تھائی لینڈ میں تربیت فراہم کرنے والے ادارے کے آرگنائزر
کیساتھ بنکاک شہر کے مختلف علاقوں کی سیر کے بعد ڈریم نامی لڑکی اور امریکی
لڑکے نتن نے عصر کے وقت بنکاک کے سٹی ریلوے سٹیشن کا رخ کیا وہاں پر ان
لوگوں نے ٹکٹ خریدی . جب ہم وہاں پر پہنچے تو چونکہ میں پہلے آیا تھا اس
لئے مجھے شہر کی سیر کروائی گئی جبکہ تربیت حاصل کرنے والے دیگر افراد اسی
وقت براہ راست بنکاک ائیرپورٹ سے بنکاک کے سٹی ریلوے سٹیشن پر پہنچے .
تربیت حاصل کرنے والوں میں بھارت سے نینا نامی ایک فوٹو گرافر تھی جس کی
رہائش کینیڈا میں تھی اور فری لانسر کے طور پر کام کرتی تھی اس کے ساتھ
بھارت سے دوسری ایک خاتون جس کا نام سمیتا تھا وہ فلمساز تھی اور باچا خان
پر بننے والی فلم سرحدی گاندھی کو بطور پروڈیوسر اسی نے بنایا تھا انگلینڈ
سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی ایمانوی تھی وہ ایک آن لائن ایجنسی کی ایڈیٹر
تھی اور سٹیزن جرنلزم کو فروغ دینے کی خواہاں تھی ایک اور لڑکی جس کا نام
لینا تھا وہ بنیادی طور پر بچوں کے حقوق کیلئے کام کرتی تھی اور اسی پر اس
نے کانگو میں ایک فلم بھی بنائی تھی ایک اور لڑکی جس کا نام اولگا تھا
زمبابوے سے تعلق رکھتی تھی اس نے الجزیرہ ٹی وی چینل کیساتھ بطور انٹرن بھی
کام کیا تھا رپورٹنگ کیساتھ ساتھ ایک این جی او سے بھی وابستہ تھی . تربیت
حاصل کرنے والی ایک اور خاتون فردوس تھی جس کا تعلق جنوبی افریقہ کے
انڈیانا نامی علاقے سے تھا یہ بھی بچوں کے حقوق کیلئے کام کرتی تھی اور
بطور فری لانس صحافی کے طور پر بھی کام کرتی تھی - تربیت حاصل کرنے والی
بیشتر خواتین تھی اور فری لانسر تھی جبکہ میں اور امریکہ سے تعلق رکھنے
والا نتن کل وقتی صحافی تھے .
بنکاک سے چنگ مائی کا دس گھنٹے کا سفر تھا جس وقت ہم گاڑی میں بیٹھ گئے ٹکٹ
چیکر آگیا اس نے خوش اخلاقی اور ہنس مکھ چہرے سے خوش آمدید کہا اور ٹکٹ
دکھانے کو کہا جو ہمارے تربیت دینے والے ادارے کے آرگنائزر نے انہیں دکھا
دئیے ایک خاتون نے مجھ سے سوال کیا کہ رات کے کھانے میں کیا کھاؤ گے ابھی
سے بتا دو تاکہ کھانا بروقت مل سکے میں نے اسے کہہ کہ مسلمان ہوں سور کا
گوشت مت کھلانا باقی جو بھی گوشت ہیں لے آؤ -اس خاتو ن نے ریل کی خاتون
اہلکار کو کچھ کہہ دیا اور کہا کہ یہ تمھارا کھانا لے آئیگی . میں بھی
خاموش ہوگیا.جس کے بعد سفر کا آغاز ہوا گپ شپ ہوتی رہی . صاف ستھرے شیشوں
سے بنکاک کا سفر بہت زبردست ، لوگوں کا ہجوم تھا لیکن کوئی بھی بدنظمی
دیکھنے میں نہیں آئی . انہیں دیکھ کر اپنے ہاں کے ریل کا سفر یاد آیا. ایک
ہی مرتبہ نوشہرہ سے پشاور تک ریلوے میں سفر کیا اور وہ بھی اس وقت جب ہم
کامرس کالج پشاور کے طالب علم تھے. تھے تو کالج میں لیکن ایک سیاسی پارٹی
کے طلباء ونگ کا حصہ تھے اور زندہ باد مردہ باد کے شوقین ہم بھی تھے سو
دوستوں کے ساتھ پشاور کے سٹی ریلوے سٹیشن سے نوشہرہ تک کا سفر کیاجو بغیر
ٹکٹ کے تھا اور ہم نے بدمعاشی بھی بہت کی تھی.ہم سے اس وقت لوگ بہت پریشان
تھے . بعد میں یونیورسٹی میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے طلباء و طالبات کا ایک
ٹرپ اٹک کا بنا تھا جس میں بہت سارے صحافی دوست بھی گئے تھے . یہ ٹرین کا
دوسرا سفر تھا جس پر ٹکٹ دئیے تھے اور ہم آرام سے بیٹھے تھے اور لوگوں نے
ہمیں پریشان کیا تھا. الامان الحفیظ . ہمارے ہاں لوگ ٹکٹ لیکر سمجھتے ہیں
کہ پورے ٹرین کو ہم نے خریدلیا ہے.
خیررات کا کھانا آگیا تربیت حاصل کرنے والی خواتین کو آفر کی کہ کھانے کا
اگر موڈ ہے تو ساتھ کھاتے ہیں لیکن انہوں نے شکریہ ادا کیا وہ کھانے میں
چاول بھی لائے تھے لیکن یہ چاول بھی ہمارے طرح کے نہیں تھے بلکہ پانی میں
ابال کر ڈالے گئے تھے دل پر پتھر رکھ کر چاول کھا لئے . ایک پیالے میں سفید
گوشت لیکر آئے تھے ذائقہ بھی اتنا اچھا نہیں تھا لیکن اس خاتون نے جو کھانا
لیکر آئی تھی ساتھ میں دو سو بھات کا بل تھما دیا تھا اس لئے مجبوراوہ سفید
گوشت بھی کھا لیا اسی دوران تربیت حاصل کرنے والے ساتھیوں نے برتھ کھول
دئیے اور سونے کی تیاری کرنے لگے.میں دانتوں پر برش کے بعد اس مینو
کودیکھنے لگا جو وہ خاتون لیکر جارہی تھی اس مینو پرمختلف تصاویر تھی جب
میں نے اس سے سوال کیاکہ گوشت کونسا والا مجھے دیا تھا تو اس نے جیب سے ایک
اور کتاب نکالی جس پر مجھے اشاروں سے بتا دیا کہ میں نے کونسا گوشت کھایا
اور جس چیز کی طرف اس نے اشارہ کیا تھا دیکھ کر میرا تو کلیجہ ہی بھر آیا
کیونکہ..
اس ظالم کی بچی نے مجھے بطخ کاگوشت کھلایا تھا دل خراب ہوگیا جلدی سے باتھ
روم کی طرف بھاگ گیا کوشش کی کہ جو گوشت کھا یا ہے اسے باہر ہی نکال دو
کیونکہ دل خراب ہوگیا ہے لیکن پھربھی کچھ نہیں نکلا لیکن دل بہت خراب ہے .
پانی پی پی کر منہ کا ذائقہ بدلنے کی کوشش کی لیکن جو ہونا تھا وہ ہوگیا
تھا یعنی زندگی میں پہلی مرتبہ بطخ کا گوشت کھا لیا اور وہ بھی انجانے میں.
خیر جلدی سے بیگ سے بسکٹ کا پیکٹ نکال اور اسے کھا کر منہ کا ذائقہ بہتر
کرنے کی کوشش کی اور اسی دوران برتھ پر لیٹے لیٹے ہی سو گیا.ایک اور بات جو
میں بھول گیا کہ ہماری بوگی میں ایک جوڑا جن کا تعلق نیدر لینڈ سے تھا
ہمارے ساتھ وہ بھی چنگ مائی جارہے تھے دونوں دوست تھے. دونوں ایک دوسرے میں
ایسے گم تھے کہ جیسے بوگی میں کوئی اور نہیں . لڑکا خاموش تھا جبکہ لڑکی
بڑی باتونی تھی اس نے تربیت حاصل کرنے والی تمام لوگوں سے تعارف کروایا ایک
دوسرے کیساتھ کارڈز کا تبادلہ کروایا . جب میں نے اپناتعارف کروایا تو بہت
حیران ہوئی کہہ رہی تھی کہ یہ میرے لئے حیران کن بات کہ ایک ہی بوگی میں
ایک ہی تربیت حاصل کرنے کیلئے بھارت ، پاکستان اور امریکہ کے لوگ ایک ساتھ
جارہے ہیں. بقول اس کے دنیا میں ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرنے والے ممالک
کے شہری کس طرح ایک ہی بیٹھے ہیں- یہ ٹرین کا سفر بھی کچھ عجیب سا تھا ہر
قسم کے لوگ سٹیشن میں ، بوگی میں اور مختلف سٹیشنوں پر ریل گاڑیوں کا
انتظار کرتے دیکھے.
صبح چھ بجے جس ریلوے سٹیشن پر گاڑی رکنے والی تھی اس سے قبل ہمیں جگا کر
بتایا گیا کہ یہ ہمارا سٹیشن ہے اور یہاں پر اترنا ہے جلدی سے تیار ہو گئے
ریلوے سٹیشن پر ایک مسافر کوچ کھڑی تھی جس میں داخل ہونے کے بعد جوس اور
بسکٹ کے پیکٹ تھما دئیے گئے اور پھر چنگ مائی جہاں ہماری رہائش تھی وہاں پر
جانے کیلئے سفر کا آغاز ہوا. راستے میں ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ایک جگہ رک
گئے ہمیں کمرے الاٹ کئے گئے مجھے اور نتن کو ایک کمرہ الاٹ ہوا الگ الگ بیڈ
تھے.نتن تو کمرے میں جاتے ہی سو گیا اور مزے کی بات کہ شوزاتار کر جرابے
اتار کر بس بستر میں گھس گیا.میں بھی اپنے بیڈ پر آگیا لیکن کچھ ہی دیر بعد
بدبو سے برا حال ہوگیا .
ناک کے زور سے بدبو کی جگہ کا پتہ کیا تو نتن نے جو جرابیں اتار ی تھی یہ
اس کی بدبو تھی . میرے اپنے پاؤں بھی بدبو کرتے ہیں لیکن اف .. کمرے میں دم
گھٹ رہا تھا لگتا تھا کسی باتھ رومز میں بند ہوگیا ہو جبکہ اس کے مقابلے
میں نتن نے پانچ منٹ بعد خراٹے لینے شروع کردئیے .اور میں اپنی قسمت کو کوس
رہا تھا کہ یہ کدھر آکر پھنس گیا یعنی ایک تو بدبو اور پھر خراٹے ، سوچ سوچ
کر کبھی آنکھیں بند اور کبھی آنکھیں کھلی ، کبھی بنکاک کے بازار ، لینی کے
ساتھ چکر اور کبھی گھر والے یاد آتے اتنے میں گیارہ بج گئے اور ہمیں کہا
گیا کہ گیارہ بجے کے بعد باہر جانا ہے.
(سال 2012 میں میری لکھی گئی تھائی لینڈکے دورے کے دوران پشتو زبان میں
لکھے گئے سفر نامے کی سولویں قسط) |