میں نے ڈرائیور سے چنگی مینشن جانے کا کہا۔جواب میں
ڈرائیور نے عجیب سا منہ بنایا اور پوچھا ،’’ کیا‘‘۔میں نے سمجھا کہ میرا
لہجہ شاید اسے صحیح نہیں بتا سکا۔ میں نے منہ کو تھوڑا ٹیڑھا کیا اور پھر
کہا ’’چونگی مینشن‘‘۔ اسے کچھ سمجھ نہ آئی۔ اس کے بعدمیں نے منہ کو کئی
زاویوں پر گھمایااور لہجہ بدل بدل کر چنگی مینشن کہا مگر ہر دفعہ ناکامی کا
سامنا ہوا۔ ڈرائیور کو کچھ سمجھ نہ آئی۔ تھک کر میں سوچنے لگا کہ کیا کروں۔
اچانک ڈرائیور نے پوچھا۔ ’’تمھارا تعلق کس ملک سے ہے‘‘۔ میں نے پاکستان
بتایا۔ اس نے دوبارہ پوچھا۔ ’’ہوٹل لینا ہیــ‘‘۔ میرے ہاں کہنے پر اس نے
مجھے مسکرا کر بیٹھنے کا کہا۔ لگتا تھا اسے چونگی مینشن سمجھ آ گیا ہے۔یہ
ہانگ کانگ کا ائیر پورٹ تھا۔میں لاہور سے چلا تھا تو میرے ایک دوست نے
مشورہ دیا تھا کہ ہانگ کانگ مہنگا شہر ہے وہاں ہوٹل میں ٹھہرنابہت مہنگا ہے۔
بہتر ہے چونگی مینشن چلے جانا، ستا ہوٹل مل جائے گا۔اب مجھے سستے ہوٹل کی
تلاش تھی اور اس کے لئے مجھے چونگی مینشن جانا تھا۔ہانگ کانگ میں دنیا کے
ہر ملک کے لوگ موجود ہیں۔ انگریزی ہر شخص جانتا ہے مگر چونگی مینشن سے لگتا
تھا لوگوں کی واقفیت کم تھی۔ میری کچھ دیر کی محنت کے بعد اب ٹیکسی تیزی سے
چونگی مینشن کی طرف گامزن تھی۔
ہانگ کانگ چھوٹے چھوٹے بہت سے جزیروں اور دو بڑے جزیروں پر مشتمل ہے ۔کولون
اور ہانگ کانگ۔ تمام کاروبار اور مارکیٹیں کولون میں ہیں۔ یہ بہت بڑا
کاروباری مرکز ہے۔ انتظامی دفاتر اور تمام انتظامیہ ہانگ کانگ میں ہو تی
ہے۔ایک چھوٹا سا پل دونوں جزیروں کو آپس میں ملاتا ہے۔کولون کے مرکز میں
ناتھن روڈ ہے۔ٹیکسی ناتھن روڈ پر چلتی ہانگ کانگ کو ملانے والے پل سے تھوڑا
پہلے ایک بلڈنگ کے سامنے رکی ۔ڈرائیور نے اشارہ کیا کہ منزل آ گئی۔ میں
کرایہ دے کر اترا ۔ بلڈنگ پر موٹا موٹا لکھا تھا، ’’میرا ڈور مینشن‘‘۔ اس
نے مجھے غلط جگہ اتارا تھا۔ایک دم مجھے بہت سے لوگوں نے گھیر لیا۔ ہر بندہ
پوچھ رہا تھا، ’’ہوٹل چاہیئے‘‘۔ پوچھنے والے سارے پاکستانی، انڈین، بنگلہ
دیشی اور سری لنکن تھے۔ سوچا چلو، چنگی مینشن نہ سہی لیکن صحیح جگہ آ گیا
ہوں۔پوچھنے والے ہجوم کو میں انکار کرکے بلڈنگ کے اندر داخل ہو گیا۔
گراؤنڈ فلور پر مارکیٹ تھی۔ پاس سے گزرتا ایک نوجوان یکدم رکا، میری طرف
مڑا۔ اور مسکرا کر پوچھا، ’’پاکستان سے آئے ہیں‘‘۔ میں نے ہاں میں جواب دیا۔
تو بولا، ’’میرا تعلق سیالکوٹ سے ہے ۔آپ کہاں سے ہیں‘‘۔ میں نے لاہور کا
بتایا تو کہنے لگا، ہوٹل چاہیےے تو میرے ساتھ ہی آ جائیں ۔ میرا اپنا چھوٹا
سا گیسٹ ہاؤس ہے ۔ سستے اور اچھے کمرے ہیں۔ آپ کو پسند آئیں گے۔ چار لگژری
کمرے ہیں بمعہ باتھ روم۔ چار عام کمرے ہیں بغیر باتھ روم اور ایک بڑا
اجتماعی کمرہ ہے۔ ہم لفٹ پر چوتھی منزل پر آگئے۔ یہاں ہر دوسرا تیسرا کمرہ
گیسٹ ہاؤس تھا۔ وہ مجھے لے کر اپنے گیسٹ ہاؤس آ گیا۔ میں نے لگژری روم کے
تین دن کے لئے ایک سو پچاس ہانگ کانگ ڈالر دئیے اور کمرہ نمبر ایک، جو مجھے
دیا گیا تھا، میں پہنچ گیا۔کمرے کا سپرنگ لگادروازہ باہر کھلتا تھا۔دروازے
کے آگے بمشکل صرف ڈھائی مربع جگہ تھی۔ بالکل سامنے واش روم کا گیٹ
تھا۔دائیں طرف تقریباً چھ فٹ اور چار فٹ جگہ پر ایک پلنگ اس طرح لگا تھا کہ
چاروں طرف ایک انچ بھی باقی نہیں بچی تھی۔ پلنگ عام پلنگ سے کوئی چھ انچ
اونچا تھا۔ اس پر ایک پتلا سا گدا بچھا ہوا تھا۔میں نے واش روم کا دروازہ
کھولا ،ایک کموڈ لگا تھا جس نے ساری جگہ گھیری ہوئی تھی۔کہانیوں میں
کوفن(Coffin) کیبن کے بارے سنا تھا،آج دیکھ بھی لیا۔
دروازہ کھلا اور گیسٹ ہاؤس کے مالک تشریف لے آئے۔’’پسند آیا آپ کو کمرہ‘‘۔
انہوں نے سوال کیا۔ ’’بس ٹھیک ہے۔ مگر نہانے کے لئے کہاں جانا ہو گا‘‘۔ میں
نے کہا۔ جواب ملا، ’’ کہاں جانا ہے جناب اس کمرے میں ہر چیز ہے۔یہ کموڈ
دیکھیں اگر کموڈ استعمال کرنا ہوتو ڈھکن اٹھائیں۔ کموڈ استعمال کر لیں۔ اگر
نہانا ہو تو ڈھکن بند کر دیں۔ ایک ٹانگ کموڈ کے دائیں رکھیں ، دوسری بائیں۔
اوپر شاؤر لگا ہے مزے سے نہا لیں ۔ سامان جتنا مرضی ہو پلنگ کے نیچے وافر
جگہ ہے ۔ ہر سہولت ہے‘‘۔میں ہنس دیا۔ نہانے کے لئے ٹانگوں کو تین فٹ چوڑا
کرنا بہت ضروری تھا۔یہ لگژری روم کا حال تھا۔ میں نے دوسرے روم دیکھنے کی
خواہش کی ۔ نان لگژری روم 6X4 فٹ کا تھا۔دروازہ کھولو، پلنگ شروع۔ سامان
اور جوتے پلنگ کے نیچے رکھو اور چھلانگ لگا کر اوپر چڑھ جاؤ۔دو واش روم
مشترکہ تھے۔ صبح اٹھیں اور باری کا انتظار کریں۔اجتماعی کمرے پر نظر ڈالی۔
کوئی پندرہ سولہ فٹ لمبا اور تیرہ چودہ فٹ چوڑا ہو گا۔ ایک بہت بڑی رضاعی
پڑی تھی۔ آپ صرف پانچ ہانگ کانگ ڈالر دے کر اس رضاعی میں گھس سکتے ہیں۔ پتہ
چلا کہ یہ کمرہ صرف مغربی لوگوں کے لئے مخصوص ہے۔شام کو وہ آنا شروع کرتے
ہیں اور پیسے دے کر گھستے چلے جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا، ’’بیس لوگ تو آسانی
سے آ جاتے ہوں گے‘‘۔ کہنے لگے،’’ بیس نہیں پچاس آسانی سے آجاتے ہیں۔ کبھی
کبھی تو ستر تک آ جاتے ہیں‘‘۔کیسے میں نے حیران ہو کر پوچھا۔’’ یہ میں نہیں
جانتا کیسے مگر یہ مغرب کے لوگ ہیں جو یہ کر جاتے ہیں۔ ہمارے ایشیائی تو
خوامخواہ شور مچا دیتے ہیں، اس لئے یہ کمرہ ان کو کسی صورت میں نہیں
دیتے‘‘۔ میں پریشان ہو گیا۔ بمشکل بیس آدمیوں کی گنجائش اور ستر آدمی گھس
جاتے ہیں۔ میں واقعی لگژری روم میں مقیم تھا۔
رات اس لگژری روم میں گزارنے کے بعد میں صبح تیار ہوا اور ناشتے کے لئے
باہر نکلا۔ وہاں موجود ایک شخص نے بتایا کہ ساتھ والے پلازے میں بہت اچھا
ناشتہ ملتا ہے بہتر ہے وہاں چلے جائیں۔میں ساتھ والے پلازے پہنچ گیا۔دروازے
پر موٹا موٹا لکھا تھا، چنگ کنگ مینشن۔تو یہ چونگی مینشن ہے۔میں سمجھ گیا۔
میں نے وہاں ناشتہ بھی کیا اور مختلف لوگوں سے اس پلازے کے بارے معلومات
لینے کے ساتھ ساتھ وہاں کے گیسٹ ہاؤسز کا چکر بھی لگایا اور بالآخر دوپہر
کے وقت اپنا سامان اٹھا کر اس چنگی مینشن کے ایک بہت پہتر گیسٹ ہاؤس میں
سو(100) ہانگ کانگ ڈالر روزانہ پر ایک نئے کمرے میں شفٹ ہو گیا۔
چنگ کنگ مینشن جس کو عام پاکستانی چونگی مینشن کہتے ہیں ہانگ کانگ کے
کاروباری مرکز میں واقع ناتھن روڈ پر ایک سترہ منزلہ عمارت ہے جو دنیا بھر
میں سیاحوں کے لئے سستی ترین رہائش گاہ کے لئے مشہور ہے۔اس کے پانچ مختلف
بلاک ہیں اور ہر بلاک کے لئے علیحدہ علیحدہ لفٹیں ہیں۔ بنیادی طور پر یہ
ایک رہائشی بلڈنگ تھی مگر 1961 میں بننے والی یہ عمارت اب زیادہ تر چھوٹے
چھوٹے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کا گڑھ ہے۔ اب گیسٹ ہاؤسز کا بزنس اس قدر پھیل
گیا ہے کہ ملحقہ پلازے بھی گیسٹ ہاؤسز کا مرکز ہیں اور اس مینشن کا حصہ ہی
تصور ہوتے ہیں۔چنگ کنگ مینشن کی پہلی دو تین منزلوں پر کپڑے۔ عینکوں، گفٹ
کی چیزوں، منی چینجر اور کھانے پینے کی دکانیں ہیں۔تقریباً 4000 لوگ یہاں
مستقل رہائش پذیر ہیں اور 10000 سے زیادہ لوگ روزانہ اس بلڈنگ میں آتے ہیں۔
دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جس کا شہری یہاں نہ ٹھہرا ہو۔
کسی بھی گیسٹ ہاؤس میں رہائش سے پہلے تھوڑی سی اس کے بارے معلومات لینا
ضروری ہے اس لئے کہ جہاں بہت صاف ستھرے گیسٹ ہاؤس ہیں وہاں بہت سے منشیات
اور جنسی بے راہروی کے حوالے سے بدنام ہیں اور ایسی معلومات آسانی سے مل
جاتی ہیں۔یہاں دنیا کا ہر نشہ میسر ہے۔ میں ایک پاکستانی کی دکان پر بیٹھا
گپ شپ کر رہا تھا۔ دکان کے سامنے دیوار پر بہت سے اشتہارات تھے۔ ایک اشتہار
پر لکھا تھا،’’دنیا کی کسی بھی ائیر لائن کی ائیر ہوسٹس سے دوستی کے لئے اس
فون پر رابطہ کریں‘‘۔میں نے کہا، ’’ احمقانہ اشتہار ہے۔ مسلمان ملکوں کی
ہوائی میزبان اس حد تک تو گر نہیں سکتیں‘‘۔دکاندار ہنس کر کہنے لگا، ’’کچھ
نہیں کہہ سکتے، ہم نے یہاں جو کچھ دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں، کسی کو بتاتے
بھی شرم آتی ہے، بس دعا کریں، اﷲہمارا بھرم قائم رکھے‘‘۔ میں چائینہ جانے
سے پہلے تین دن چنگ کنگ مینشن میں مقیم رہا۔ ہانگ کانگ ایک خوبصورت جگہ ہے
اور یہ مینشن اس کا دل ہے۔ کم بجٹ میں آپ آسانی سے یہاں قیام کر سکتے
ہیں۔آپ کاروباری ہوں یا سیاحت کے شوقین، آپ کو یہاں بھرپور تعاون اور مواقع
ملیں گے۔ یہاں ہر طرح کے لوگ آپ کو ملیں گے ، بہت اچھے بھی اور بہت برے بھی
۔ یہ اس بلڈنگ کا مزاج بھی ہے اور پورے ہانگ کانگ کا بھی۔ یہاں آپ کو ہر
جگہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ اچھے یا برے کا انتخاب تو ہمیں خود
کرنا ہوتا ہے۔ |