے لہذا اسلامی لشکر بے
سروسامانی کے عالم میں میدانِ کارزار کی طرف بڑھنے لگا مسلمانوں کی ٹوٹل
تعداد تین سو تیرہ تھی وسائل کی کمی کا یہ عالم تھا کہ کسی صحابیؓ کے پاس
لڑنے کا پورا سامان بھی نہ تھا پورے لشکر کے پاس صرف ستر اونٹ اور دو گھوڑے
تھے وسائل اور دفاعی سازوسامان کی مسلمانوں کے پاس بھر پور کمی تھی جبکہ
کفار وسائل اور دفاعی سازوسامان سے لیس تھے۔محمد ﷺ کے شیروں کی یہ فوج بدر
کے مقام پر پہنچ کر ایک چشمہ کے قریب خیمہ زن ہوگئی۔
کفار طاقت کے نشے میں بدمست تھے رات بھر قریشی لشکر عیاشی اور شراب و شباب
کے نشے میں مگن رہالیکن دوسری طرف مسلمانوں کے امیر اور اﷲ تعالیٰ کے محبوب
پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے ساری رات اﷲ کے حضور آہ وزاری میں گزار دی اور اﷲ
تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح کی بشارت دے دی ۔جس جگہ مسلمانوں کا لشکر خیمہ
زن تھا وہاں پانی کی شدید کمی تھی اور ریت مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹ بن
سکتی تھی لیکن اﷲ تعالیٰ نے بارانِ رحمت کے ذریعے مسلمانوں کی بھرپور مدد
فرمائی جس سے ریت جم گئی جبکہ قریشی لشکر کی چکنی مٹی کی زمین پر کیچڑ پیدا
ہوگیا اور کفار کے مشکلات مزید بڑھ گئیں۔
سترہ رمضان دو ہجری کو نمازِ فجر کے بعد حضور ؐ نے صحابہ کرام ؓ کو جہاد کی
تلقین فرمائی مسلمانوں نے باقاعدہ منظم انداز میں صف بندی کی اور کفار کی
طاقت کا سر کچلنے کا عزم لے کر میدان کی طرف چل دئیے۔ مسلمانوں کے لیے یہ
سخت آزمائش کا وقت تھا کہ بھائی اپنے بھائی اور باپ اپنے بیٹے کے سامنے
مقابلے کے لیے تلوار لیے کھڑا تھا حضرت ابو بکر ؓ کو اپنے بیٹے عبدالرحمن
اور حضرت حذیفہ ؓ کو اپنے باپ عتبہ سے مقابلہ کرنا تھا ۔عرب کے دستور کے
مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر
مقابلے کے لیے میدان میں نکلا اور مد مقابل کو طلب کیا تو مقابلے کے لیے
حضرت عمر ؓ کا ایک غلام آیا اور اس نے عامر کا خاتمہ کر دیا اس کے بعد عتبہ
بن ربیع اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید بن عتبہ مقابلے کے لیے نکلے
اور مدمقابل طلب کیے تو تین انصاری مقابلے کے لیے آگے بڑھے تو ان تینوں
قریشی سرداروں نے انصاری صحابہ ؓ سے لڑنے سے انکار کر دیا کہ یہ ہمارے
مقابلے کے نہیں ہے ہمارے ہم پلہ نہیں ہے ہمارے مقابلے کے لیے کو ئی قریشی
بھیجو ہم عرب کے چرواہوں سے مقابلہ نہیں کرتے چنانچہ حضور ؐ کے حکم سے حضرت
حمزہؓ حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہ ؓ میدان میں آئے مغرور قریشی سرداروں نے
نام پوچھے صحابہ ؓ نے اپنے اپنے نام بتائے توانہوں نے کہا کہ ہاں تم ہمارے
ہم پلہ ہو ۔ تاہم مقابلہ شروع ہواچند ہی لمحوں میں حضرت حمزہ ؓ نے شیبہ اور
حضرت علیؓ نے ولید کو قتل کر دیا ۔قریش ِ مکہ نے جب اپنے سرداروں کو یوں
کٹتے دیکھا تو یکبارگی حملہ کر دیا تاکہ اکثریت کے بل بوتے پر مسلمانوں کو
شکست دے سکیں لیکن مسلمانوں کا جذبہ جہاد عروج پر تھا اور ساتھ اﷲ کی نصرت
بھی تھی جس کے سامنے کفار بے بس دکھائی دیے ۔نصرتِ الہی قدم بہ قدم
مسلمانوں کے ساتھ رہی گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی کہ اﷲ نے فرشتوں کو اہل
ایمان کی مدد کے لیے نازل فرمایا مسلمان ان فرشتوں کو انسانی صورتوں میں
دیکھ رہے تھے فرشتے مومنوں سے کہتے تھے کہ بہادر بنومضبوط رہو فتح اور نصرتِ
الہی تمہارے ساتھ ہے ۔
اس عظیم معرکے میں بڑے تو بڑے بچے بھی کسی سے کم نہ تھے دو کم عمر صحابی ؓ
حضرت معاذ ؓ اور حضرت معوذ ؓ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے پاس آئے اور پوچھا
کہ اے چچا کیاآپ ابوجہل کو پہچانتے ہو وہ کہا ں ہے ہم نے سنا ہے کہ وہ حضور
ؐ کی شانِ اقدس میں بھونکتا ہے ہم اس کا کام تمام کر دیں گے اتفاق سے ابو
جہل کا گزر سامنے سے ہوا حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے اس کی طرف اشارہ کیا
اور کہاکہ یہ ہے ابوجہل ۔اشارہ پاتے ہی محمدی ؐ فوج کے یہ کمسن شیر تلواریں
لیکر ابو جہل پر ٹوٹ پڑے اور چند ہی لمحوں میں ابو جہل کوٹھنڈا کردیا اور
حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ نے ابو جہل کا سر تن سے جدا کر دیا اس حملے میں ابو
جہل کے بیٹے عکرمہ نے حضرت معاذ ؓ کے بازو پر ضرب لگائی جس سے آپؓ کا بازو
کٹ گیا۔
اس میدان میں ابو جہل کے علاوہ امیہ بن خلف (جس نے حضرت بلال ؓ پر بہت ظلم
کیے تھے ) اہم سرداروں سمیت مارے گے اور یہ مغرور لشکر میدانِ جنگ چھوڑ کر
تتر بتر ہو گیا ۔اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطاء فرمائی اور دنیا نے
دیکھ لیا کہ فتح و شکست میں مادی قوت سے زیادہ روحانی قوت کا عمل دخل ہوتا
ہے اس غزوۂ میں کل چودہ مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا اور مقابلے میں
70 کفار مارے گے جن میں سے 36 تو حضرت علیؓ نے جہنم واصل کیے اور 70 کفار
کو قیدی بنا لیا گیا مشاورت سے قیدیوں کے متعلق فیصلہ کیا گیا کہ انہیں
فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے لہذا جن قیدیوں کے پاس رقم تھی انہوں نے وہ رقم
مسلمانوں کو دے کر رہائی حاصل کر لی اور جن کے پاس پیسے نہیں تھے انہیں
مدینے لے جایا گیا اور ان قیدیوں میں سے کچھ پڑھے لکھے تھے ان سے کہا گیا
کہ وہ مسلمانوں کے بچوں کو پڑھا دیں ۔ان قیدیوں کو اتنے آرام سے رکھا گیا
وہ بعد میں کہتے تھے کہ خدا رحم کرے اہلِ مدینہ پر کہ جنہوں نے خود کھجوروں
پر گزاراہ کیا اور ہمیں روٹی مہیا کی۔
جنگِ بدر کا خاتمہ مسلمانوں کی فتح و کامرانی کے ساتھ ہوا سلامی تاریخ کی
مقبول ترین جنگ مسلمانوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ فتح و شکست کا د ارومدار
انسانی وسائل پر نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ پر یقین محکم سے ہوتا ہے۔ |